پروٹو کول

جاوید چوہدری  پير 15 اپريل 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم بل کلنٹن سے اسٹارٹ کرتے ہیں‘ بل کلنٹن کا صدارتی دور انتہائی ہنگامہ خیز تھا‘ بل کلنٹن نے 20 جنوری 1993 کو صدارتی عہدہ سنبھالا، بجٹ خسارہ کم کیا‘26 فروری 1993 کو ورلڈ ٹرید سینٹر میں امریکی تاریخ کا ہولناک ترین بم دھماکا ہوا جس کے بعد القاعدہ سے امریکا کی لڑائی شروع ہو گئی‘روس اور چین کے ساتھ بہتر تعلقات کی کوششیں کیں‘ 1996 کے انتخابات میں دوبارہ فتح حاصل کی‘ 1998 میں وائیٹ ہاؤس کی ملازمہ ’’ مونیکا لیونسکی‘‘ سے غیر اخلاقی تعلقات کا الزام لگا‘کلنٹن نے1999 میں اپنے فعل پر قوم سے معافی مانگی‘ کلنٹن 20 جنوری 2001 کو وائٹ ہاؤس سے نکلا اور آج کلنٹن کو گئے بارہ سال ہو گئے لیکن آج تک اس کی کوئی خبر نہیں آئی‘ یہ میڈیا کے سامنے آیا‘ اس نے کوئی بیان جاری کیا‘ کسی کی مذمت کی اور نہ ہی کسی کی تعریف‘ یہ نیویارک کے علاقے ویسٹ چیسٹر میں ایک عام امریکی شہری جیسی زندگی گزار رہا ہے‘ کتابیں پڑھتا ہے‘ جاگنگ کرتا ہے‘ گالف کھیلتا ہے‘ یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتا ہے اورفلمیں دیکھتا ہے‘ اس کو کسی قسم کا سرکاری پروٹوکول بھی حاصل نہیں‘ یہ اپنی گاڑی خود چلاتا ہے‘ مارکیٹ سے اپنا سودا سلف خود خریدتا ہے اور اپنے صحن کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے۔

آپ اس کے بعد جارج بش کی مثال لیجیے‘ یہ بھی آٹھ سال کی ہنگامہ خیز صدارتی مدت گزار کر 20 جنوری 2009 کو ریٹائر ہو ا‘ اس کے دور میں نائین الیون سے لے کر عراق پر حملے تک اور افغانستان پر چڑھائی سے لے کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ تک دنیا میں کیا کیا نہیں ہوا؟ اور بش ان تمام عالمی واقعات کے دوران ساڑھے چھ ارب لوگوں کی اس دنیا کا مرکز نگاہ تھا‘ اس بش کی دوسری صدارتی مدت 2009 میں ختم ہوئی اور یہ بھی اس کے ساتھ ہی گوشہ گمنامی میں چلا گیا‘ آپ نے چار برسوں سے جارج بش کی کوئی خبر نہیں سنی ہو گی‘ یہ بھی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر زندگی گزار رہا ہے‘ یہ اپنے فارم ہاؤس میں گھوڑے دوڑاتا ہے‘ گائے کا دودھ دھوتا ہے‘ کتابیں پڑھتا ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ گپ لگاتا ہے اور صدر اوبامہ بھی یہی کرے گا‘ یہ اپنی دوسری مدت پوری کرنے کے بعد شکاگو واپس جائے گا اور باقی زندگی ایک عام امریکی شہری بن کر گزار دے گا۔

آپ برطانیہ کے وزراء اعظم کو بھی دیکھ لیجیے‘ برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر نومبر 1990 میں ریٹائر ہوئی ‘ یہ 8 اپریل 2013 کو انتقال کر گئی‘ آپ نے ان 23 برسوں میں اس کا کوئی بیان نہیں پڑھا ہو گا‘ یہ 23 برس پس منظر میں رہی‘ جان میجر مئی 1997 میں وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوا‘ یہ آج کل لارڈز میں کرکٹ میچ دیکھتا ہے اور دوستوں کے ساتھ گپ لگاتا ہے‘ آپ نے کبھی اس کا بیان بھی نہیں پڑھا‘ سنا ہو گا‘ ٹونی بلیئر نے جون 2007 میں وزارت عظمیٰ چھوڑی‘ یہ بھی پروٹوکول اور سیکیورٹی کے بغیر عام شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ لندن کی انڈرگراؤنڈٹرین میں سفر کرتے ہیں‘ اپنا بیگ خود اٹھاتے ہیں‘ ٹیکسیوں‘ بسوں اور ریلوں میں سفر کرتے ہیں اور قطار میں کھڑے ہو کر کافی خریدتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو ریٹائر ہونے کے باوجود ریٹائر نہیں ہوتے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی‘ امریکا میں چند عہدے دار ریٹائر ہونے کے بعد باوجود سابق نہیں ہوتے‘مثلاً امریکا میں صدر عہدہ چھوڑنے کے باوجود صدر کہلاتا ہے‘ یہ سابق صدر نہیں ہوتا‘ امریکا میں ایڈمرل سب سے بڑا فوجی عہدہ ہوتا ہے‘ یہ بھی ریٹائر ہونے کے باوجودایڈمرل رہتا ہے‘ یہ ایڈمرل (ریٹائرڈ) نہیں کہلاتا ہے اور امریکا میں جج بھی ریٹائر نہیں ہوتے۔

امریکا میں کوئی شخص اگر ایک بار جج مقرر ہو جائے تو یہ مرنے تک جج رہتا ہے‘ برطانیہ میں بھی ریٹائر ہونے کے بعد وزیراعظم‘ وزیراعظم ہی رہتا ہے مگر امریکا اور برطانیہ میں حکومت کے سابق سربراہان ریٹائرمنٹ کے بعد عام شہریوں جیسی زندگی گزارتے ہیں‘ انھیں سرکاری گاڑیاں‘ سائرن‘ روٹس اور کمانڈوز کی سہولت حاصل نہیں ہوتی‘ یہ اگر ایک بار عام شہری ہو گئے تو پھر یہ عام شہری ہی رہیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری حکمران کلاس مرنے کے بعد بھی سلطانی سے نہیں نکلتی‘ یہ مدت پوری ہونے کے باوجود خود کو وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ اور صدر سمجھتے ہیں اور انھیں سیکیورٹی اور پروٹوکول کی ضرورت بھی ہوتی ہے‘ یہ لوگ قوم کو سرکاری گاڑیاں‘ سرکاری پٹرول تک معاف نہیں کرتے‘ ملک میں پروٹوکول کی بیماری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کل چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی چیخ اٹھے ’’ سابق حکمران خود کو آج تک حکمران سمجھ رہے ہیں‘ یہ آج بھی اختیارات اور مراعات انجوائے کر رہے ہیں‘ یہ جاتے جاتے خود کو تاحیات مراعات دے گئے اور ہم جب ان سے سرکاری گاڑیاں واپس مانگتے ہیں تو یہ برا مان جاتے ہیں‘‘ فخر الدین جی ابراہیم نے سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی مثال بھی دی‘ الیکشن کمیشن نے ان سے گاڑیاں واپس مانگیں ‘ یہ مائنڈ کر گئے اور انھوں نے سرکاری اہلکاروں کو جواب دے دیا۔

یہ صورتحال اس قدر گھمبیر اور افسوس ناک ہے کہ سپریم کورٹ نے اس کا سوموٹو نوٹس لے لیا‘ چیف جسٹس نے حکومت سے پوچھا ’’ آپ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک‘ چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو سیکیورٹی کیوں دے رہے ہیں؟‘‘ آج حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرانا ہے‘ ہم لوگ یہ سوال جب قوم کے خادموں کے سامنے رکھتے ہیں تو یہ فوراً جواب دیتے ہیں ’’ ہم ہائی رسک میں ہیں‘ ہماری جانوں کو خطرہ ہے‘‘ ان لوگوں کا خدشہ سو فیصد درست ہے‘ یہ لوگ واقعی رسک میں ہیں‘ مگر سوال یہ ہے یہ لوگوں رسک میں کیوں ہیں؟ ان کی جانوں کو کیوں خطرہ ہے؟ آخر ان لوگوں نے کیا غلط کیا کہ ان کے اپنے لوگ ان کے خون کے پیاسے ہو گئے جب کہ دہشت گردی کی جنگ چھیڑنے والے بل کلنٹن‘ جارج بش اور بارک حسین اوبامہ کو امریکا میں کوئی خطرہ نہیں؟ ہمارے لیڈر اپنے جلسوں میں خطاب نہیں کر سکتے جب کہ امریکا کو خوفناک جنگ میں دھکیلنے والے بش اور اوبامہ اکیلے ڈرائیو کر رہے ہیں‘ یہ شاپنگ سینٹروں میں شاپنگ کر رہے ہیں اور انھیں ان امریکیوں تک سے کوئی خطرہ نہیں جن کے بچوں کو انھوں نے افغانستان میں مروا دیا‘ برطانیہ کے وزراء اعظم سیون سیون اور امریکا کی اشرافیہ نائین الیون اور اسامہ بن لادن کے قتل کے باوجود محفوظ بھی ہے اور مطمئن بھی‘ کیوں؟ آخر کیوں؟۔

ہم جب ان لوگوں سے یہ پوچھتے ہیں توہمارے لیڈر وزارت داخلہ کی وہ فہرستیں ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں جن کے مطابق ملک کی 30 شخصیات ہائی ویلیو ٹارگٹ ہیں اور یہ اس کے بعد بڑے دعوے سے کہتے ہیں اے این پی خیبر پختونخواہ میں الیکشن مہم نہیں چلا سکتی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سندھ میں محفوظ نہیں‘ میاں برادران لاہور شہر میں نہیں نکل سکتے اور یوسف رضا گیلانی کمانڈوز کے بغیر ملتان‘ راجہ پرویز اشرف سیکیورٹی کے بغیر گوجر خان اور نواب اسلم رئیسانی مسلح گارڈز کے بغیر کوئٹہ میں نہیں نکل سکتے چنانچہ ان لوگوں کو سرکاری سیکیورٹی اور پروٹوکول ملنا چاہیے‘ ہم لوگ اس دلیل کے جواب میں عرض کرتے ہیں آپ لوگوں کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا‘ آپ کو ہائی ویلیو ٹارگٹ بننا چاہیے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اور عوام نے آپ کو اقتدار عطا کیا‘ آپ کو قوم کی حالت بدلنے کا موقع دیا مگر آپ قوم کو اس سطح تک لے آئے کہ آج آپ بھی مسلح کمانڈوز کے بغیر اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے‘ آپ ظالم لوگ ہیں اور ظالموں کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے تھا۔

آج اوبامہ‘ بش‘ کلنٹن‘ ٹونی بلیئر اور جان میجر اپنے ملکوں میں اس لیے آزاد اور بے خطر گھوم رہے ہیں کہ انھوں نے نائین الیون اور سیون سیون کے بعد اپنے ملک کو محفوظ ترین بنا دیا تھا‘ انھوں نے اپنے عوام کے گرد غیر مرئی دیوار کھڑی کر دی‘ اس دیوار اور اس سسٹم کی وجہ سے آج امریکا اور برطانیہ کے شہری محفوظ ہیں چنانچہ ان کے صدور اور وزراء اعلیٰ کو سابق ہونے کے بعد پروٹوکول اور سیکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑتی جب کہ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اس میں سابق تو دور نگراں حکمران بھی سیکیورٹی کے بغیر کھڑکی سے باہر نہیں دیکھ سکتے‘ یہ ظالم‘ مفاد پرست اور کوتاہ فہم لوگ ہیں‘ یہ اس سلوک کو ’’ڈیزرو‘‘ کرتے ہیں‘ انھیں سیکیورٹی اور پروٹوکول نہیں ملنا چاہیے تا کہ یہ اپنے دہکائے ہوئے عذاب کی آگ تاپ سکیں‘ یہ اپنی غلطیوں‘ اپنی کوتاہیوں اور اپنے ظلم کی یہ سزا بھگت سکیں‘ سپریم کورٹ کو چاہیے یہ نہ صرف ان سے سیکیورٹی اور پروٹوکول واپس لے بلکہ انھیں ریلوے کے ذریعے سفر اور چھوٹی سڑکوں پر گاڑی چلانے کی سزا بھی دے تاکہ یہ لوگ اپنی پرفارمنس کا مزہ چکھ سکیں‘ یہ جان سکیں یہ کاغذ کی کشتیوں کو ٹائی ٹینک ثابت کرتے رہے ہیں‘ یہ اشتہاروں کے ذریعے آگ کو موم اور پانی کو شربت قرار دیتے رہے ہیں اور ان کے پاکستان اور عوام کے پاکستان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا نیویارک اور پتوکی میں ہے۔یہ ظالم ہیں اور ظالموں کو کم از کم سیکیورٹی نہیں ملنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔