مخروط خاموشی کا نظریہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 30 اپريل 2018
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا میڈیا سے متعلق مختلف تھیوریز بھی پڑھتے ہیں، ان تھیوریز میں ’’مخروط خاموشی کا نظریہ‘‘ اور ’’علم و عمل میں عدم مطابقت‘‘ جیسی تھیوریز بھی شامل ہیں۔

’’مخروط خاموشی‘‘ کے نظریے کے مطابق ایک فرد جب کسی مسئلے پر اپنے اردگرد لوگوں کی اکثریت کو اپنے خیال سے مختلف پاتا ہے تو وہ اپنی رائے دیتے ہوئے اعتماد کھونے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ خاموشی اختیار کرلیتا ہے، یوں ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب مخالفانہ رائے بالکل ہی ختم ہوجاتی ہے اور ہر طرف ایک ہی رائے رہ جاتی ہے، حالانکہ ختم ہونے والی یہ رائے حقیقت پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ صورتحال ہمیں میڈیا پر کسی مسئلے سے متعلق بھی نظر آتی ہے کہ جب میڈیا سے جاری ہونے والی غیر حقیقی رائے، حقیقی رائے پر غالب آجاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ واقعی یہی درست اور حقیقت ہے۔

اس تناظر میں یونیورسٹی کے ایک استاد نے تجربہ کیا۔ استاد نے تمام طلبا کو کہا کہ آپ ’’خواتین کے عالمی دن‘‘ پر ایک مضمون لکھ کر لائیں۔ جب تمام طلبا مضمون لے کر آئے تو استاد نے بورڈ پر ان تمام مضامین میں خواتین سے متعلق وہ حقوق لکھ دیے جو طلبا کی نظر میں خواتین کو ملنے چاہیے تھے مگر نہیں مل سکے تھے۔ اس کے بعد استاد نے تمام طلبا سے پوچھا کہ ان کی نظر میں تاریخی اعتبار سے کوئی دور سب سے اچھا گزرا ہے؟ طلبا نے جواب دیا کہ ’’اسلام کا ابتدائی دور‘‘ پھر پوچھا کہ کیا اس دور میں خواتین کو تمام حقوق حاصل تھے؟ سب نے جواب دیا کہ وہ دور تاریخ کا سنہرا دور تھا اور خواتین کو سب حقوق حاصل تھے، نیز یہ دور ہمارے لیے ’رول ماڈل‘ ہے۔

اس کے بعد استاد نے ایک ایک کرکے تمام طالبات سے پوچھا کہ ذاتی طور پر انھیں اپنے گھر میں حقوق حاصل ہیں؟ کوئی ایسا حق تو نہیں جو انھیں گھر والوں نے نہ دیا ہو اور اس پر انھیںاعتراض ہو؟ تمام طالبات نے ایک ایک کرکے یہی جواب دیا کہ انھیں اپنے گھر میں تمام حقوق حاصل ہیں۔ اس پر استاد نے کہا کہ جب آپ کو حقوق کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں تو پھر آپ سب نے اپنے اپنے مضمون میں یہ کیسے طے کرلیا کہ پاکستانی خواتین کو حقوق حاصل نہیں اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے؟ استاد نے پھر کہا کہ چلیے انفرادی طور پر آپ سب کو حقوق ملے ہوئے ہیں، یہ بتائیے کہ جس شہری معاشرے میں آپ رہتی ہیں، وہاں خواتین کو کیا حقوق نہیں ملے؟ استاد نے تمام طالبات سے پوچھ کر بورڈ پر ان حقوق کی بھی ایک فہرست بنا ڈالی۔

نمبر 1: خواتین کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بغیر حجاب کے جینز پہنیں۔

نمبر 2: خواتین کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باہر جاکر آزادی سے ملازمت کر سکیں، مردوں کی طرح خواتین کو بھی ہر شعببے میں کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔

نمبر3: خواتین کی شادی ان سے پوچھے بغیر کر دی جاتی ہے۔

نمبر 4: خواتین کو تنہا رات دیر تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

نمبر 5: خواتین کو یونیورسٹی میں پڑھنے کا حق نہیں ملتا۔

نمبر 6: خواتین کو مرد کے برابر حقوق حاصل نہیں، جب مرد ایک ساتھ کئی شادیاں کرسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں کرسکتی؟

نمبر7: بیوی کو بھی حق حاصل نہیں کہ وہ شوہر کی طرح صبح سے شام تک دفتروں میں کام کرے۔

پھر استاد نے اس فہرست میں درج ایک ایک حقوق کے بارے میں طالبات سے کہا کہ ابھی کچھ دیر پہلے تو آپ سب نے کہا تھا کہ اسلام کا ابتدائی دور سب سے اچھا اور سنہرا دور تھا، جہاں خواتین کو تمام حقوق حاصل تھے اور یہ دور ہمارے لیے ’رول ماڈل‘ ہے، مگر آپ نے خواتین کے حقوق کی جو فہرست بنائی ہے وہ تو اس سنہری دور کے اصولوں کے قطعی برعکس ہے۔ مثلاً اس سنہری دور میں تو بغیر حجاب کے عورتیں باہر نہیں نکلتی تھیں، تو بھلا جینز پہن کر بغیر حجاب کے نکلنا یہ حق آپ کی نظر میں کیسے ممکن ہے؟

اسی طرح اس دور میں تو خواتین گھروں میں رہ کر اپنا کام کرتی تھیں، باہر جاکر ملازمت کرنے کا کلچر تھا ہی نہیں، نہ ہی کمانے کے لیے شوہر کے علاوہ بیویاں گھر سے باہر نکلتی تھیں، ابتدائی غزوات میں تو افرادی قوت کی شدید کمی تھی، دشمن تعداد میں کئی گنا زیادہ تھا مگر مسلمانوں کی طرف سے میدان جنگ میں خواتین کو نہیں بلایا گیا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنے کا کلچر مردوں میں بھی نہیں تھا، خواتین تو دور کی بات ہے۔

اسی طرح اس دور میں یونیورسٹیاں یعنی سیکولر تعلیمی نظام ہی نہیں تھا، جو بھی نظام تھا اس میں صبح سے شام تک خواتین گھر سے باہر تعلیم حاصل نہیں کرتی تھیں، رہی یہ بات کہ عورت کو بھی مرد کی طرح بیک وقت کئی شادیاں کرنے کا حق حاصل نہیںہے، یہ ہو بھی نہیں سکتا، کیونکہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ہے، نیز شادی کے وقت لڑکی سے اس کی مرضی پوچھی جاتی ہے، زبردستی کی شادی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔

اس گفتگو کے بعد استاد نے طالبات سے کہا کہ آپ تمام نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے جن مطالبات کی فہرست بنائی ہے وہ میڈیا پر جاری ’بیانیہ‘ کو دیکھ کر بنائی ہے اور میڈیا پر ان حقوق کی بات کی جاتی ہے کہ جو اقوام متحدہ کے ادارے کی جانب سے ہوتے ہیں، جن کو تیار کرنے والے مسلمان یا مذہب پر ایمان رکھنے والے نہیں ہوتے، بلکہ جان لاک، کانٹ وغیرہ جیسے مفکرین پر ایمان رکھتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’میرا جسم میری ملکیت ہے‘ یعنی خدا کی ملکیت نہیں، اسی طرح روشن خیال وہ ہے جو زندگی گزارنے کے لیے اپنے اصول مذہب سے نہیں بلکہ اپنی عقل سے لیتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا خواتین کے حقوق تیار کرنے والوں نے اپنے لادینی نظریے کے تحت حقوق کی یہ فہرست تیار کی ہے جس کو میڈیا نے اپنا ’بیانیہ‘ بنالیا ہے۔

اور میڈیا پر بار بار خواتین کے یہی حقوق سن سن کر اور دیکھ کر آپ بھی سمجھ بیٹھے کہ واقعی خواتین کو حقوق حاصل نہیں ہیں، ورنہ انفرادی جوابات میں آپ سب طالبات نے کہا کہ انھیں اپنے اپنے گھر میں تمام حقوق حاصل ہیں، نیز اجتماعی جواب میں آپ سب نے کہا کہ اسلامی دور سب سے اچھا اور سنہرا تھا، جس میں خواتین کو تمام حقوق حاصل تھے اور یہی دور قابل تقلید بھی ہے۔ اگر آپ کی بات سچ ہے اور آپ کا ایمان مذہب پر ہے تو پھر حقوق کے یہ تمام مطالبات غلط ہیں۔

یہی ’’مخروط خاموشی کا نظریہ‘‘ ہے کہ جس میں حقیقی بات آہستہ آہستہ کہیں گم ہو جاتی ہے اور جو حقیقت جانتے ہیں وہ کہنے سے پرہیز کرتے ہیں، بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ اپنا نظریہ بھی بدل لیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔