بھرتی جاری ہے

شیخ جابر  پير 15 اپريل 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

امریکا ہو یا پاکستان، نیو یارک ہو یا کراچی، لاہور ہو، اسلام آباد یا پشاور، بھرتی جاری ہے، نہ تعلیم ضروری ہے نہ کوئی قابلیت درکار، ذرا بوجھیے تو، موجودہ کساد بازاری اور بے روزگاری کے دور میں وہ کون سے ادارے ہیں جو روزگار فراہم کیے چلے جارہے ہیں، وہ کون ہیں جن کے در آج بھی بے روزگاروں کے لیے وا ہیں۔ دن کے 24 گھنٹے اور سال کے 12 مہینے یہ آپ کو روزگار مہیا کرنے پر تلے بیٹھے ہیں، امریکا، افغانستان، عراق، پاکستان غرض ہر جگہ ان کے دفاتر کھلے ہیں، ذرا ذہن پر زور ڈالیں تو آپ کو یاد آجائے گا کہ یہ ’’پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیز‘‘ کے دفاتر ہیں ’’پرائیویٹ سیکیورٹی ایجنسیز‘‘ خود کو دنیا بھر میں ایک منفعت بخش کاروبار اور ایک بڑی صنعت کے طور پر خود کو منوا چکی ہیں۔

بینک، اسپتال، شاپنگ مال، ٹی وی، اخبار کے دفاتر، کلینک، جوہری، سنارے، بازار، گلی محلے غرض ہر جگہ آپ کو نجی محافظ نظر آئیں گے۔ سوال یہ ہے کہ تحفظ کی ذمے داری کس پر ہے، شہریوں پر یا حکومت وقت پر؟ اگر یہ ذمے داری حکومت وقت پر ہے اور شہری اپنے تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات پر انحصار کرنے کے بجائے نجی محافظوں پر انحصار کرنے لگے ہیں تو کیا ایسی حکومت اچھی کہلائی جاسکتی ہے؟ عوام کی حکومت عوام کے لیے ہوتی ہے، یہ حکومت کس کے لیے ہے؟ نئی صنعتوں کے قیام اور فروغ کے لیے؟ نئی صنعت کو مسلسل سرمایہ فراہم کرنے کے لیے۔

آج دنیا بھر میں لوگوں کو پہلے تو خوف دلایا جاتا ہے ’’القاعدہ‘‘ کے نام سے ’’طالبان‘‘ کے نام سے اور دیگر ناموں سے، ایک ہوا کھڑا کیا جائے گا، دنیا بھر کے افراد کو یہ باور کروادیا جائے گا کہ آپ کی جان و مال سخت خطرے میں ہے، آپ کو فلاں فلاں سے سخت خطرہ ہے، فلاں فلاں دہشت گرد ہے اور آپ کو تحفظ کی شدید ضرورت ہے، عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مارکیٹ میں فوجوں کی فوجیں در آئی ہیں، ہمارے پیارے پاکستان نے تو خیر ابھی اتنی ترقی نہیں کی لیکن جو ممالک ترقی کرچکے ہیں وہاں کرائے کی فوجیں اور کرائے کے گوریلے عام دستیاب ہیں ’’پاکستانی بلیک واٹر‘‘ کے نام سے خوب آگاہ ہوچکے ہیں۔

ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ اپنے ملازمین کو کس طرح تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ قاتل ریمنڈ ڈیوس کس آسانی سے نکل گیا، پورا ملک منہ دیکھتا رہ گیا۔ اس حوالے سے ’’ڈیورا ڈی ایوانٹ‘‘ نے اہم کام کیا ہے، آپ ’’سیاسیات‘‘ کی پروفیسر ہیں، آپ نے 1991 میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سینٹ ڈیگو سے پی ایچ ڈی کیا، آپ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، اردن میں عالمی مطالعات کی ڈائریکٹر ہیں، یوں تو آپ نے نجی فوجوں اور تحفظ فراہم کرنے والوں کے حوالے سے خاصا کام کیا ہے، لیکن آپ کی کتاب ’’دی مارکیٹ فور فورس‘‘ اہمیت کی حامل ہے، آپ نجی تحفظ فراہم کرنے والی مارکیٹ کو نہ تو فطری قرار دیتی ہیں اور نہ ہی ناگزیر ۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے حالات اور ماحول بہت تیزی سے تبدیل ہوتا گیا، اب روایتی جنگوں اور روایتی فوجوں کا خیال فرسودہ ہوگیا ہے، مغربی ممالک کی اکثریت نے اپنا دفاع نجی فوج کے ٹھیکیداروں کے حوالے کردیا ہے، اس طرح کی نجی فوج اور اس طرح کے نجی فوجیوں کا تعلق کسی ملک سے نہیں ہوتا، نہ یہ کسی ملک کے شہری ہوتے ہیں، صرف اور صرف پیسے کے لیے اس قسم کے اداروں اور اس قسم کی فوج کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے، صرف اور صرف پیسے کے لیے نجی اداروں میں فوجی یا دیگر ملازمین بھرتی ہوتے ہیں۔

ان کی وفاداریاں کسی کے لیے نہیں ہوتیں۔ جس نے روپے خرچ کیے یہ اس کے لیے کام کرنا شروع کردیتے ہیں، دیکھیے ان کی وفاداری اور ان کی کارکردگی کی ایک مثال، ہم آپ روزانہ دیکھتے ہیں، ہمارے ہاں تو نجی فوجی نہیں ہیں، لیکن ہمارے ہاں نجی تحفظ کرنے والے ادارے ہیں، اب ذرا بتائیں یہ گارڈ کہیں ڈیوٹی انجام دے رہا ہے، اس کے سامنے کسی خاتون کا پرس چھینا جائے، کسی کا موبائل چھینا جائے یا کوئی اور قانون شکنی ہو، کیا یہ حرکت میں آئے گا؟ جب تک اسے کرائے پر حاصل کرنے والے کی املاک محفوظ ہیں یہ حرکت میں نہیں آئے گا اور چونکہ اس کی اصل وفاداریاں پیسے سے ہیں تو آپ جان سکتے ہیں کہ کسی موقع پر اگر حرکت میں آنا ہو تو اس کی کارکردگی کیا ہوسکتی ہے، روایتی تہذیبوں میں افراد کی وفاداریاں اپنے قبیلے، گاؤں، شہر یا ملک کے ساتھ ہواکرتی تھیں، یہ وفاداریاں کسی صورت میں تبدیل نہیں ہوتی تھیں۔ ممالک ہوں یا عام ادارے اور افراد، کیا یہ صورت ان کے لیے اطمینان بخش قرار دی جاسکتی ہے؟ کیا قربانی اور وفاداری کا کوئی بدل ہوسکتا ہے؟ کیا وفا شعاری صرف ایک بے معنی جذبہ ہے؟

دوسرا بھیانک معاملہ جو اس طرح کے نجی اداروں سے وابستہ ہے وہ ہے کاروبار کی بڑھوتری، کیا یہ ادارے یہ چاہیںگے کہ دنیا میں ہر طرف امن وامان قائم ہوجائے اور ان کا کاروبار ٹھپ ہوجائے؟ یا ان کی خواہش ہوگی کہ ان کا کاروبار بڑھے، پھلے پھولے، اعداد وشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ ایک وسیع اور پھلتا پھولتا کاروبار ہے، 1997 میں عالمی سطح پر اس کا ریونیو 55.6 بلین ڈالر تھا جو 2010 تک بڑھ کر 20.2 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، شواہد موجود ہیں کہ انھوں نے مختلف خطوں میں ہنگاموں، فسادات اور جنگ کو ہوا دی، 1950 سے 1989 کے دوران اس نوعیت کی 50 سے زائد کمپنیاں افریقہ میں کام کررہی تھیں یا دوسرے الفاظ میں شر پھیلا رہی تھیں۔ 1900 سے 2000 تک پورے براعظم میں ایسی 80 فرمیں فساد پھیلاتی پھررہی تھیں۔ ایک خبر کے مطابق 100 سے زائد نجی عسکری کمپنیاں 50 سے زائد ممالک میں سرگرم عمل ہیں، کروشیا، انگولا اور سیرالیون وغیرہ کے ساتھ ساتھ خود ہمارے ملک پاکستان میں جاری دہشت گردی کے پیچھے ایسے ہی اداروں کی کار فرمائیاں خیال کی جاتی ہیں۔

ان اداروں کی ایک حیرت انگیز خوبی یہ بھی ہے کہ یہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں، عام کاروبار میں آپ دیکھیں گے کہ مسابقت بڑھنے سے مقابل بڑھنے سے پہلے سے موجود مستحکم کاروباریوں کے نفع میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے، ان اداروں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے، ہر نیا آنے والا اپنے ساتھ فسادات اور جنگ بازی کی نئی لہر لاتا ہے، یعنی اپنی مارکیٹ خود بناتا ہے۔

اس طرح کے ادارے ایک خطرناک روش یہ بھی اپنا رہے ہیں کہ یہ ملکی سالمیت کے اداروں کو بالواسطہ یا بلاواسطہ زک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں، ان کے مشاہیرے بسا اوقات اتنے عمدہ ہوتے ہیں کہ کوئی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازم ان پرکشش ترغیبات پر ریجھ سکتا ہے، کیا ایسی صورتحال کو ملکی دفاع کے لیے عمدہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

اکتوبر 2007 میں اقوام متحدہ نے ایک مطالعہ شائع کیا تھا، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بطور ’’سیکیورٹی گارڈ‘‘ جن افراد کو ملازم رکھا جاتا ہے وہ نجی فوجی کنٹریکٹرز کے ساتھ مل کر بطور نجی فوج خدمات انجام دیتے ہیں، 1981میں اقوام متحدہ نے خاص کنونشن ہوا تھا جس میں کرائے کے سپاہیوں اور فوج کے حوالے سے ضابطے وضع کیے گئے تھے، امریکا، برطانیہ اور کئی ممالک نے ان پر اب تک دستخط نہیں کیے ہیں، سیکیورٹی فراہم کرنے والے نجی ادارے و دیگر غلط طور پر یہ تاثر عام کراتے جارہے ہیں کہ سیکیورٹی اہلکار بڑھ جانے سے جرائم کی بیخ کنی ہوتی ہے اور لوگوں کو تحفظ ملتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں تحفظ فراہم کرنے والوں سے بھی تحفظ کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔