انتخابات میں شریک سابق وزرائے خارجہ

تنویر قیصر شاہد  منگل 16 اپريل 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

میری اُن سے اوّلین ملاقات لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہوسٹل میں ہوئی تھی۔ ایک روز آج کے مشہور مزاح  نگار اور معروف ڈرامہ نویس ڈاکٹر یونس بٹ صاحب سے ملنے اُن کے ہوسٹل گیا تو اُن کے کمرے میں ایک نوجوان شخص کو پایا۔ اُس کے چہرے پر  ہلکی ہلکی ڈاڑھی تھی اور لبوں پر نمی نمی سی مسکراہٹ۔ وہ ڈاکٹر یونس بٹ صاحب، جو اُن دنوں مزاحیہ خاکہ نگاری اور انشائیہ نویسی کے میدان میں شہرت و مقبولیت کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے، کے روم میٹ تھے۔

گفتگو شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ صاحب، جو غالباً میو اسپتال میں ہائوس جاب کر رہے تھے، طنزیہ جملے پھینکنے میں بھی خاصی دسترس رکھتے ہیں۔ کئی ہفتوں بعد پھر اُسی کمرے میں ایک نہایت صحت مند بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر یونس بٹ نے بتایا کہ بزرگ شخص اُن کے روم میٹ کے والدِ گرامی ہیں۔ اُن بزرگ کا اِسم گرامی تھا مولانا معین الدین لکھوی اور اُن کے صاحبزادے کا نام تھا ڈاکٹر عظیم الدین زاہد جو آج پنجاب کے مشہور شہر قصور کی سیاست کا ایک معروف اور جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔ یہی ڈاکٹر عظیم صاحب گیارہ مئی کے انتخابات کے حوالے سے حلقہ 140 میں پاکستان کے دو سابق وزرائے خارجہ (سردار آصف احمد  علی اور خورشید محمود قصوری) کو انتخابی دعوتِ مبارزت دے رہے ہیں۔

ڈاکٹر عظیم الدین زاہد صاحب جمعیتِ اہلِ حدیث کے ممتاز بزرگ رہنما حضرت مولانا معین الدین لکھوی کے فرزند ہونے کے ناتے کسی کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے معروف اہلِ حدیث عالمِ دین، مورخ اور خاکہ نگار مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب کے لکھے لکھوی علمائے دین کے خاکے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عظیم صاحب ایک بلند علمی اور روحانی خاندان کے سپوت ہیں۔  علامہ و مصنف اسحاق بھٹی صاحب سابق وزیر خارجہ جناب خورشید محمود قصوری کے خاندان پر بھی نہایت معلومات افزاء کتاب لکھ چکے ہیں۔

پاکستان کے دو سابق وزرائے خارجہ کے مقابل کھڑے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کے دادا شیخ الحدیث مولانا محمد علی مدنی لکھوی علیہ رحمہ 36 سال مدینہ پاک میں دینی خدمات انجام دیتے رہے۔ قصوری سیاست اور اب عام انتخابات کے حوالے سے شہرت یافتہ ڈاکٹر عظیم صاحب کے والدِ گرامی مولانا معین الدین لکھوی 93 سال کی عمر میں وفات پا گئے تو ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ نے خصوصی طور پر خبر شایع کرتے ہوئے لکھا کہ معین الدین لکھوی صاحب مرحوم کے جنازے میں سابق ’’لشکرِ طیبہ‘‘ اور حالیہ ’’جماعت الدعوہ‘‘ کے رہنما پروفیسر حافظ محمد سعید نے خصوصی شرکت کی۔

ضلع قصور کے ممتاز اور موثر آرائیں خاندان سے تعلق رکھنے والے سردار آصف احمد علی  وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں اور گیارہ مئی کے انتخابات میں حصہ لے کر جیتنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ سردار آصف احمد علی، جو اعلیٰ درجے کے مصور اور ماہرِ اقتصادیات بھی ہیں، کا خاندان مسلم لیگی رہا ہے۔ اِس خاندان نے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر پاکستان مخالف یونینسٹوں کے مقابلے میں کئی سیاسی معرکے کامیابی سے سر کیے۔ اُن کے والد سردار احمد علی اور انکل سردار محمد حسین بھی پارلیمنٹ کے رکن رہے ہیں۔ جناب آصف احمد علی محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی معتمد رہے اور جناب نواز شریف کے بھی مقرب۔

اِسی بنیاد پر وہ کبھی نواز شریف حکومت میں وفاقی وزیر رہے تو کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے فرائض انجام دیے۔ وزیرِ خارجہ ہونے کی حیثیت سے وہ متفقہ طور پر ’’او آئی سی‘‘ کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔  انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا بھی مقابلہ کیا اور جنرل پرویز مشرف کے غاصبانہ قبضے کو بھی دل سے تسلیم نہ کیا۔ نواز شریف سے اختلاف ہوئے تو وزارت سے مستعفی ہو گئے اور کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہی تو اصولی طور پر اسمبلی کی رکنیت ہی چھوڑ دی۔ وہ پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں اور انتخابی میدان میں خورشید محمود قصوری کو بھی شکست فاش سے دو چار کر چکے ہیں۔ 73 سالہ سردار آصف احمد علی مسلّمہ مصور بھی ہیں۔

سردار آصف صاحب گزشتہ سے پیوستہ برس ’’پاکستان تحریکِ انصاف‘‘ میں  شامل ہو گئے تھے لیکن پھر جلد ہی اِس سے علیحدگی بھی اختیار کر لی، جب یہ دیکھا کہ جناب عمران خان کی محبتوں کا دریا زیادہ روانی کے ساتھ خورشید محمود قصوری کی طرف بہنے لگا ہے۔ دریائے ستلج کے اِس پار بہنے والی سیاسی ہوائوں کے شناسا سردار آصف پاکستان کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کو آزما چکے ہیں۔ اب وہ آزاد پنچھی کی طرح انتخابی میدان میں ہیں۔ این اے 140 میں اُن کے مدِ مقابل مسلم لیگ قاف کے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد بھی ہیں اور پی ٹی آئی کے خورشید محمود قصوری بھی اور مسلم لیگ نون کے ملک رشید بھی۔

نوجوان ڈاکٹر عظیم صاحب دل کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے سیاست کے امراض کا علاج کرنے سامنے آئے ہیں۔ وہ دراصل اپنے والدِ گرامی مولانا معین الدین لکھوی مرحوم کی سیاسی گدی سنبھالنے کے آرزو مند ہیں، جنھیں اہلِ حدیثوں کا ووٹ ہمیشہ ملتا رہا ہے اور اب ڈاکٹر عظیم صاحب اِسی ووٹ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ خورشید قصوری، سردار آصف احمد علی اور ملک رشید کے مقابلے میں نو آموز تو کہے جا سکتے ہیں لیکن اُن کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

اُنہوں نے گزشتہ سال ایک ضمنی انتخاب میں حصہ لیا تو صرف 89 ووٹوں سے ہارے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر میاں نواز شریف عین وقت پر ڈاکٹر صاحب کو ٹکٹ دینے سے انکار نہ کرتے تو وہ یقیناً رکن قومی اسمبلی منتخب ہو سکتے تھے۔وہ شکوہ کرتے سنائی دیتے ہیں کہ جس نواز شریف کے ساتھ وہ اور اُن کے والد صاحب ہر خوشی غمی اور ہر دکھ سکھ میں ساتھ نبھاتے رہے، انھی میاں صاحب نے اُنہیں ضمنی انتخابات میں ٹکٹ نہ دے کر وفائوں کا جواب وفائوں سے نہ دیا۔ اِس کے باوجود وہ پورے قد کے ساتھ دو سابق وزرائے خارجہ اور ایک نون لیگی امیدوار کے مقابل کھڑے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں وزیرِ خارجہ رہنے والے میاں خورشید محمود قصوری بھی این اے 140 میں تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ اُن کے دادا معروف عالمِ دین اور والد محمود علی قصوری مشہور قانون دان رہے ہیں۔ سردار آصف احمد علی اور خورشید محمود قصوری کئی اعتبار سے مشترکہ خصوصیات کے حامل ہیں۔ دونوں سابق وزرائے خارجہ ہیں۔ دونوںہم عمر ہیں۔ دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ دونوں کے والد سیاسی میدان کے نامور اور کامیاب کھلاڑی رہے ہیں۔ دونوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا بھاری پتھر چوم کر چھوڑ چکے ہیں۔ سابق وزیرِ خارجہ خورشید قصوری صاحب باقاعدہ پاکستان کی فارن سروس سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔

2002ء کے انتخابات میں خورشید قصوری حلقہ این اے 142 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور 2008ء میں این اے 140 سے سردار آصف احمد علی سے شکست کھا گئے تھے۔ کہا جاتا ہے  دولت کے بَل پر وہ گیارہ مئی کا انتخاب جیتنا چاہتے ہیں کہ انتخابات میں پیسے کے زور پر بھی کامیابیاں حاصل کی جاتی رہی ہیں۔انتخابات میں پیسے کی طاقت کے اثر سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ خورشید محمود قصوری صاحب نے اسرائیلی وزیرِ خارجہ سیلون شلوم سے ترکی میں ملاقاتیں کی ہیں تو اُن کا کردار خاصا متنازعہ بن گیا۔ اگرچہ اِس خبر کو سرکاری سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا لیکن پاکستان کی مذہبی جماعتوں، خصوصاً ایم ایم اے، نے اِس پر بہت شور مچایا تھا۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیرِ خارجہ نے یہ تو کہا تھا کہ عالمِ اسلام سے سفارتی تعلقات استوار ہونے چاہئیں لیکن انھوں نے بھی مذکورہ ملاقات کی تصدیق یا تائید نہیں کی تھی۔ قصوری سیاست کے شناسائوں کا خیال ہے کہ خورشید قصوری صاحب کی جیت کے امکانات خاصے مخدوش اور مشکوک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔