نشست

راؤ منظر حیات  ہفتہ 28 اپريل 2018
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

نویدیزدانی بھی اپنی طرزکاواحدآدمی ہے۔میڈیکل کالج میں میری ہی کلاس میں تھا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج میں پانچ سال کیسے گزرے،پتہ ہی نہیں چلا۔اس کے بعد سی ایس ایس اورپھرایک قریہ سے دوسرے قریہ۔زندگی اتنی تیزی سے گزرگئی کہ معلوم ہی نہیں ہوا۔

نوید یزدانی، 1984 کے بعدجیسے گم ساہوگیا۔آج سے دس بارہ برس پہلے ملاقات ہوئی توایک مختلف انسان تھا۔پوچھاکہ کس اسپتال میں کام کررہے ہو،توحیران ہوگیا۔ڈاکٹری چھوڑچکاہوں اور پی ایچ ڈی کرلی ہے۔جواب میرے لیے مکمل طورپرغیرمتوقع تھا۔پھرنوید،اب کیاکرتے ہو۔بڑے اخلاص سے جواب دیاکہ مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتاہوں۔خیربات آئی گئی ہوگئی۔مگربہرحال یزدانی سے رابطہ ضروررہا۔

دوماہ قبل فون آیاکہ یونیورسٹی میں مینجمنٹ سائنسز کا پروفیسرہوں۔ طلباء اورطالبات کے لیے ایک نشست رکھی گئی ہے۔اسکامقصدان لوگوں سے طلباء کاسوال وجواب کا سلسلہ ہوگا،جنہوں نے زندگی میں اپنے بنیادی پیشے تبدیل کیے۔یعنی تعلیمی لحاظ سے کچھ اوربن رہے تھے اوربن کچھ اور گئے۔پہلاردِعمل معذرت کاتھا۔بنیادی وجہ یہ تھی کہ اپنے زاویہ سے عرض کرسکتاہوں کہ زندگی میں کچھ نہیں کرپایا۔

درست ہے،میڈیکل کی جاندارلائن چھوڑکرسرکاری نوکری میں آگیااورپھرتقریباًچندبرسوں سے لکھناشروع کردیا۔مگر اس میں کسی قسم کاکوئیAchievementشامل نہیں ہے۔ زندگی اتنی ہی خالی اوربنجرہے،جتنی تیس برس پہلے تھی۔ شائد ذمے داریاں بڑھ چکی ہیں۔چاہتے ہوئے بھی یزدانی کو انکار نہ کرسکا۔تھوڑی دیربعد،اس کے دفترسے فون آگیا۔تفصیلات بتانے لگے۔

سوال کیاکہ میرے ساتھ دوسرے کون لوگ ہونگے۔پتہ چلاڈاکٹربلال بن خالداور ڈاکٹر ناصر ہونگے۔ یہ دونوں بھی کے۔ای میں میرے ہم جماعت تھے۔دونوں قریبی دوست بھی ہیں۔ ڈاکٹرناصرسے بہرحال ملاقات کم ہوتی ہے۔اس سے پہلے کہ براہِ راست تقریب کی طرف آؤں چندگزارشات کرنالازم ہیں۔

بلال نے ایم بی بی ایس کرنے کے بعداپنے بڑے بھائی سعدصاحب کے ساتھ ملکرکاروبارکرناشروع کردیا۔ آج سے ٹھیک بیس یاپچیس سال پہلے لاہور،جی اوآرون سے متصل سڑک پرپاکستانی ملبوسات کاایک شاندارشوروم کھولا۔مردوں کے کپڑوں کے لیے یہ بہترین مقام تھا اور ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے،تمام بڑے شہروں میں اس کے مزیدآؤٹ لیٹ بنتے گئے۔اس کے پیچھے بلال اور سعد صاحب کی شدید محنت تھی۔ایک ڈاکٹرکااتنے معیاری ملبوسات بناناایک غیرمعمولی بات ہے۔خیراس پربات بعدمیں ہوتی ہے۔

ڈاکٹرناصرنے میڈیکل کی تعلیم کے بعدسی ایس ایس کیا اور ڈی ایم جی میں آگیا۔اس کی طبیعت میں استغناء اتناہے کہ تھوڑی سی نوکری کے بعد،پنجاب کے پی اینڈڈیپارٹمنٹ کے ایک مخصوص شعبے سے منسلک ہوگیا۔جسکانام”اربن یونٹ”تھا۔ناصربنیادی طور پرایک سوشل سائنسدان ہے۔ اس نے ایک بے جان سے ذیلی ادارے کوحکومتی سطح پرتھنک ٹینک بناڈالا۔اس کے ساتھ ساتھ”سالڈویسٹ مینجمنٹ” پر بھی بہترین کام کیا۔ناصران شعبوں میں دودہائیوں سے جُتاہواہے۔کسی ستائش اورشاباشی کے بغیر۔

پندرہ دن پہلے،خاکساراوربلال،لاہورمیں نویدکی یونیورسٹی پہنچ گئے ۔جیسے ہی چندتنگ سڑکوں سے گزر کر  یونیورسٹی پہنچتے ہیں توایک جہانِ حیرت منتظرہوتاہے۔وسیع و عریض کمپلیکس اورشاندارعمارتیں۔یقین ہی نہیں آتاکہ تنگ سڑکیں آپکوکتنی کشادہ علمی درسگاہ میں لے جارہی ہیں۔ ڈاکٹربلال میرے ساتھ تھے۔ہال میں پہنچے تودوسوسے تین سو طلباء اورطالبات موجودتھے۔

اسٹیج کے عقب میں ڈاکٹر بلال، ڈاکٹرناصراورخاکسارکی تصاویرلگی ہوئی تھیں۔ان کے نیچے زندگی میں جومعمولی سے کام کیے ہیں،ان کی تفصیلات موجود  تھیں۔وہاں پتہ چلاکہ ڈاکٹرناصر،کسی سرکاری مصروفیت کی بدولت نہیں آسکے۔یعنی اب بلال اورخاکسارنے ان ذہین بچے اوربچیوں کے سوالات کاسامناکرناتھا۔سوال وجواب کی نشست میں جتنے زیادہ جواب دینے والے ہوں،اتنی ہی عزت محفوظ رہنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ کیونکہ آج کی نوجوان نسل بہرحال میری نسل سے توبہرحال بہت ذہین اورلائق ہے۔

نشست کاآغازہوا،تونویدہی کے ڈیپارٹمنٹ سے منسلک ایک خاتون نے انتہائی شائستگی سے میرا اورڈاکٹر بلال کاتعارف کروایا۔اس کے بعدباقاعدہ آغازہوا۔پہلے ڈاکٹر نویدنے سوالات کاسلسلہ شروع کیا۔آغازطالبعلم سے کیا گیا۔پہلاسوال ہی بہت کٹھن تھا کہ ڈاکٹری پھرسی ایس ایس اورپھرلکھاری۔آخریہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ایمانداری سے عرض کررہاہوں کہ میرے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں  تھا۔

بہرحال بات توکرنی تھی۔کیڈٹ کالج سے کنگ ایڈورڈ کالج کاسفرتوخیریقینی ساتھا۔مگرمجھے آج تک یادنہیں کہ میرے والدیاوالدہ نے اصرارکیاہو کہ بیٹا،ڈاکٹر ضرور بننا ہے۔حسن ابدال میں جتنی محنت اساتذہ کرواتے ہیں اس کے بعدکسی بھی میڈیکل کالج میں داخلہ ملنابڑی معمولی سی بات ہے۔

اصل کرشمہ توان اساتذہ کاہے۔جواسکول اورکالج میں آپکومحنت کی عادت ڈال دیتے ہیں۔مشکلات سے گزرنے کاحوصلہ دیتے ہیں۔ہرپل رہنمائی کرتے ہیں۔چنانچہ میڈیکل کالج پہنچاتواسی محنت کاایک ردِعمل تھا۔مگرمیں بذات خود، میڈیسن کی بھرپورتعلیم حاصل کرتے ہوئے بھی علمی زندگی میں کچھ خالی خالی سامحسوس کرتاتھا۔یاشائدقدرت کسی اور سمت کاتعین کرناچاہتی تھی۔

یقین فرمائیے،کہ میڈیکل کالج کے چوتھے سال ہی مقابلے کاامتحان دینے کاخیال آیااور پانچ چھ ماہ کی تیاری سے بغیرسوچے سمجھے امتحان دیدیااورڈی ایم جی میں آگیا۔کیسے ہوا،کیوں ہوا،کوئی جواب نہیں ہے۔ مگرڈاکٹرنویدکے مشکل سوال کاآخری حصہ کہ کالم باقاعدگی سے لکھناکیسے شروع کیے۔جواب مکمل بھی بھرپورنہیں تھا۔ شائدلکھنے سے اپنی ہی ذات کی تکمیل ہوتی ہے۔

بہرحال اب محسوس کرتاہو کہ میری فطرت لکھنے کے بہت نزدیک ہے۔ڈاکٹرنویدنے میرے سے سوال کرنے کے بعدرخ بلال کی طرف کرلیا۔اندازہ ہواکہ بلال صرف بہترین کپڑے ہی نہیں بناتا،بلکہ اسلام آباداسٹاک ایکسچینج میں ایک بہت اعلیٰ اسٹاک کمپنی کامالک بھی ہے۔

ڈاکٹرنویدنے چندمزیدسوال کیے اورپھرطلباء اور طالبات سے سوال وجواب کاسلسلہ شروع ہوگیا۔پہلی بات تویہ کہ کم ازکم مجھے اندازہ نہیں تھاکہ یونیورسٹی کی سطح کے ہمارے بچے کتنے لائق ہیں۔ان میں ترقی کرنے اورآگے بڑھنے کی کتنی تڑپ ہے۔پہلے ایک طالبعلم نے سی ایس ایس کے متعلق پوچھاکہ یہ امتحان کرناکتنامشکل ہے۔میراجواب تیس سال پراناتھا۔یہ امتحان بالکل مشکل نہیں ہے۔معمولی ساڈسپلن  اورپڑھنے کی منصوبہ بندی آپکوکامیاب کرسکتی ہے۔بنیادی طورپریہ امتحان ذہانت کا نہیں ہے بلکہ اچھی قوت یادداشت کاہے۔

بہرحال اس نوجوان کویہ نہ بتاسکاکہ یہ امتحان توپاس کرناآسان ہے۔مگراس کے بعدہمارے طاقت کے ایوان میں جس طرح میرٹ کی ناقدری ہے،اسکااندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔جتنی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے،اسکوبیان کرنا ناممکن ہے۔سیاستدان جس طرح ذاتی فائدوں کے لیے احکامات صادرکرتے ہیں، وہ دوعملی بھی ان بچوں کونہ بتاسکا۔اس ملک میں کامیابی محنت سے نہیں،بلکہ سازش اورطاقتورگروہ سے منسلک ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔خیراس نوجوان کو حوصلہ دیاکہ جب چاہو،یہ امتحان آرام سے پاس کرسکتے ہو۔ایک بچی نے بہت ذہین سوال کیا کہ بیوروکریسی نظام کو تبدیل کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے۔

میراجواب تھاکہ پوری دنیامیںبیوروکریسی “اسٹیٹس کو”کی محافظ ہے۔بڑے سے بڑابیوروکریٹ بھی ہمارے ادنیٰ نظام میں جوہری  تبدیلی نہیں لاسکتا۔ایک بہت مہیب مشین ہے اور ہر سرکاری ملازم اسکاایک پرزہ ہے۔اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ ہاں، اگر سرکاری ملازم صحیح طرح کام کرے یااسکوکام کرنے کاموقعہ دیاجائے،تووہ عام آدمی کی زندگی میں بے حدآسانیاں پیدا کرسکتاہے۔مگرنظام میں بہترتبدیلی سرکاری ملازم کی استطاعت سے باہرہے۔بلکہ اب تویہ لگتاہے کہ کسی بھی ملکی ادارے کی طاقت سے باہرہے۔بگاڑاتنازیادہ ہے کہ کوئی بھی اسے مکمل طورپراکیلاٹھیک نہیں کرسکتا۔

اسی طرح ڈاکٹربلال سے بھی بہت سوال ہوئے کہ انھوں نے جوان عمری میں اتنی ترقی کیسے کرلی۔ کہا ڈاکٹری اورکہاں بین الاقوامی سطح کے ملبوسات۔بلال اپنے مخصوص اسٹائل سے جوابات دیتارہا بلکہ کمال جواب دیتارہا۔تین گھنٹے کیسے گزرے۔معلوم ہی نہ ہو سکا۔سوالات کاسلسلہ اتنا دلچسپ تھاکہ وقت گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوا۔ڈاکٹر نوید کا شکریہ کہ اتنی بھرپور تقریب کااہتمام کیا۔ایک احساس واپسی پرذہن میں مستقل طورپرموجودرہاکہ ہماری نوجوان نسل، میری عمرکے لوگوں سے زیادہ ذہین اورباعلم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔