’’وہ فٹ بال کھیلتا بچہ‘‘

عبدالقادر حسن  پير 15 اپريل 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کمزور حافظے میں جتنا کچھ باقی تھا وہ الیکشن کی افراتفری اور لوڈشیڈنگ لے ڈوبی ہے، اسی الجھے ہوئے حافظے کے کسی گوشے میں ایک پرانی یاد محفوظ تھی جو گزشتہ روز ایک تقریب میں اچانک زندہ ہو گئی اور یاد آیا کہ مئی کے گرم مہینے کی ایک سہ پہر کو میں ٹمپل روڈ لاہور کی ایک بڑی کوٹھی کے لان میں ایک بڑے ہی محترم صحافی کی خدمت میں حاضر ہوا، مقصد صحافت کا پیشہ اختیار کرنا تھا جس سے بددل کرنے اور دور رکھنے کے لیے اس شخص نے میرے ایک خط کے جواب میں مشورہ دیا تھا لیکن میں خط کا جواب دیئے بغیر خود ہی حاضر ہو گیا، یہ تھے حمید نظامی، ہماری صحافت کی ایک محترم اور نہایت ہی نامور شخصیت۔

مجھے دیکھ کر کہا اچھا تو آپ آ ہی گئے۔ اس وقت ان کے قریب ان کے بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ انھوں نے عارف کو آواز دے کر کہا کہ چائے کا کہو۔ اس طرح میں نے پہلی بار فٹ بال کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچے کا نام سنا جو بعد کی زندگی میں بھی میرے آس پاس سنا جاتا رہا، میں نے اس کے والد محترم کی ادارت میں ان کے اخبار میں ملازمت کر لی اور عارف بھی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خاندانی پیشے سے منسلک ہو گیا اور اتفاق سے میں اس اخبار کا چیف رپورٹر تھا اس لیے زیر تربیت رپورٹر عارف بھی میرے ساتھ کام کرنے لگا۔

اس بدخط اردو لکھنے والے لڑکے کی تحریر پڑھنی مشکل تھی لیکن انگریزی اسکول کا پڑھا ہوا اگر اردو لکھ لیتا تھا تو یہ بھی بڑی بات تھی۔ ویسے اس کے جلیل القدر والد خود بھی بہت بدخط تھے اور ایک خاص کاتب ان کے ادارئیے کی کتابت کرتا تھا جو الفاظ کو سمجھ لیتا تھا۔

عارف رپورٹنگ کرتا رہا بعد میں وہ اس ادارے کے انگریزی اخبار کا ایڈیٹر بھی بن گیا مگر میرے لیے وہ زیر تربیت ایک صحافی ہی رہا جس کو میں نے رپورٹنگ کی تو کوئی خاص تربیت نہیں دی مگر سیاستدانوں کے بارے میں اسے ساتھ ساتھ بتاتا رہتا تھا کہ یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں۔ رپورٹنگ کرنا تو ایک مشق تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتی رہتی ہے لیکن سیاستدان اور صحافی کا انتہائی نازک اور خطرناک تعلق باقی رکھنا ایک بڑی مشکل مشق تھی۔ میں خود تو نہیں لیکن عارف نظامی اس تعلق کو قائم رکھنے اور پالنے میں کامیاب رہا۔

ایک طویل خاندانی شکر رنجی کے بعد جب میں نے عارف کو وزیر بننے کے بعد اپنے چچا محترم مجید نظامی کی میز پر آمنے سامنے بیٹھا دیکھا تو مجھے بہت اطمینان ہوا۔ میرا ان کے خاندان کے ساتھ جو تعلق رہا وہ ایک ملازم کا تھا کوئی خاندانی نہیں تھا لیکن طویل ملازمانہ تعلق بھی کچھ جذباتی سا بن جاتا ہے، اس لیے مجھے چچا بھتیجے کی یہ ملاقات اور وہ بھی ایک طویل تلخی کے بعد بہت اچھی لگی۔ شنید ہے کہ مجید صاحب نے اپنے بھتیجے کو بچشم نم سینے سے لگایا اس خاندان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لیے یہ بات بہت خوش کن ہے۔

عارف نظامی ایک نگراں حکومت میں وفاقی وزیر ہیں اور ان کے پاس وزارت اطلاعات کا قلمدان ہے لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ اپنی وزارت کو صرف ذریعہ عزت بنائیں گے۔ ان کے ساتھ کھانے پر جو ملاقات ہوئی وہ رسمی سی تھی لیکن اندازہ ہوا کہ وہ اپنی وزارت کی عمر میں اضافے کو پسند نہیں کریں گے اور ایک نگراں کی حیثیت سے الیکشن کرانے میں کامیاب ہوں گے، ان کا اپنا الیکشن یہ ہے کہ وہ عارضی اور نگراں حکومت کے مقررہ عرصہ تک ہی وزیر رہیں اور اس طرح اپنے اس ’الیکشن‘ میں کامیاب ہوں تاکہ ہم ان کی وزارت کو اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کریں اور اس کی یادوں کو خوشگوار رکھیں۔

یہ میرا ذاتی مسئلہ بھی ہے اس سے قبل ایک ایسی ہی وزارت میں ہمارے ایک مہربان بھی وزیر ہوا کرتے تھے اور میرے ذاتی علم میں ہے کہ انھوں نے اس وزارت کو لمبا کرنے کی کوشش کی لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ عارف ایسی کسی کوشش پر تیار ہی نہیں۔ وہ انھی کپڑوں کے ساتھ واپس آئیں گے جن کے ساتھ وہ اسلام آباد گئے تھے تاکہ مجھے یہ معصوم نیکر پہنے ہوئے فٹ بال کھیلنے والا بچہ ایسے ہی یاد رہے اور ہمیں چائے پلاتا رہے۔

یہ عارف والی باتیں تو وفاقی وزارت کی ہیں ہمارے ہاں پنجاب میں بھی ایک ایسی وزارت موجود ہے۔ پنجاب میاں شہباز شریف نے خالی کیا ہے اور ہمیں اب اطلاع دی گئی ہے کہ ان کے باقی ماندہ ترقیاتی منصوبے بھی زندہ رہیں گے لیکن یہ بسنت کا ترقیاتی منصوبہ کونسا تھا۔ معلوم نہیں کس ترنگ میں آکر اپنے دور حکومت کو یاد گار بنانے کے لیے بسنت کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی جو ان دنوں کا تہوار ہے اور سرسوں پھولی ہوئی ہے۔

سرسوں کے کھیت دیکھ کر بسنت کی یاد بہت ہی قدرتی ہے لیکن یہ تہوار اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کو سلجھانا اور پھر سے منانا ہمارے ان عارضی حکمرانوں کے بس میں نہیں۔ یہ تو جو کچھ پہلے سے ہے اسے ہی بحال رکھیں تو بڑی بات ہے۔ ایسی ترقی پسندی اور روشن خیالی اگر فی الحال ملتوی رکھی جائے تو یہی بہتر ہے، اس میں بچی کھچی عزت بچ سکتی ہے، یہ بسنت کا شوشہ جس کے خاتمے کا خود ہی اعلان کر دیا گیا ہے نہ جانے کس زرخیز روشن دماغ کی سوچ تھی یا خود حکمرانوں کی اپنی بہرکیف جو بھی تھا بس زرد سرسوں کے پھولوں کے ساتھ ساتھ مرجھا گیا۔ تہواروں کو چھوڑیں اور بھی بہت کچھ ہے۔ فولادی ڈور تو حکومت بند نہیں کرا سکی، یہ بسنت جیسے تہوار کو کیا ختم کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔