سیکرٹ فنڈ کیس، وزارت اطلاعات عدالت کوگمراہ کرناچاہتا ہے

اسد کھرل  منگل 16 اپريل 2013
 سول سوسائٹی،میڈیاارکان کا30کروڑلینے والے چینل کانام منظرعام پرلانے کامطالبہ. فوٹو : فائل

سول سوسائٹی،میڈیاارکان کا30کروڑلینے والے چینل کانام منظرعام پرلانے کامطالبہ. فوٹو : فائل

لاہور:  وزارت اطلاعات، سیکرٹ فنڈکیس میں سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

کیونکہ سرکاری وکیل راجاعامر نے11اپریل2013 کو وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کی فہرست کی تفصیل بتانے کو خالصتاً اپنا استحقاق قرار دیاتھا۔ حالانکہ انٹیلی جنس بیورو نے قبل ازیں اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قریبی بیوروکریٹس اور سیاستدانوں میں خفیہ فنڈز کی تقسیم کا انکشاف اور رقوم کی وصولی کی رسیدوں کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کردیا تھا۔

اس ریکارڈ کی پیپلزپارٹی کی زیرقیادت سابق اتحادی حکومت اور آئی بی کے حاضرسروس سربراہوں نے کبھی تردید نہیں کی جبکہ آئی بی کے اس کیس سے متعلق افسر مسعودشریف خٹک نے بھی سپریم کورٹ میں اپنا تحریری جواب جمع کرایاتھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے 2008 میں ایکسپریس ٹریبیون میں سیکرٹ فنڈ سے مزید270ملین روپے جاری ہونے کی خبر شائع ہونے پر ازخودنوٹس لیا تھا۔ ان دونوں کیسوں کی سماعت سپریم کورٹ میں زیرالتوا ہونے اور عدالت عظمٰی کی طرف سے سیکرٹ فنڈ کے استعمال پر پابندی کے باوجود پیپلزپارٹی کی حال ہی میں سبکدوش ہونے والی حکومت نے مارچ2013 میں وزارت اطلاعات، دیگر وزارتوں، متعلقہ محکموں اور آئی بی کو اس فنڈ کے استعمال کی اجازت دی۔

سپریم کورٹ میں 3صحافیوں حامدمیر، ابصارعالم، اسدکھرل کی طرف سے ٹیکس دہندگان کی رقم کا صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو خریدنے کے لیے استعمال روکنے کی آئینی پٹیشن کی سماعت کے دوران جسٹس جوادایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 2رکنی بنیچ نے اطلاعات تک رسائی اور آزادی اظہار سے متعلق آئین کے آرٹیکل19 کی تشریح کرنے کا فیصلہ کیا۔ فاضل بینچ کل(17اپریل) کو حتمی فیصلہ سنائے گا کیونکہ حکومت سیکیورٹی وجوہ کی بنیاد پر کچھ تفصیل چھوڑکر خفیہ اخراجات کی نظرثانی شدہ فہرست عدالت میں پیش کرے گی۔

فاضل جج جسٹس خواجہ نے دوران سماعت قراردیا تھاکہ استحقاق کی مد میں مجموعی رقم کی کل مالیت 50لاکھ روپے بنتی ہے جبکہ قتل کیے گئے صحافیوں کی بیوائوں کو دی گئی رقم مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہے۔ انھوں نے کہاکہ 30کروڑ روپے کی ایک اور ادائیگی بظاہر ایک نجی چینل کو کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وزارت اطلاعات کو ہدایت کی تھی کہ وہ 17اپریل کو دوبارہ خفیہ اخراجات کی تفصیل فراہم کرے۔ توقع ہے کہ کل عدالت عظمیٰ 18دیگر مدوں کے دعوئوں کا بھی جائزہ لے گی اور وزارت اطلاعات کو اس کا دفاع کرنا پڑے گا۔

حکومت نے عدالت کے باربار احکامات کے باوجود، 3ماہ گزرنے پربھی 4ارب 79کروڑ روپے کے اس ’’سیکرٹ فنڈ‘‘ کی کوئی تفصیل جمع نہیں کرائی جو سابق پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران مختلف وزارتوں، منسلک محکموں اور وفاقی اداروں کو جاری کیے گئے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے15جنوری2013 کو اپنے فیصلے میں قرار دیاکہ ’’بادی النظر میں آرٹیکل19اے کے تحت وزارت اطلاعات نام نہاد سیکرٹ فنڈ سمیت جاری کیے گئے تمام فنڈز کے استعمال کی نوعیت کی تفصیل جمع کرائے گی۔ وزارت کا موقف ہے کہ وہ ایسے فنڈز کی تفصیل قانوناً خفیہ رکھ سکتی ہے چنانچہ مسٹر ملوکہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ یہ تفصیل سربمہر لفافے میں عدالت کے روبرو پیش کریں۔ ان بنیادوں کی تفصیل بھی بتائی جائے جن کی بنا پر فنڈ کے استعمال کو خفیہ رکھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔‘‘

اسی طرح درخواست گزار اسدکھرل نے بیان کیاکہ27 دیگر وزارتوں اور وفاقی اداروں کے پاس بھی سیکرٹ فنڈ ہے جس کے استعمال کی تفصیل کبھی منظرعام پر نہیں لائی گئی۔ فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل ایسے سیکرٹ فنڈ کی تفصیل اور ان کا استعمال خفیہ رکھنے کی وجوہ بتائیں۔ اس حوالے سے ایک اور درخواست گزار سینئر صحافی ابصارعالم سے رابطہ کیاگیا تو انھوں نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل19اے کے تحت بطور شہری یہ ہمارا بنیادی حق ہے کہ ہم ٹیکس دہندگان کی رقم کے استعمال کی معلومات تک رسائی حاصل کریں۔

ایک صحافی کی حیثیت سے میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کے احتساب کی حمایت کروں کیونکہ میڈیا دیگر ریاستی اور سیاسی اداروں پر نظر رکھتا ہے۔ وزارت اطلاعات کی طرف سے سیکرٹ فنڈ کے غلط استعمال سے تمام صحافیوں پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور میڈیا کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

میڈیا کی ساکھ بحال کرنے کے لیے عوام کے ٹیکسوں پر پلنے اور عوام کو گمراہ کرنے والی چند کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ ابصارعالم نے سیکرٹ فنڈ سے مستفید ہونے والوں کی فہرست منظرعام پر لانے والے میڈیا کے ارکان اور عوام الناس کا خیرمقدم کیا ہے۔ دوسری طرف عدالت عظمیٰ کے فاضل جج کی طرف سے ان ریمارکس کہ 30 کروڑروپے کی رقم بظاہر ایک نجی ٹی وی چینل کو دی گئی ہے، کے بعد سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر بحث شروع ہوگئی اور سول سوسائٹی، سوشل میڈیا اور میڈیا کے ارکان نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ 30کروڑ روپے حاصل کرنے والے چینل اور بھاری رقوم وصول کرنے والے دیگر صحافیوں کے نام منظرعام پر لائے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔