وزیراعظم عمران خان

میاں عمران احمد  ہفتہ 28 اپريل 2018
آپ ذہن نشین کرلیجیے کہ حالات کچھ بھی ہوں، وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

آپ ذہن نشین کرلیجیے کہ حالات کچھ بھی ہوں، وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

صاحب نے قہقہہ لگایا۔ ٹائی کی نوڈ ٹھیک کی، دائیں ہاتھ کو صوفے کی پشت پر رکھا اور بائیں ٹانگ کو دائیں ٹانگ پر رکھ کر مجھ سے گویا ہوئے: میاں نواز شریف کو اگر سزا ہو بھی گئی تو ایسے کیسوں میں ہفتہ یا دس دن میں ضمانت ہو جاتی ہے۔ میاں صاحب پھر باہر ہوں گے اور کھل کر دھوم مچائیں گے۔ آپ ہی بتائیں پھر کیا فائدہ ہوگا اتنے لمبے ٹرائل کا؟

میں نے لمبی سانس لی، سبز چائے کا ایک گھونٹ پیا اور صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ اس حوالے سے آپ کی معلومات ادھوری ہیں۔ ان کیسوں میں اگر سزا ایک یا دو سال کی ہو تو ضمانت دس دن کے اندر اندر ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر سزا پانچ سال یا دس سال کی ہو، جائیداد ضبط کرنے یا اسے بیچ کر پیسہ ملکی خزانے میں جمع کروانے کی ہو اور بھاری جرمانے عائد ہوجائیں تو ایسی سزا کی صورت میں ضمانت نہیں ہوسکتی۔ ملزم کو پوری سزا بھگتنا پڑتی ہے اور نواز شریف کی سزا پانچ یا دس سال سے کم نہیں ہوگی۔

صاحب کے چہرے پر ناگواری کے سارے اثرات ایک ہی لمحے میں نمودار ہوگئے اور ان کی حالت دیکھ کر یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا تھا کہ صاحب کو اگر کوئی ایک قتل معاف ہوتا تو وہ یقیناً مجھے قتل کردیتے۔ صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے مخاطب کیا کہ میاں عمران صاحب، یہ ضروری نہیں کہ اگر آج تک آپ کے سیاسی تجزیئے درست ثابت ہوتے آئے ہیں تو یہ بھی درست ثابت ہو۔ آپ کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ میں نے مؤدبانہ گزارش کی کہ اس معاملے میں میری خواہش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ حقائق ہیں اور آنکھیں بند کرنے سے حقائق نہیں بدلے جاسکتے۔

صاحب نے بے پروا لہجے میں گردن کو جھٹکایا اور فرمایا، اگر سزا ہو بھی جاتی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ صدر پاکستان ایک ہی آرڈر سے سزا ختم کر دیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آپ کا خیال ہے کہ سزا ہوتے ہی صدر پاکستان، میاں نواز شریف کی سزا ختم کرسکتے ہیں تو آپ کا خیال غلط ہے۔ صدر پاکستان سے معافی مانگنے سے پہلے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرنا ہوتی ہے۔ جب سزا کے خلاف ملزم اپیل میں جاتا ہے تو نیب اس پر حکمِ امتناعی (اسٹے آرڈر) لے آتی ہے اور پھر یہ امتناع سال ہا سال چلتا رہتا ہے۔ تب تک ممنون حسین کی مدت ملازمت ختم ہوچکی ہوگی اور نیا صدر یقیناً (ن) لیگ کو سپورٹ نہیں کرے گا۔ لہذا صدر سے معافی ملنے کا آپشن بھی کھٹائی میں پڑجائے گا۔

ابھی پچھلا جواب ہضم نہیں کر پائے تھے کہ صاحب نے بادل نخواستہ اگلا سوال داغ دیا۔ اگلی حکومت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا عمران خان پاکستانی سیاست کو لیڈ کریں گے؟ میں نے عرض کیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشنز میں صورتحال آخری لمحے تک ففٹی ففٹی رہے گی۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر قومی اسمبلی کے الیکشن 2018 میں کوئی بھی پارٹی دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی۔ یہ مختلف پارٹیوں کے گٹھ جوڑ کی حکومت ہوگی اور اس الیکشن میں ایسے اتحاد سامنے آئیں گے جو غیر فطری ہوں گے۔

جن لوگوں کا خیال ہے کہ جو پارٹی پنجاب سے جیتے گی وہی حکومت بنائے گی، تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ کیونکہ 2008 کے الیکشن میں (ن) لیگ نے پنجاب سے حکومت بنائی تھی لیکن مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی۔ اس مرتبہ 2018 کے قومی اسمبلی الیکشن میں تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم ایم اے، ایم کیو ایم اور پی ایس پی، فاٹا اور آزاد امیدواروں کو ملا کر حکومت بنائے جانے کا قوی امکان ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنے پر رضامند ہوجائیں گے؟ اس سوال کا جواب ہے جی ہاں! عمران خان، پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنے پر رضامند ہوجائیں گے کیونکہ عمران خان بارہا اس خواہش کا اظہار کرچکے ہیں کہ مائنس آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ساتھ پی ٹی آئی اتحاد کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین اتحاد کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کرچکی ہے۔ ایم ایم اے اور فاٹا ارکان کو وزارتوں کے عوض حکومتی پارٹی کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ پی ایس پی پہلے ہی تحریک انصاف کو سپورٹ کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔

اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کےلیے (ن) لیگ مائنس نواز شریف سے بھی اتحاد کرنا پڑا تو تحریک انصاف یہ اتحاد بھی کر جائے گی۔

یہ ساری باتیں صاحب کی مرضی کے خلاف تھیں لیکن وہ لومڑی کی طرح مسکرا رہے تھے اور باز کی مانند مجھ پر جھپٹنے کا ارادہ بھی رکھتے تھے مگر بے بس تھے۔ تقریب چل رہی تھی، بہ آواز بلند اختلاف رائے انہیں مہنگا پڑ سکتا تھا۔ وہ مسسلسل ٹانگ ہلارہے تھے، بار بار موبائل چیک کر رہے تھے، ہر دو منٹ میں ایک مرتبہ ٹائی کی نوڈ ٹھیک کرتے تھے۔ غصہ جب آنکھوں کو پھاڑ کر باہر آنے لگا تو صاحب نے سگار سلگا لیا۔ یہ چاکلیٹ فلیور کا سگار تھا۔ صاحب نے تین چار زور دار کش لیے۔ اٹالین کپ میں جمائیکن بلیو ماؤنٹین کافی تیار پڑی تھی۔ صاحب نے دائیں ہاتھ سے کافی کا گھونٹ پیا اور بائیں ہاتھ سے سگار کا کش لگا کر تکبر بھرے لہجے میں مجھے مخاطب کیا: عمران خان اس الیکشن میں کتنی سیٹیں جیت سکے گا؟

میں نے جواب دیا کہ ابھی میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا لیکن اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جو پارٹی زیادہ سیٹیں لے جائے گی وہی اپنا وزیراعظم لائے گی، تو میری رائے اس سے مختلف ہے۔ اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں دوسرے نمبر پر بھی آتی ہے تب بھی اسمبلی کے متفقہ وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔ چاروں صوبوں میں گورنر پیپلز پارٹی کے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ بھی تخلیق کیا جاسکتا ہے۔

صاحب نے فلک شگاف قہقہہ لگایا اور سگار کا کش لگا کر فرمایا، آپ یہ لکھ لیجیے کہ عمران خان کچھ بھی کر لے، چالیس سے زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکے گا اور چالیس سیٹوں والا شخص کس طرح حکومت بناسکتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کا حساب کتاب درست ہو سکتا ہے لیکن مشاہدہ تھوڑا کمزور ہے۔ صاحب مجھے مسلسل گھور رہے تھے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا، صاحب کے قریب آیا اور ان کے کان میں سرگوشی کی، ’’اگر صادق سنجرانی صاحب اپنی پارٹی کی صرف چند سیٹوں کے ساتھ چیئرمین سینٹ بن سکتے ہیں تو عمران خان بھی چند سیٹوں کے ساتھ پاکستان میں حکومت بناسکتے ہیں۔ لہذا آپ ذہن نشین کرلیجیے کہ حالات کچھ بھی ہوں، وزیراعظم عمران خان ہی ہوں گے۔‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔