کپتان کا کم بیک

ایاز خان  منگل 1 مئ 2018
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کپتان ایک بار پھر لاہور میں بڑا اور کامیاب شو کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ 29 اپریل کو گریٹر اقبال پارک کے جلسے کا اگر لاہور میں ہونے والے کسی دوسرے جلسے سے مقابلہ تھا تو وہ 30اکتوبر 2011ء میں اسی مقام پر ہونے والے جلسے سے ہی تھا جس کے بعد محسوس ہوا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک بڑی اور طاقتور پارٹی بن گئی ہے۔ اس کے بعد 2013ء کے عام انتخابات کے نتائج آئے تو کپتان کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔

قومی اسمبلی کی 25 نشستیں حصے میں آئیں اور ن لیگ کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی اپوزیشن لیڈر کا منصب بھی حاصل نہ کر سکی۔ خیبر پختونخوا میں مخلوط حکومت سب سے بڑی کامیابی تھی۔ کپتان نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ لے کر میدان میں اتر آیا۔2014ء میں ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا۔ یہ دھرنا بھی مطلوبہ نتائج لیے بغیر ختم کرنا پڑا۔دھرنے اور پھر اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی ناکامی کے بعد نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ جس طرح کرکٹر کی فارم کیریئر کے کسی نہ کسی مرحلے پر متاثر ہوتی ہے اسی طرح کپتان کی مقبولیت بھی کم ہوئی۔

لاک ڈاؤن کا فائدہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کھول دیا اور پھر اسی کیس کے نتیجے میں نواز شریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی بلکہ ان کے اور ان کی فیملی کے مقدمات احتساب عدالت میں شروع ہو گئے۔ یہ مقدمات بھی اب اپنے منطقی انجام کے قریب ہیں۔

اتوار کے جلسے میں لوگوں کی کتنی تعداد تھی اس پر بحث اور تبصروں کاسلسلہ جاری ہے۔ 29اپریل کا جلسہ 30اکتوبر سے بڑا تھا یا نہیں اس پر بھی بات ہوتی رہے گی۔ اس جلسے نے اصل کام یہ کیا ہے کہ کپتان کو اپنی فارم واپس مل گئی ہے۔ وہ پھر سے میدان میں اترنے کے لیے تیار ہے۔ آج حالات 2011ء سے مختلف ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں کپتان کے پاس صرف فارم یا مقبولیت تھی۔ 2018ء کے الیکشن میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اب فارم اور مقبولیت کے ساتھ ساتھ الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی کپتان کے قافلے کا حصہ بن چکی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بے شمار حلقے ایسے ہیں جہاں پی ٹی آئی کے چار، چار امیدوار موجود ہیں۔

آج بنی گالا کے باہر الیکٹیبلز کی لائن لگی ہوئی ہے۔ کپتان 29 اپریل کے جلسے میں 11نکاتی ایجنڈا پیش کرتے ہوئے کئی بار جذباتی ہوا۔ اس نے کہا ’’میں خون کے آخری قطرے تک آپ لوگوں کا ساتھ دوں گا‘‘۔ کپتان نے اپنے سیاسی کیریئر کے ابتدائی دور کو یاد کرتے ہوئے دلچسپ واقعات بھی سنائے۔ شیخ رشید کی موجودگی میں اس نے کہا کہ ایک ٹی وی شو میں شیخ صاحب نے کہا تھا کہ عمران کی تانگہ پارٹی ہے، پھر شاہ محمود قریشی کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دینے گیا تو وہ میری شکل یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں نے کوئی انہونی بات کر دی ہے۔

جلسہ 2011ء کا بھی بڑا تھا اور 2018ء میں بھی شو انتہائی کامیاب رہا۔ کرکٹ کی اصطلاح میں بات کی جائے تو جلسے کو نیٹ پریکٹس کہا جا سکتا ہے۔ میچ ہو گا پولنگ ڈے پر۔ دیکھنا ہے کہ کپتان کی ٹیم جب دوسری جماعتوں کے مقابلے میں الیکشن کی پچ پر اترے گی تو نتائج کیا ہوں گے۔ کیا پولنگ ڈے کا نتیجہ اس بار مختلف ہو گا؟ کیا کپتان کو اتنی بڑی کامیابی مل جائے گی کہ وہ اپنے 11نکاتی انتخابی ایجنڈے پر عمل درآمد کرا سکے؟

ایجنڈے کے بیشتر نکات پر عمل درآمد کے لیے بے شک دو تہائی اکثریت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ جس نکتے پر کپتان بڑی آسانی کے ساتھ عمل کر سکتا ہے وہ قرضوں کا خاتمہ ہے۔ کپتان شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کا ماہر ہے۔ اس نے جب ملکی قرضے اتارنے کے لیے پاکستانیوں کو پکارا تو وہ جوق در جوق اس مہم کا حصہ بنیں گے۔

ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف حکومت نے ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم کا اعلان کیا تھا تو پوری دنیا سے پاکستانیوں نے ڈالروں کے ڈھیر لگا دیے تھے۔ یہ الگ بات کہ اس جذبے کی قدر نہ کی گئی اور قرض اترنے کے بجائے بڑھتے چلے گئے۔جلسہ ہو گیا، کامیاب بھی ہو گیا۔ اس میں پورے پاکستان سے لوگ آئے۔ لاہوریوں کی بھی بڑی تعداد اس میں شریک ہوئی۔ مجموعی تعداد بھی مخالفین کا دل دہلانے کے لیے کافی تھی۔ اب الیکشن کی تیاری کا مرحلہ ہے۔ کامیابی کے لیے سب سے پہلا کام درست امیدواروں کا انتخاب ہے۔ اس کے بعد اپنے ووٹر کو پولنگ بوتھ تک لے جانا اہم ہوتا ہے۔ الیکشن کی سائنس ن لیگ سے بہتر کسی کو نہیں آتی۔ اب دیکھنا ہو گا کہ کیا کپتان اور اس کی ٹیم نے بھی الیکشن لڑنا سیکھ لیا ہے یا نہیں۔ الیکشن میں کامیابی کے لیے جلسے میں لوگوں کو لانے سے زیادہ ڈبے میں ووٹ ڈلوانا ضروری ہوتا ہے۔

حکومت کا آخری مہینہ آج سے شروع ہو گیاہے۔ ایک ماہ بعد نگران حکومت چارج سنبھال لے گی۔ اس کے بعد 60 دن میں الیکشن کاانعقاد ہوگا۔ ن لیگ کا شکوہ ہے کہ الیکشن میں اس کے امیدواروں کو برابری کے مواقعے نہیں ملیں گے۔ ایسا ہی شکوہ 2013ء کے الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی اور اے این پی نے کیا تھا۔ اس وقت مارکیٹ میں کچھ سازشی تھیوری بھی چل رہی ہیں۔

ان میں سے ایک تھیوری یہ ہے کہ الیکشن کے بعد کسی غیرمعروف سیاستدان کو وزیراعظم بنایا جائے گا۔ نواز شریف نے کل بھی کسی ایسے ہی خدشے کا اظہار کیا ہے۔کہیں کوئی ایسی تجویز زیر غور ہے تو اس کو ذہن سے نکال دینا چاہیے۔ ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو فری ہینڈ ملنا چاہیے، سب کو الیکشن مہم کے یکساں مواقعے ملنے چاہئیں۔ کپتان متوقع جیت کے حوالے سے پرامید ہے۔ اس کی پارٹی اگر الیکشن جیت جاتی ہے توکپتان کا راستہ نہیں روکنا چاہیے۔ وہ بطور حکمران ابھی آزمایا نہیں گیا۔ یہی تو اس کا سب سے بڑا ایڈوانٹیج ہے۔ لاہور کا جلسہ کپتان کا کم بیک ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔