ہم اور ہمارا احساس محرومی

شاہد سردار  اتوار 29 اپريل 2018

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ معاشرے مل جل کر اجتماعی مفادات کو سامنے رکھ کر چلتے اور قائم رہتے ہیں ۔ وہ معاشرے جہاں کے لوگ صرف اپنے اپنے مفادات کے لیے زندہ ہوں ، وہاں بے حسی ڈیرے جما لیتی ہے اور یہ بات ملک و معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جاتی ہے ۔ ہمارا معاشرہ جو پہلے ہی سے کرختگی، بیزارگی اور بے حسی کی تصویر بنا ہوا تھا اور اب تو یہ درندگی میں لذت تلاش کرنے والا معاشرہ بن کر رہ گیا ہے اور یہ سب کا سب انسان اور احترام انسانیت کے یکسر منافی ہے۔

ہماری دانست میں انسانی رشتوں میں عدم توازن معاشرتی بگاڑ کا بہت بڑا سبب ہے کیونکہ زندگی سے رشتوں کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی اور ہر رشتہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے بوجوہ ہم رشتوں کو احترام اور اہمیت دینے سے گریزاں ہوگئے ہیں حالانکہ رشتے درختوں کی مانند بھی ہوتے ہیں جنھیں ہم اپنی غرض سے کاٹ دیتے ہیں اور خود کو گھنے سائے سے محروم کرلیتے ہیں۔

رشتوں میں بگاڑ، عدم برداشت، عدم تعاون کے بعد ہمارا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کوئی نہ کوئی ایسا معاملہ یا ایسا تفکر ہے جس نے ہم سے ہماری خوشیاں، ہمارا اطمینان ہماری نیند تک چھین لی ہے اور آج کا ہر دوسرا انسان کسی نہ کسی تفکر میں مبتلا ہے، چنانچہ بے خوابی کا عارضہ بھی اکثریت کو لاحق ہوگیا ہے لیکن ہر رات کی صبح تو کرنی ہوتی ہے چاہے بچوں کو جھوٹی سچی کہانی سنا کر کی جائے یا اپنے دکھوں کی فلم دل و نظر میں ریوائنڈ کرکے دیکھ کے کی جائے یا پھر کھڑکی سے باہر رات کے اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن تلاش کرتے ہوئے کی جائے صبح تو کرنی پڑتی ہے نا ۔ گھر سکون کا نام ہوتا ہے اگر وہ جہنم بن جائے تو وہاں رہنا توکیا قدم رکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا ، ویسے بھی گھر انسان کا اثاثہ نہیں ہوتا اصل اثاثہ اس کی اولاد ہوتے ہیں اور دنیا کا سب سے بڑا دکھ اولاد کا دکھ ہوتا ہے۔

افسوس ہمارے معاشرے میں قائم دوسری دیوار کے پیچھے ایک جوان و توانا دکھ موجود ہے ۔ اسی طرح باپ کی غربت اور بیماری اولاد کا سب سے بڑا امتحان بن جاتی ہے۔ کم آمدنی سے گھر چلانے والے گھرکے سربراہ بھی روز جیتے اور روز مرتے ہیں اور ملازمت کی مدت پوری کرنے والے (ریٹائرڈ لوگ) تو ویسے بھی ذہنی طور پر موت کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی حد درجہ غربت کی شرح، مہنگائی اور بے روزگاری نے بھی لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو جوانی میں ہی بوڑھا بنا دیا ہے، اس کے علاوہ دیگر معاشرتی مسائل کی وجہ سے بھی ہم انسانوں کی غالب اکثریت ہنسنا تک بھول چکی ہے اور ہنسی یا مسکراہٹ کی جگہ کرختگی اور تفکرات کی گہری لکیروں نے لے لی ہے۔

ہمارے لہجے سے حلاوت اور شیرینی عنقا ہوچکی ہے ہم حد درجہ روڈ (ناراض) اور لاؤڈ ہوچکے ہیں حالانکہ نرم لہجے سے ہمیشہ مضبوط اور دیرپا رشتے تخلیق پاتے ہیں اور سمجھوتہ کرنے سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن ہم ذرہ برابر جھکنے اور نرم پڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ کون نہیں جانتا کہ تھوڑا سا جھک جانا کسی رشتے کو ہمیشہ کے لیے توڑ دینے سے بہتر ہوتا ہے۔

اگر ہم اپنے قریبی لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق تبدیل نہیں کرسکتے تو اچھا ہوتا ہے کہ ہم کچھ کچھ ان جیسے ہوجائیں کم از کم اختلافات کی فضا ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گی لیکن ایسا بھی کوئی نہیں کر رہا ہر انسان نے اپنی انا کی ایک دیوار بناکر خود کو اس کے پیچھے کر رکھا ہے اسے ضد، ہٹ دھرمی کہہ لیں یا پھر کچھ اور ایک عام انسان پر ہی کیا موقوف دنیا کے نوے فیصد بڑے لوگوں یا حکمران اپنے مخالفین کے ہاتھوں نہیں اپنی ضد، اپنی انا، اپنی ناقص حکمت عملی کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ آج ہم انسانوں کی بڑی اکثریت زندگی کی لطافتوں سے خالی ہے اور انھوں نے خود کو ارزاں بنالیا ہے نتیجے میں وہ ایک زندہ لاش بن چکے ہیں لیکن ایسی لاشوں کا کیا فائدہ جس کا نہ کوئی مقبرہ ہے، نہ اس کے لیے کوئی آنسو اور نہ ہی کوئی پرسا؟

ہم اور ہمارا سب سے بڑا احساس محرومی یہ ہے کہ ہم نے زندگی کو صحیح معنوں میں سمجھا ہی نہیں۔ زندگی میں کامیابی بہت کچھ حاصل ہونے سے نہیں ملتی بلکہ انسان کے پاس جو بھی کچھ ہے اسے سلیقے سے استعمال کرنے سے ملتی ہے اور زندگی صرف اسی صورت بدلتی ہے جب ہم خود کو بدلیں۔ مسلسل کوشش اور بار بار کی غلطیاں بھی عقل مندی کا ذریعہ ہوتی ہیں، لیکن ہم اپنی کوتاہی اور خامی کی طرف دیکھنے پر ذرا آمادہ نہیں۔

آج کے انسانوں کی بہت بڑی تعداد نے مایوسی اور ناامیدی کی چادر میں خود کو ڈھانپ لیا ہے اور خود کو ’’زیرو‘‘ سمجھ لیا ہے۔ کاش وہ یہ جان لیتے کہ صفر کی ضرورت ہر عدد کو ہوتی ہے۔ کچھ بننے کے لیے زیرو جس عدد کے ساتھ رہے اس کی قدر و قیمت کئی گنا بڑھا دیتا ہے، اگر ہم میں سے کوئی خود کو زیرو سمجھ بیٹھا ہے تب بھی وہ قیمتی ہے بے کار نہیں۔ پھر بھی ہر گنتی سے پہلے وہی آئے گا، ہر گنتی کا آغاز اسی سے ہوگا اور ہر نو عدد کے بعد ایک بار اس کی ضرورت پڑے گی، ہر تبدیلی اسی سے آئے گی۔ لیکن کیا ہے کہ اپنے خراٹوں کی آواز خود کے کان کہاں سنتے ہیں، لیکن بصیرت وہ کچھ بھی دیکھ سکتی ہے جو بصارت نہیں دیکھ پاتی۔

زندگی میں کچھ لوگ روشنیوں جیسے ملتے ہیں۔ منزل تک نہ بھی پہنچا سکیں تو سفر میں اجالا ضرور کردیتے ہیں، ہم ابھی اتنے تہی دست نہیں ہوئے اپنے اطراف میں ہمیں ایسے لوگ ڈھونڈنے چاہئیں، سچے اور مخلص دوست بنانے چاہئیں کہ دوستیاں بھی ہمارے ہاں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں، حالانکہ دوستی کرنا اتنا ہی آسان ہے جیسے مٹی سے مٹی پر مٹی لکھنا لیکن دوستی نبھانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پانی سے پانی پر پانی لکھنا۔

ہم سبھی کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ زندگی کو بدلنے میں وقت نہیں لگتا مگر وقت بدلنے میں زندگی ضرور لگ جاتی ہے اور زندگی پیاری نہ ہو یا متاثر کن نہ بھی ہو تو زندہ تو ہر حال میں رہنا ہی پڑتا ہے، ہماری مرضی کی نہ بھی ہو تو زندگی جینا ہی پڑتی ہے۔ خواہشیں کرنے سے ویسے بھی دل کا درد نہیں جاتا اور نہ کسک قرار و اطمینان میں بدلتی ہے اور دنیا کی وہ تمام چیزیں بھی ہماری نظروں سے دور نہیں ہوتیں جن سے ہم کڑھتے یا نفرت کرتے ہیں۔ لیکن ٹھہریں ہمیں کسی سے نفرت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ نفرت قریب کے لوگوں کو دور لیکن محبت دور کے لوگوں کو قریب کر دیتی ہے۔

ہمیں رشتوں کی قدر کرنی چاہیے کہ ہر رشتہ اہمیت اور توجہ کا حامل ہوتا ہے، ہر رشتے کی محبت کا اپنا ایک منفرد ذائقہ ہوتا ہے کوئی بھی رشتہ پھیکا یا ماند پڑ جائے تو زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے، زندگی کا مزہ ختم ہوجاتا ہے۔ رشتے ویسے بھی رشتے نہیں آبا و اجداد کے وہ اثاثے ہوتے ہیں جو رہتی دنیا تک زندگی کا سرمایہ بنے رہتے ہیں کاش ہم سامنے کی اس حقیقت کو جان لیں لیکن ہم لوگ آسان اور سہل راستوں کے عادی نہیں اسی لیے ہمیں بہت دور جانا پڑتا ہے صرف یہ جاننے کے لیے کہ ہمارے نزدیک کون ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔