لوگ بدلتے نہیں بے نقاب ہوتے ہیں…

ابن مستقیم  منگل 16 اپريل 2013

وقت کی انتہائی تیز رفتاری اور خوف ناک حد تک بے پروا کردینے والی مصروفیات میں ہمیں ذرا کم ہی وقت ملتا ہے کہ ہم سر اٹھا کر دیکھ سکیں کہ زندگی کس رنگ ڈھنگ میں ڈھل رہی ہے اور اس کی برق رفتاری اور چال ڈھال آخر کیا ہو چکی ہے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ’’وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا‘‘ یا ’’کام بہت ہے وقت نہیں ملتا‘‘ اگر کوئی سوچنے کی عذاب ناک عادت کا ہلکا سا بھی شکار ہوا تو اس کا لازماً یہ کہنا ہو گا زندگی، وقت، زمانہ اور لوگ کچھ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔۔۔

خاص طور پر لوگوں کے بدلنے کا نوحہ بھی اس کی زبان پر سب سے پہلے ہو گا۔۔۔ کہ نفسانفسی کا دور ہے، سب کو اپنی پڑی ہے، کوئی کسی کا نہیں آج کل کے دور میں! اس کے ساتھ یہ کہ لوگوں کی زندگیوں کا مختصر ہونا بھی ضرور سنا جائے گا۔۔۔ ایک تو تیز رفتار وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب شعور سنبھالا اور بچپن بھی ختم ہوا پھر جوانی نے بھی ادھیڑ عمری کے رستے سے گزر کر بڑھاپے کی دہلیز پر لا پھینکا۔۔۔ اور وقت تو ہمیشہ سے رہا ہی اتنا ظالم ہے لیکن انسانوں کے مظالم دیکھ کر اس نے بھی سخت گیری اپنا لی ہے۔۔۔!

بادی النظر میں یہ کہا جاتا ہے کہ مشینی دور نے ہمارے احساسات اور جذبات کا خون کر دیا ہے۔۔۔ فطری انسانی جذبات جو مشین کو جاندار اور حیوان کو انسان اور انسانیت سے ممیز کرتے ہیں، آج کل ناپید ہو چلے ہیں۔۔۔ انسان لوگوں سے ٹوٹ کر مشینوں سے جڑ گیا ہے اور مشینیں بھی ایسی کہ جہاں فقط اس کی انگلیوں کے پوروں کی محتاجی ہے جس کے بعد اس کے من پسند نتائج سامنے ہوتے ہیں اور یہ مشین اس کے بدلے میں ہم سے کچھ تقاضا بھی تو نہیں کرتیں۔۔۔ بس ان کا کام ہے تو حکم بجا لانا۔ تقریباً یہ ہی چیز ہم انسانوں کے مابین بھی نہایت بد ترین طریقے سے رائج ہو چکی ہے۔۔۔

مشینوں سے کام لینے کی خود غرضی ہم نے جیتے جاگتے اور احساس و جذبات رکھنے والے انسانوں سے برتنی شروع کر دی ہے وہ بھی ڈسپوزایبل دور میں جہاں چیز کو ایک ہی بار استعمال کر کے کوڑے دان کی نذر کر دیا جاتا ہے ورنہ ٹشو پیپر سے پہلے رومال کے دور میں چیزوں کو دوبارہ استعمال کی غرض سے سنبھال کے تو کم سے کم رکھ لیا جاتا تھا۔۔۔ آج ہم مصنوعی مسکراہٹوں کو سجائے منافقت کے چوغے اوڑھے سرتاپا بناوٹ کے شاہکار نظر آتے ہیں‘ جن میں بے ساختگی‘ خلوص اور بے لوث جذبات کا چلن دور دور تک موجود نہیں۔۔۔ آج کسی سے ہمارا تعلق اور رشتہ فقط خود غرضی کے گرد گھومتا ہے۔۔۔ جب تک ہمارے کام ہیں۔

اس سے تعلق ’’نبھانا‘‘ تو کوئی ہم سے سیکھے، کس طرح خوشامد اور چاپلوسی کے غلیظ ڈھونگ رچا کر ہم مخاطب اور سامنے والے کو شیشے میں اتارتے ہیں اور جہاں کام ختم، بس پھر وہاں تو کون اور میں کون۔۔۔! غلطی سے اگر اسے ہماری ضرورت پڑ بھی گئی تو ’’گولی‘‘ دینا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔۔ اس پر بھی بس نہیں ہمارا شاطر دماغ تعلقات کے اس ’’لین دین‘‘ کو اس طرح توازن میں لے کر چل رہا ہوتا ہے کہ مجال ہے کہیں بھی ہم گھاٹے میں رہ جائیں۔۔۔ سامنے والے کے کام بھی صرف اس وقت تک بجا لائیں گے جب تک وہ ہماری ضرورت ہے ۔۔۔ اس کے بعد کب کون کسی کا ہوتا ہے۔۔۔ تم روٹھے ہم چھوٹے۔۔۔!

مطلب پرستی، خود غرضی، بناوٹ اور منافقت کو ہم خون کے رشتوں سے زبان کے ناتوں تک اور راہِ زندگی میں ملنے والے لوگوں سے معاشرے کے ہر فرد پر منطبق کر کے دیکھ سکتے ہیں، ہم صرف مفاد پرستی کے خوگر ہیں۔۔۔ اب تو ہم اپنی مسکراہٹوں کو بھی بے مقصد نہیں رکھنا چاہتے۔۔۔ ہم نے جیتے جاگتے خاندانی رشتوں کو بھی بدترین کاروبار بنا دیا ہے جس میں خسارے کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔۔۔ ایسے بھیانک حالات و واقعات میں حساس لوگوں کا زندہ رہنا یا متوازن زندگی گزارنا کسی بڑے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔۔۔ ذہنی کرب اور دباؤ کے باعث پیدا ہونے والے ذہنی و جسمانی عوارض ان کی معمول کی زندگی میں اتھل پتھل کر دیتے ہیں۔

لکھنے پڑھنے والوں کی اکثریت بھی اس ہی عذاب سے دوچار ہوتی ہے۔۔۔ بعض دیگر تخلیقی شعبوں میں کام کرنے والے بھی اس آگ میں جھلسے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔ اور معاشرے سے لگے زخموں کا خراج دے رہے ہوتے ہیں۔۔۔ ایک طرف صاحبین کے مشورے ہوتے ہیں کہ ’’کیوں اتنے ناامید اور مایوس ہوتے ہو‘‘ اور جب وہ اس پر عمل کر کے پھر آس لگا لیتے ہیں، کچھ اچھے کی توقع اور امید رکھ لیتے ہیں۔۔۔ لیکن پھر ان کی امیدوں کا ٹوٹنا تو پھر اس سے بھی زیادہ وحشت ناک ہوتا ہے۔۔۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ ہم تنہا اور مایوس ہی اچھے۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حساس افراد اپنی فطرت اور خلوص سے مجبور ہو کر رشتوں ناتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جواب میں ایسا سلوک ہوتا ہے گویا ہم کسی منافقت اور خود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہوں، یہ ایک علیحدہ عذاب ہوتا ہے۔۔۔ دوسرا ہمارے جس عمل نے ملنساری کا خون کیا اور خلوص کا جنازہ نکالا وہ یہ شکایت ہے کہ لوگ بدل جاتے ہیں۔۔۔ ذرا سی اچھی ملازمت کیا ملی، کاروبار کیا اچھا ہوا، ترقی کیا ہو گئی، عہدہ کیا مل گیا، اچھا گھر کیا لے لیا۔۔۔ بچے کیا بڑے ہو گئے۔۔۔ اس نے تو ایسا کنارہ کیا ایسا نظریں پھیر لیں، ایسا رویہ بدل لیا گویا وہ نہیں کوئی اور ہو۔۔۔

جناب علی بن ابی طالب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے جو ہماری اس منافقت پر صادق آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’عہدہ اور دولت ملنے پر لوگ بدلتے نہیں، بے نقاب ہوتے ہیں۔۔۔!‘‘ ظاہر ہے اصل ہمارا امتحان تو اس ہی وقت ہوتا ہے کہ جب ہمارے پاس عہدہ، دولت اور مقام و مرتبہ ہو اور ہم انسان بن کر دکھائیں۔۔۔ جیسے مہنگائی تلے دبے لوگ اکثر کہتے ہیں ’’بھئی ہم اپنی بچی کی شادی سادگی سے کر رہے ہیں۔۔۔!‘‘ یہ کیا خاک سادگی ہوئی؟ تمہاری تو جیب میں پیسے ہی نہیں ہیں تو پھر کیا شان  و شوکت سے کرنی تھی شادی۔۔۔ ظاہر ہے تمہارے پاس تو اور کوئی راستہ ہی نہیں لہٰذا ’’سادگی‘‘ کے ذریعے ہی سفید پوشی کا بھرم رکھا جا رہا ہوتا ہے جس طرح ہمارے رب کو بھی جوانی کے نیک اعمال خاصے پسند ہیں۔

کیوں کہ نفسانی خواہشات اور شیطان کا غلبہ تو اصل جوانی میں ہی ہوتا ہے اصل تو اس ہی دور میں پتہ چلتا ہے کہ نوجوان کس طرح ان پر قابو پا کر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرتا ہے۔۔۔ بڑھاپے میں تو راتوں کو نیند ویسے ہی نہیں آ رہی ہوتی ایسے میں اگر تہجد پڑھی جائے تو وہ جوانی کی پکی نیند کو چھوڑ کر اٹھنے کے جذبے کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔۔۔ بس یہ ہی معاملہ ہے لوگوں کا بھی، کہ یہ اختیار اور اقتدار ملنے پر لوگوں کی اوقات سامنے آ جاتی ہے کہ ان کا باطن اور اصلیت کتنی بھیانک ہے۔ کام اور غرض ختم ہونے کے بعد نظروں کا پھِرنا اور لولی پاپ دینا بھی اس ہی حقیقت کا مظہر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔