فقیر گوشہ گیر چلا گیا

زاہدہ حنا  منگل 16 اپريل 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دنیا میں پیدا ہونے والا ہر ذی روح، اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی موت کا پروانہ بھی ساتھ لاتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیے تو بھائی اختر پیامی کا چلے جانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں، والا معاملہ ہے۔ لیکن احساس زیاں کا خنجر اس لیے سینے میں اترتا ہے کہ ہم جس دور میں زندہ ہیں اس میں ان ایسے بے ریا اور با صفا لوگ کم یاب نہیں، نایاب ہوتے جاتے ہیں۔ مہاتما گوتم بدھ کے گیان، دھیان، نروان کی حالتوں نے گیا کی فضائوں کو ایسے رنگ میں رنگ دیا ہے جس کی شوبھا نرالی ہے۔

ڈھائی ہزار برس بعد بھی اس بستی کی یہ ادا لوگوں کا دل لبھاتی ہے اور جانے کہاں کہاں سے لوگ اس طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ گیا کی مٹی سے لاکھوں لوگ اٹھے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوئے جن کے خمیر میں اس مہان انسان کے قدموں کی چٹکی بھر دھول شامل ہوگئی اور انھیں کچھ سے کچھ کرگئی۔ اختر پیامی راج گیر (گیا) میں جنم لینے والے ایسے ہی انسان تھے۔ ان کے خمیر میں اس چٹکی بھر دھول نے جو کام دکھایا۔ یہ اسی کا اعجاز ہے کہ وہ کبھی تنگ نظری کا شکار نہیں رہے۔ محبت، رواداری اور خلوص کے جذبے نے ہمیشہ ان کی رہنمائی کی اوران کے بارے میں بے دھڑک یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی سے نفرت نہیں کرسکتے تھے اور اپنے بدترین دشمن کو بھی معاف کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

بیسویں صدی تاریخ انسانی کی ایک ایسی انوکھی صدی تھی جس نے دنیا کے زمین و آسمان منقلب کردیے۔ سیاسی انقلاب، ادبی تحریکیں، عظیم جنگیں، کروڑوں انسانوں کا قتال اور کروڑوں انسانوں کی نقل مکانی، ناقابل یقین سائنسی ایجادات و انکشافات، انسان کے عظیم ترین اور اسفل ترین ہونے کے تمام امکانات سب اس صدی میں سانس لینے والے انسانوں نے دیکھے اور جھیلے۔ اختر پیامی ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ باشعور اور باضمیر تھے۔

پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ خوابوں کی دل آویزی اور حقیقت حال کی سفاکی ان کے اندر کے شاعر کو بیدار نہ کرتی۔ انھوں نے بیسویں صدی کے جس زمانے میں آنکھ کھولی اس وقت فلسفی مارکس اور انقلابی لینن کی آنکھوں کے خواب دنیا کے کروڑوں انسانوں کی آنکھوں میں جاگ رہے تھے۔ اختر پیامی غلام ہندوستان کے آزاد روح نوجوان تھے۔ انھوں نے اپنی دھرتی اور اس پر رہنے والوں کی آزادی کے خواب کو ذاتی خواہشوں اور محبتوں میں یوں آمیز کیا کہ ایک کم گو نوجوان ہونے کے باوجود وہ ایک ہنگامہ خیز شاعر کے طور پر سامنے آئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی اور برصغیر کے بلند و پست پر ٹیگور، اقبال، جوش، مجاز، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی کے انقلابی گیتوں اور عشقیہ نغموں کی گونج تھی۔ اختر پیامی اس ماحول اور فضا سے آخر کیوں متاثر نہ ہوتے۔ انھوں نے اپنی ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز 1942 کی Quit India Movement سے پہلے کردیا تھا۔ ان کی شاعری بھگت سنگھ اور دادا اشفاق ایسے انقلابیوں کی طرح بسنتی رنگ میں رنگی گئی۔ اختر پیامی کی نظم ’سالگرہ‘ کی تفہیم آج شاید بہت سے لوگوں کے لیے ممکن نہ ہو لیکن 40 کی دہائی میں کون تھا جو اس نظم کو سن کر رگوں میں ابلتے ہوئے لہو کی روانی کو محسوس نہ کرسکے، اس نظم کے ایک بند میں جذبے کی تندی ملاحظہ ہو:

’’اے غریبوں کے خداوند، امیروں کے رفیق… میں سمجھتا تھا مجھے آپ نہیں پہچانیں گے… میں نے انگریز کی جیلوں میں جوانی کاٹی… میں نے ٹھٹھرے ہوئے ہاتھوں سے جلائے ہیں دیے… جن کی لو آج بھی طوفانوں سے ٹکراتی ہے… جن کو انگریز کی پھونکوں نے بجھانا چاہا… اور خود ان کی زباں جل کر سیاہ فام ہوئی‘‘۔

یہ نظم جس میں اپنے عہد کے ایک جانے مانے ہوئے انقلابی رہنما کے جذبوں کو زبان دی گئی ہے۔ آج کے پڑھنے والوں کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ منقلب ہوچکا ہے اور ہماری نئی نسل کے بیشتر نوجوان سماج کو بدلنے کے بجائے ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے تمام حدوں سے گزر جانے کی خواہشوں میں رنگے گئے ہیں۔ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد کی نسل کے اس فرق کے بارے میں قرۃ العین حیدر کا افسانہ ’چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘‘ اب تک حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔

گزشتہ صدیوں کی سیاست نے انسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کو پیامی نے بہت شدت سے محسوس کیا اور اسے شاعرانہ رنگ میں باندھا۔ زمین کا جغرافیہ نو آبادیاتی نظام کے ہاتھوں جس طرح تہس نہس ہوا، اسے پیامی نے یوں بیان کیا۔

’’یہ کن ساحروں نے زمین پر نشانات کھینچے… نشانات بہتی ہوئی خون کی ندیاںبن گئے… نشانات آتش فشاں بن گئے ہیں‘‘۔

نئے نو آبادیاتی نظام کے تحفظ کے لیے ملکوں کو جس طرح تقسیم کیا گیا، ان کے درمیان جس طور سرحدیں کھینچی گئیں انھیں پیامی نے کس تیکھے لہجے میں ’’خون کی ندیاں‘‘ اور ’’آتش فشاں‘‘ لکھا ہے۔ پیامی کو اپنے آدرش وادی ہونے پر کس قدر ایمان تھا، اس کا اندازہ ’’مجرم‘‘ کی ابتدائی سطروں سے لگایا جاسکتا ہے جب انھوں نے کہا:

’’تم مرے پائوں میں زنجیر پہنا سکتے ہو… تم مرے فکر کی پرواز کہاں روکو گے۔‘‘ ان کی اسی نظم کا ایک اور بند ہے۔

’’ہتھکڑی، بیڑیاں، زنداں کی سلاخیں کیا ہیں… میرے انفاس کی گرمی سے پگھل جائیں گی… رکھ سکو گے نہ کبھی روحِ بہاراں کو اسیر… فصلِ گل آنے تو دو تیلیاں جل جائیں گی‘‘

اپنی معاشی زندگی انھوں نے ابتدائی طور پر اردو اور پھر انگریزی صحافت سے وابستہ کی۔ برصغیر کی آزای کے یہ وہ دن تھے جب انگریزی صحافت سے جڑنے والوں کی بہت توقیر تھی۔ ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ قلم کے سچے ہوں گے اور آزادی افکار و اظہار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اختر پیامی نے یہ روش اختیار کی۔ ان کے ہم عصر اور پاکستانی صحافت کے مشہور وقایع نگار مرحوم ضمیر نیازی نے اپنے آخری دنوں میں پیامی صاحب کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کے دور کا احاطہ ان الفاظ میں کیا تھا کہ ’’اس عہد میں بیرونی سامراج سے آزادی کی قومی جدوجہد بھی ابھار پر تھی اور پچھلی صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی تو خصوصاً اس کے عروج کا عہد تھا۔ چنانچہ شاعری اور ادب میں قومی اور ترقی پسند موجیں آپس میں مدغم ہوکر ایک دھارا بن گئی تھیں۔‘‘

یہ وہ دور تھا جب پیامی پٹنہ یونیورسٹی میں معاشیات پڑھنے کے ساتھ ہی طلبا کی سیاست سے متعلق ہوچکے تھے۔ ترقی پسند روش سے انھوں نے اپنا رشتہ جوڑا، کمیونسٹ ہوئے اور نوجوان انقلابی شاعر کے طور پر ابھر کے سامنے آئے اور پھر سیاست کے پیچ و خم پر دیانت داری سے لکھتے رہے۔

راج کمار گوتم اپنے من کی بے کلی سے گھبرا کر ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے یشو دھرا اور راہل کے چہروں کو نگاہوں سے چوم کر ایک ایسے سفر پر نکل گیا تھا جس کا انت گیا میں نروان کی روشنی میں نہا کر ہوا۔ گیا کی خاک سے اٹھنے والے پیامی کو زندگی نے جب ترک اور تیاگ کے امتحان میں ڈالا تو وہ شاعری کی پیشانی چوم کر اپنے رشتوں کی انگلی تھام کر صحافت کے خارزار میں نکل گئے۔ یہ خار زار کچھ لوگوں کے لیے گلزار ثابت ہوا لیکن صحافت ان کے لیے تجارت نہیں، عبادت تھی۔ انگریزی صحافت سے وابستگی نے انھیں مشرقی پاکستان کے اہم ترین سیاست دانوں کے بہت قریب رکھا۔

شیخ مجیب الرحمان کا اور ان کا وہ دوستانہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے کو ’مجیب‘ اور ’اختر‘ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہ وہاں بلندیوں تک پہنچ سکتے تھے لیکن انھوں نے رختِ سفر باندھا اور پاکستان آگئے جہاں ان کی زندگی روزنامہ ’مارننگ نیوز‘ اور پھر ’ڈان‘ میں گزری۔ یہاں بھی ان کے لیے مناصب و مراتب کا حصول، وزارت و سفارت تک پہنچنے کے معاملات مشکل تو نہ تھے لیکن وہ خود کو فقیر گوشہ گیر کہتے تھے اور آخر تک انھوں نے اپنی یہ روش ترک نہ کی۔

وہ فیض کے اس مصرعے کی تصویر تھے کہ ’اس دل میں بہت داغ ہیں بہ جز داغِ ندامت‘۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر سکندر مہدی، ڈاکٹر آرزو مہدی، یاور، انور بیٹیاں صفیہ اور یاسمین سب ہی نے اپنی محنت کا ثمر پایا لیکن اختر بھائی اور ان کی بے مثال بیگم کے سائے میں ان کے بچوں نے کبھی آسائش کی زندگی نہیں گزاری۔ ان سے میرا گہرا ذاتی اور خاندانی تعلق تھا لیکن اب اس کا ذکر کیا کرنا۔ بس اتنا ہے کہ ذاتی دوستیوں کے حوالے سے میری مفلسی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔