فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  پير 15 اپريل 2013

فلسفی ہزاروں سال سے انسانی تعلقات کے متعلق قیاس آرائیاں کرتے آئے ہیں اور ان تمام قیاسات میں سے ایک نظریے نے جنم لیا، یہ نظریہ کوئی اتنا نیا بھی نہیں ہے، یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ۔ آج سے تین ہزار سال پہلے زرتشت نے یہ اصول ایران کے آتش پرستوں کو سکھایا، آج سے دو ہزار چار سو سال پہلے کنفیوشس نے چین میں اس اصول کی تبلیغ کی، تائومت کے بانی لائونسی نے یہ ہی اصول اپنے پیروکاروں کو وادی ہان میں سکھایا، گوتم بدھ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے اسی اصول کی تبلیغ دریائے گنگا کے کناروں پر کی، ہندوئوں کی مقدس کتابوں ویدوں اور شاستروں نے اسی اصول کو اس سے بھی ایک ہزار سال پہلے پیش کیا، آج سے ایک ہزار نو سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وادی جودی کی سنگلاخ پہاڑیوں میں اسی اصول کی تبلیغ کی، انھوں نے اس دنیا کے سب سے زیادہ اہم اصول کو صرف ایک فقرے میں سمودیا ہے ’’دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسے سلوک کی تم ان سے توقع رکھتے ہو۔‘‘

اس لیے ہمیں اس سنہری اصول کی پیروی کرنی چاہیے کہ دوسروں کو وہی کچھ دیں جس کی توقع ہم ان سے کرتے ہیں، یہ کتنی کرب ناک بات ہے جن لوگوں کے پاس اپنی بڑائی جتانے کے لیے کوئی بات نہیں ہوتی وہ اپنی نااہلی کے احساس کو ظاہری شوروغوغا اور لاف زنی کے ذریعے چھپاتے پھرتے ہیں۔ شیکسپیئر نے کہا ہے ’’مغرور آدمی ادنیٰ سے اختیارات کا مالک ہو کر آسمان تلے اس قسم کی عجیب و غریب چالیں چلتا ہے کہ فرشتوں کو بھی رونا آتا ہے۔‘‘

انسانی فطرت عملاً کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے غلط کار سوائے اپنے اور سب کو الزام دیتا رہتا ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نکتہ چینی پیغام رساں کبوتر کی طرح ہمیشہ واپس گھر کو لوٹتی ہے۔ 15 اپریل 1865 کی صبح کو ہفتے کے دن لنکن ایک معمولی سے سرائے کے ایک کمرے میں دم توڑ رہا تھا، یہ سرائے فورڈ تھیٹر والے بازار کے عین مقابل واقع تھی جہاں یوتھ نے اس پر گولی چلادی تھی، لنکن کا لمبا تڑنگا جسم پلنگ پر آڑا پڑا ہوا تھا کیونکہ پلنگ بہت چھوٹا تھا، روز ابونہرز کی مشہور تصویر ’’گھوڑوں کا میلہ‘‘ دیوار پر لٹک رہی تھی اور ایک مدھم سے شمع جھلملارہی تھی، جب لنکن آخری سانس لے رہا تھا تو سیکریٹری اسٹانسن نے کہا دنیا میں ایسا پختہ، ذہین اور مکمل حاکم کبھی نہ دیکھا ہوگا جیسا کہ لنکن تھا۔

لنکن کی کامیابی کا راز کیا تھا؟ لنکن اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ کیسا برتائو کیا کرتا تھا، کیا وہ لوگوں کو حقیر سمجھتا تھا؟ نہیں بالکل نہیں بلکہ اس کا محبوب مقولہ تھا کہ ’’دوسروں کا محاسبہ نہ کرو ورنہ تمہارا محاسبہ کیا جائے گا۔‘‘ لنکن کہا کرتا تھا دوسروں پر نکتہ چینی نہ کرو ان جیسے حالات میں ہم ہوں تو ہم بھی وہی کریں جو وہ کررہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے تنقید اور سرزنش کا نتیجہ بالآخر کچھ نہیں نکلتا۔ تھیوڈور روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ آپ دوسروں کو سنوارنے سے قبل اپنی اصلاح کریں، اس کوشش میں کامیابی کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ کنفیوشس کہتا ہے جب تمہاری اپنی دہلیز غلیظ ہے تو اپنے ہمسائے کے متعلق یہ شکایت نہ کرو کہ کاہلی کی وجہ سے اس کی چھت ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔

ڈاکٹر جانسن نے کہا تھا جب تک انسان موت کی منزل تک نہیں پہنچ جاتا خود خدا بھی اس کے اعمال کا محاسبہ نہیں کرتا اس لیے آپ اور میں ایسا کیوں کریں۔ جن دنوں تھیوڈور روز ویلٹ امریکا کے صدر تھے تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا اگر میں پورا نہیں بلکہ محض تین چوتھائی وقت بھی صحیح راستے پر گامزن رہ سکوں تو میں اپنی توقعات سے بڑھ کر کامیابی حاصل کرسکتا ہوں۔ سقراط اپنے شاگردوں سے بار بار کہا کرتا تھا ’’میں صرف ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ ہم سقراط سے بڑھ کر تو عقل مند نہیں ہیں، اس لیے لوگوں کو یہ بتانا ترک کردیا جائے کہ وہ غلطی پر ہیں۔ بینجمن فرینکلن لکھتے ہیں ’’میں نے اپنا یہ اصول بنا لیا کہ اپنی بڑائی کے دعووں اور دوسروں کے جذبات کی توہین سے گریز کیا جائے۔‘‘

1707 میں برصغیر میں مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوگئی، بادشاہ اورنگزیب کا سورج ڈوب گیا، انگریزوں نے منظم فوج کی بنیاد پر برصغیر پر اپنی حکومت قائم کردی اور برصغیر کے لوگ انگریزوں کے غلام بن گئے، غلامی سے آزادی تک کے سفر کی داستان ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کی داستان ہے ان تمام میدانوں کی جہاں ہمارے سورمائوں کا خون بہا اور جیل کی ان تمام کال کوٹھریوںکی جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور سمجھوتہ کرنے کے بجائے سولیوں کو چوم لیا، جنھوں نے اپنی قیمتی زندگیوں کو ہمارے کل کے لیے قربان کردیا، ان عظیم ہستیوں میں دادا بھائی نوروجی، بال گنگا دھر تلک، پال، نہرو، لالہ لجپت رائے، گاندھی، پٹیل، نائیڈو، مولانا آزاد، شاستری، سرسید احمد خان، علامہ اقبال، بھیم رائو سے لے کر قائد اعظم تک شامل تھے۔

یہ سب کے سب سیاست دان تھے جنھوں نے تحریک جدوجہد آزادی کی قیادت کی اور برصغیر کے لوگوں کو غلامی سے نجات دلوائی۔ آج ہم جو آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں یہ انھی سیاست دانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، آزادی کے بعد ہندوستان کی حکومت سیاست دانوں کے ہاتھوں میں رہی نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

ادھر ہماری بدقستی کہ قائداعظم کا انتقال 1948 میں ہوگیا، وزیراعظم لیاقت علی خان قتل کردیے گئے، ان کے بعد ایک سابق بیورو کریٹ غلام محمد کامیاب ریشہ دوانیوں کے ذریعے اور اسٹیبلشمنٹ میں اپنے ساتھیوں کی پشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھے، جنرل اسکندر مرزا نے جو اس وقت سیکریٹری دفاع تھے نئے گورنر جنرل کا ساتھ دیا، چوہدری محمد علی نے سیکریٹری جنرل کا عہدہ خالی کرکے وزیر خزانہ کا منصب سنبھال لیا، تینوں بیوروکریٹوں پر مشتمل اس گروہ نے آخر خواجہ ناظم الدین پر حملہ کیا جو سیاست دان وزیراعظم تھے، اس کے لیے انھوں نے فسادات کروائے، پھر قحط کے خطر ے کا ڈھونگ رچایا، صحافیوں کے ایک بڑے گروہ نے قحط کا خوف پھیلانے میں ان کا پورا ساتھ دیا، 17 اپریل 1953 کو ناظم الدین کو برطرف کردیا گیا اور امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ اور پھر اس کے بعد سیاست دانوں کے خلاف بھرپور انداز میں مہم شروع کردی گئی اور تمام ناکامیوں کا ملبہ ان پر ڈالا جاتا رہا جو آج تک اسی انداز میں جاری ہے۔

سیاست دانوں کی کردار کشی، ان پر نکتہ چینی، احتساب، الزامات، جھوٹا اور زہریلا پروپیگنڈہ، غرض ہر وہ حربہ جس کے ذریعے انھیں کم تر ثابت کیا جاسکے، اسی ناپاک مہم کا حصہ ہے جو برسوں پہلے شروع کی گئی تھی اور اب تو 63, 62 کی آڑ میں حد کردی گئی، ہم نے آج تک اپنی ناکامیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا ہے، ہم پوری دنیا کے ساتھ چلنے کے بجائے بالکل الٹ سمت میں چل رہے ہیں، دنیا کے تمام ممالک اپنے سیاستدانوں کی قدر کرتے ہیں ان کی عزت کرتے ہیں کیونکہ وہی عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جب کہ ہم اپنے سیاست دانوں کی جتنی کردار کشی ممکن ہوسکتی ہے کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

آج پاکستان میں جو جمہوریت کا پودا پروان چڑھ رہا ہے یہ پاکستان کے عوام اور ان کے سیاسی قائدین شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، الطاف حسین، اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمن، چوہدری شجاعت حسین، عمران خان ان سب کی مشترکہ کوششوں اور جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہ سب کے سب حضرات سیاست دان ہی تو ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ملک میں اسی صدیوں پرانے اصول کی تبلیغ کرنا ہوگی کہ دوسروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرو جیسے سلوک کی تم ان سے توقع رکھتے ہو اور دوسروں کا محاسبہ نہ کرو ورنہ تمہارا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔

یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ اس وقت پاکستان کو انتشار کی نہیں بلکہ اتحاد اور محبت کی ضرورت ہے ، کامیابی کی منزل ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنے، اتحاد اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے، سیاستدانوں کی کردار کشی اور ان کے خلاف مسلسل زہریلا پروپیگنڈے کے ذریعے تو صرف انتشار اور بڑھ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔