کسی بھی پارٹی کا منشور مزدور کا محافظ نہیں، رہنما

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  جمعـء 27 اپريل 2018
خاتون کاشتکار پر لیبرقوانین لاگو  ہی نہیں،آئمہ محمود، خاتون مزدور کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی، ممتاز مغل، ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

خاتون کاشتکار پر لیبرقوانین لاگو  ہی نہیں،آئمہ محمود، خاتون مزدور کے مسائل پر توجہ دینا ہوگی، ممتاز مغل، ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مزدور کی کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جارہا ہے جبکہ مزدوروں کی فلاح کیلیے ہیلتھ اینڈ سیفٹی بل بھی اسمبلی کے موجودہ سیشن سے پاس کرالیا جائے گا جس سے مزدوروں کی حالت بہتر ہوگی۔

بدقسمتی سے ملک میں انگریز دور کے فیکٹری قوانین رائج ہیں جس سے مزدوروں کا استحصال ہورہاہے، محنت کش خواتین کو حقوق نہیں مل رہے جبکہ زرعی شعبے میں کام کرنے والی خواتین پر تو لیبر قانون ہی لاگو نہیں ہوتے، بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں مزدوروں کو تحفظ دینے کی بات نہیں کی اور حکومت کے اپنے اداروں میں ٹریڈ یونین پر پابندی ہے، پارلیمنٹ اور پالیسی ساز اداروں میں مزدوروںکو مناسب نمائندگی دی جائے۔ ان خیالات کا اظہار مزدور رہنماؤں نے ’’مزدوروں کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئین لیگ لیبر ونگ پنجاب کے صدر مشتاق حسین شاہ نے کہاکہ پنجاب حکومت وزیراعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں مزدوروں کے حوالے سے تندہی سے کام کررہی ہے، بھٹہ مزدوروں کے حوالے سے قابل تعریف کام کیا گیا ہے، 90ہزار بھٹہ مزدور بچوں کو اسکول میں داخل کرایا گیا جنھیں ماہانہ 2ہزار روپے وظیفہ، مفت کتابیں، یونیفارم و دیگر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔

آل پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل خورشید احمد نے کہاکہ پاکستان کا آئین مزدور سمیت تمام پاکستانیوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے جن میں تعلیم، صحت، یکساں سلوک، انجمن سازی و دیگر شامل ہیں، جن معاشروں میں جمہوریت اور سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں مزدور کی عزت ہوتی ہے۔

آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی سیکریٹری جنرل آئمہ محمود نے کہاکہ70برسوں میں حکمرانوں کو مزدوروں کے لیے قانون سازی کا خیال نہیں آیا، بدقسمتی سے ملک میں انگریز دور کے فیکٹری قوانین رائج ہیں جس سے مزدوروں کا استحصال ہورہا ہے، فیکٹری مالکان سوشل سیکیورٹی میں مزدوروں کو رجسٹر نہیں کراتے، زیادہ تر رجسٹریشن جعلی ہوتی ہے، اس وقت ایک ملین سے زائد ملازمین سوشل سیکیورٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں ، معاملات کو مزید بہتر کیا جارہا ہے۔

لیبر انسپیکشن کا طریقہ کارILO کنونشن سے متصادم ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پالیسی سازی میں مزدوروں کو نظر انداز کیا جاتاہے، یہ طے ہوا تھا کہ سہ فریقی کانفرنس بلائی جائے گی مگر وزارت نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔ 90فیصد خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کیا جاتا ہے، 1 فیصد خواتین یونینز میں ہیں لہٰذا خواتین کو فیصلہ سازی میں مناسب نمائندگی دی جائے۔ مزدوروں کو پالیسی ساز ایوانوں میں نمائندگی دی جائے۔ ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن ممتاز مغل نے کہاکہ لیبر موومنٹ مزدوروں کے تحفظ کیلیے شروع ہوئی ، اسے سماجی و صنفی مساوات کے تناظر میں دیکھا جائے۔

فیکٹری مزدور، ڈومیسٹک ورکر، ہوم بیسڈ ورکر اور زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدور ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، فیکٹری مزدوروں کے علاوہ دیگر شعبوں پر قوانین محنت لاگو نہیں ہوتے جبکہ اب کہا گیاہے کہ زرعی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو مرحلہ وار تسلیم کیا جائے گا۔

لیبر یونینز کو زرعی مزدوروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے، مرد و خواتین کے اوقات کار میں فرق ہے، انھیں ایک سا معاوضہ بھی نہیں ملتا جبکہ خواتین کو ملازمت کی جگہ پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے، انھیںٹرانسپورٹ کامسئلہ بھی درپیش ہے لہٰذا ان تمام مسائل پر توجہ دینا ہوگی۔ مزدوروں کا نصف حصہ غیر رسمی شعبے میں کام کررہا ہے مگر ان کے حقوق وتحفظ کے حوالے سے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔