ورکنگ و یمن کیا کرتی ہیں؟

مبشرہ خالد  پير 30 اپريل 2018
پاکستان میں صنف نازک کے بھی کئی روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پاکستان میں صنف نازک کے بھی کئی روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی: پاکستانی معاشرہ میں کئی رنگ نمایاں ہیں جہاں  ہمیں مختلف روایات اور انداز دیکھنے کو ملتے ہیں، وہیں اگر زبان کی بھی بات کی جائے تو یہاں سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو کے ساتھ کئی علاقائی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اسی طرح  جب بات کھانوں کی کی جائے تو مختلف ذائقے دارکھانے بھی ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔

یہی حال ہمارے موسموں کا بھی ہے، ان موسموں میں بھی گرمی، سردی، خزاں، بہار کے ساتھ شدید برف باری اور لق و دق صحرا کی گرم ریت بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔یہ سب تو قدرت کے اتار چڑھاؤ ہیں جن سے ہم سب کو گزرنا پڑتا ہے۔

مگر پاکستان میں صنف نازک کے بھی کئی روپ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں کی عورت کے اتنے روپ ہیں جو شاید نہیں یقیناً صرف یہیں دیکھنے کو مل سکتے۔ یہاں اپر، مڈل، لوئر کلاس کی عورت کا کردار ہی مختلف ہے۔ یہاں ہمیں پڑھی، لکھی عورت کام کرتے اوراپنا نام کماتے ہوئے بھی ملے گی اور  پڑھ لکھ کر گھر پر بیٹھی ہوئی خواتین بھی ملیں گی اور جاہل ہوتے ہوئے گھروں پر کام کرتے اپنا گھر چلاتی ہوئی خواتین بھی  اور وہ بھی جو گھر بیٹھ کر کماکر اپنی ضروریات پوری کررہی ہوگی ۔

یہاں ہمیں ایوانوں میں پاکستانی سیاست میں اپنی بات کی اہمیت منواتی  ڈاکٹر فہمیدہ مرزا پہلی خاتون اسپیکر ،  حنا ربانی کھر،  پہلی خاتون وزیر خارجہ ، پاکستان پپلز پارٹی خواتین ونگ کی صدر فریال تالپور یا پھروزیر اطلاعات شیریں حمان بھی ملتی ہیں جو ملک کی باگ ڈور میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ خواتین بھی سیاست دان ہوسکتی ہیں ۔

عمومی طور پر مردوں کو کاروبار ی دنیا کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے،مگر نسرین قصوری نے بیکن ہاؤس اسکول کی داغ بیل ڈالی،   روشنانیے ظفر نے کشف فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھ کر خواتین کو مائیکرو فنانس کی سہولت فراہم کی  اور کتابوں کے مشہور پریس آکسفورڈ پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر آمنہ سید ہیں،  یہ سب خواتین یہ ثابت کرتی ہیں کہ خواتین کاروبار کرنے اور کاروبار اداروں کا انتظام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں  اور مردوں کا اس میدان میں بھی مقابلہ کرسکتی ہیں۔

ادب میں آج مردوں سے زیادہ خواتین فکشن نگار مقبول ہیں۔ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ برسوں سے پڑھا جارہا ہے۔ عمیرہ احمد کا پیرکامل وہ ناول ہے کہ وہ خواتین و حضرات جو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں رکھتے، وہ بھی اس ناول کو ضرور پڑھتے ہیں۔ ان دو مشہور ناول نگاروں کے ساتھ بے شمار ناول نگار ایسی ہیں جو فکشن نگاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ نسیم زہرا، عاصمہ شیرازی، مہر بخاری میڈیا کی دنیا کی مشہور شخصیات ہیں۔ یہ وہ خواتین ہیں جنھیں ایک دنیا جانتی ہیں جن کے بارے میں وہ خواتین جو گھر داری کرتی ہیں، بڑے دھڑلے سے یہ کہتی دکھائی دیتی ہیں  کہ ان خواتین سے گھر نہیں بستے،  کیوں کہ یہ تو ملک کی باگ ڈور چلانے میں ہاتھ بٹارہی ہیں اور گھر اور بچوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں، مگر وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں کہ یہ وہ خواتین ہیں جو ملٹی ٹاسکرز ہیں،  یہ گھر اور باہر کی دنیا کو ٹائم مینجمنٹ کے ساتھ انجام دیتی ہیں۔

ہمارے معاشرے میں وہ خواتین جنھیں ہاؤس وائف کا درجہ دیا جاتا ہے،  ان کا عمومی طور پر یہی خیال ہوتا ہے کہ وہ بچے جن کی مائیں ورکنگ وومن ہوتی ہیں،  ان کی تربیت صحیح نہیں ہوتی،  وہ ہائپر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی ماؤں کے پاس ان کے لیے وقت نہیں ہوتا، مگر ان کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ ورکنگ ویمن اپنے بچوں کو وقت کی مقدار سے زیادہ معیاری وقت دینے کی قائل ہوتی ہیں۔  اگر کبھی ہاؤس وائفس اپنے گریبانوں میں جھانک لیں تو انھیں اس بات کا خود اندازہ ہوجائے کہ وہ آج کے اس مشینی دور میں کتنا وقت اپنے بچوں کو دے رہی ہیں، شاید اس سے بھی کم جتنا ایک ورکنگ وومن دیتی ہے،  کیوں کہ آدھا دن اسکول، مدرسہ اور ٹیوشن میں گزارنے کے بعد کتنا وقت بچتا ہے جو بچوں کو دیا جائے۔ ہاں البتہ قومی کھیل باتیں بگھارنا اور لوگوں پر تجزیہ کرنا ضرور فون کے ذریعے کھیل لیا جاتا ہے۔

اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ خواتین جو بڑے دھڑلے سے ورکنگ ویمن  کی برائی کرتی ہیں، وہ اپنے گریبانوں میں جھانکیں، تاکہ انھیں پتا چلے کہ ورکنگ ویمن کو  باتیں بنانے میں کوئی دل چسپی نہیں،  اس لیے وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے نام کمارہی ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔