شاندار لوگوں کا خوبصورت شہر

زاہدہ حنا  بدھ 2 مئ 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

لمز کے گرمانی سینٹر کے بلاوے پر میں اس سے پہلے بھی لاہور جاچکی ہوں ۔ پچھلی مرتبہ میزبانی ہماری معروف شاعرہ یاسمین حمید نے کی تھی ۔ اس مرتبہ حلقہ دانش کی طرف سے پروفیسر معین الدین نظامی کا دعوت نامہ موصول ہوا ۔ اس سے کئی ہفتوں پہلے ڈین آف سوشل سائنسز ڈاکٹر کامران اژدر علی یہ کہہ چکے تھے کہ آپ کو ہمارے حلقہ دانش میں آنا ہے اور ہمارے طلبہ سے باتیں کرنی ہیں ۔

اس ملاقات کے سہولت کار ڈاکٹر آصف فرخی تھے جو ادب اور دانشوری کی مختلف جہتیں رکھتے ہیں ۔ ڈاکٹر آصف یوں تو بہت سنجیدہ  اور بعض حالات میں رنجیدہ بھی نظر آتے ہیں لیکن مجھ سے سوا دو گھنٹے کی گفتگو میں انھوں نے شگفتہ بیانی کے دلچسپ مظاہرے کیے۔ ڈاکٹر کامران اژدر علی بائیں بازو کے ایک اہم دانشور ہیں ۔ ان کی دانشوری اور تاریخ دانی کا لوگوں کو اندازہ اس وقت ہوگا جب بائیں بازو کے بارے میں ان کی تحقیق پر مشتمل کتاب’ سرخ سلام ‘ سامنے آئے گی۔

لاہور جانے کا بہانہ حلقہ دانش کی یہ محفل بنی لیکن جانے سے پہلے ہی پاکستان میں تھیٹر کی دنیا کی ایک بہت اہم شخصیت مدیحہ گوہر ہم سے رخصت ہوچکی تھیں ۔ مدیحہ جیسے انسان ہر روز نہیں پیدا ہوتے۔ دل گرفتگی کے عالم میں لاہور پہنچی تو پنجابی کے ادیب زاہد حسن اورآصف فرخی کے ساتھ مدیحہ کا گھر ڈھونڈتے ہوئے پہنچے ۔ شاہد ندیم انھیں آخری بارگھر لانے کے لیے سرد خانے گئے ہوئے تھے ۔ ابھی چند گھنٹوں میں ان کے گھر کا وسیع سبزہ زار ‘ کمرے اور برآمدے ان کے دوستوں اور غمگساروں سے بھر جانے والا تھا لیکن جب ہم پہنچے ہیں تو اداسی ان کے گھرکی دیواروں پر بال کھولے سورہی تھی ۔

لاہور کا یہ سفر بھی عجیب تھا ۔ سوگ کا موسم تھا جو لالہ رخ، عاصمہ جہانگیر اور مدیحہ گوہر تک پھیلا ہوا تھا۔ عاصمہ کی بہن اور شریکِ سفر حنا جیلانی سے ملنے میں ان کے گھر گئی ۔ عاصمہ جیسی بہن سے اچانک جدا ہو جانے پر حنا نے کیسی قیامت جھیلی ہوگی اسے سمجھنا مشکل ہے۔ میں ان کے ساتھ بیٹھی رہی اور ہم ان لمحوں کو یاد کرتے رہے جن میں عاصمہ بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ وہ مشکل دن جو اپنی کٹھنائیوں کے باوجود جشن کے دن تھے۔ جنگ جاری رہے تو وہ جشن کا ایک عالم ہوتا ہے ۔ میں حنا اور عاصمہ کی والدہ کو یاد کرتی رہی ۔

ان کے نانا مولانا صلاح الدین احمد کا ادبی عشق جو ’ اردو دنیا ‘ کے نام سے شایع ہوتا تھا اور وہ ادبی مجلہ صرف ایک روپے میں ہمیں دستیاب ہوتا تھا۔ حنا نے دل گرفتگی سے بتایا کہ ’’ اردو دنیا ‘‘ کا مکمل ریکارڈ کسی ’ادب دوست‘ کے سپردکیا گیا تھا کہ وہ اسے مرتب کریں گے۔ان کرم فرمانے وہ ریکارڈ غتربود کردیا۔ اس سے بڑی ادب دوستی اورکیا ہوسکتی تھی ۔کچھ دیرکے لیے ہم افسردہ ہوئے لیکن پھر خیال آیاکہ جب عاصمہ جیسے دُر ِبے بہا کو خاک کے سپرد کردیا تو ’اردو دنیا‘کے ریکارڈ کوکیا روئیں جسے آخری دورمیںمولانا صلاح الدین احمد اپنی زمینیںبیچ کر جاری رکھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ فرنگیوں کے کسی کتب خانے سے وہ ریکارڈ مہیا ہوجائے گا۔

حنا سے پُر سے کے بعد میں ’ریڈنگز‘ گئی جو کتابوں کا خزانہ ہے اور جہاں نئی نسل کتابوں پر جھکی ہوئی اورکتابیں خریدتی ہوئی نظرآتی ہے ۔ وہاںکی کافی شاپ میں حسنین جمال سے ملاقات ہوگئی۔ حسنین سے عاصمہ کی باتیں ہونے لگیں ۔ عاصمہ کا نام تولوگوں نے بہت سنا ہے لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ دھان پان سی عاصمہ تھی جس کے والد ملک غلام جیلانی یحیٰی دور میں بنگالیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے خلاف ڈٹ گئے تھے ‘ گرفتار ہوئے اور جیل بھیج دیے گئے۔ نوعمرعاصمہ نے اپنے والد کی گرفتاری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

اس زمانے میں یہ مقدمہ عاصمہ جیلانی کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ بھلا کس کی مجال تھی کہ اس مقدمے کا فیصلہ سناتا، بات جب زیادہ کھنچی تو عاصمہ نے مارشل لاء کی آئینی حیثیت کو بھی چیلنج کردیا۔ ان دونوں مقدموںکا فیصلہ بہت تاخیر سے ہوا۔ ملک غلام جیلانی دیر سے رہا ہوئے لیکن عاصمہ کی اصل جیت تویہ تھی کہ یہ فیصلہ سنایا گیاکہ فوج نے حکومت پر جو قبضہ کیا تھا‘ مارشل لاء لگایا تھا۔ وہ بھی غیرآئینی ٹہرا۔اسی فیصلے کے تحت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر غاصب ٹہرا، بنیادی انسانی حقوق بحال ہوئے اور مارشل لاء ریگولیشن کے تحت جیلوںمیں بندلوگوں کو رہائی ملی۔

حسنین دل سوزی سے عاصمہ کی باتیں کرتے رہے۔ اسی دوران میری نواسی پرما عباس کا ذکر نکل آیا جو دبئی میں رہتی ہے اور جس نے چند مہینوں پہلے اپنے بال کینسر کے مریض بچوں کے لیے عطیہ کیے۔ حسنین نے اس کے بارے میں ’ہم سب‘ کی ویب سائیٹ پر ایک کالم بھی لکھا تھا۔ حسنین مجھ سے کہنے لگے میں نے پرما سے پوچھا کہ تمہیں اپنے حسین لمبے بال عطیہ کرنے کاخیال کیسے آیا تو پرما نے کہا کہ میں ان بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن میںابھی پڑھ رہی ہوں اورکہیںکام نہیںکررہی۔ امی اور بابا سے روپے لے کر عطیہ کرنا توکوئی خاص بات نہیں تھی۔

میں سوچتی رہی، پھرمجھے خیال آیاکہ بال تو میرے اپنے ہیں میں انھیں عطیہ کردوںگی تویہ کچھ دنوں بعد پھرآ جائیں گے اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا۔ یہ باتیں کرتے ہوئے حسنین کی آنکھیں نم تھیں۔ میں چند ہفتوں پہلے دبئی سے واپس آئی ہوں،اور اس دوران میں نے پرما سے باتیںکیں، اس کے اندر دوسروںکے لیے کچھ کر گزرنے کا جو چراغ جلتا ہے ‘ وہ سترہ برس کی بچی کے چہرے پراُجالاکرتا ہے۔

میری بیٹی فینانہ فرنام اور داماد کامران عباس نے اس کے وجود میںجس سماجی شعور کا بیج بودیا ہے‘ اُمید تو یہی ہے کہ آیندہ یہ بیج ایک تناور پیڑ بنے گا اور وہ دوسروں کے لیے کچھ کرگزرے گی۔ عاصمہ جیسی شخصیت اس کے لیے یقینا ایک مثال ثابت ہوگی۔ ’ریڈنگز‘میں اس روز ہم نے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں بہت سی باتیںکہیں اور کڑھتے رہے کہ ہمارے مقتدرین کو صورت احوال کی سنگینی کا بروقت کیوں اندازہ نہیں ہوتا۔

روبینہ سہگل اور مدیحہ بچپن کی دوست تھیں۔ میں ’ریڈ نگز‘ سے اٹھ کر روبینہ اور فرزانہ کی طرف چلی گئی ۔ روبینہ سے میری بیس برس پرانی دوستی ہے ۔اس دوستی میں ادب اور مزاحمتی رویہ دو بنیادی عنصر ہیں ۔ وہ دل سوختہ تھیں۔ کہنے لگیں کہ یہ1960ء کی دہائی تھی جب مدیحہ اور میں کانونٹ آف جیسزز اینڈ میری میںساتھ پڑھتے تھے۔ ہم دونوں کوڈرامے کرنے کا شوق تھا اور وہیں ہم نے ایک مزاحیہ ڈراما’مردوںکے بغیر کی دنیا‘ کیا تھا۔ وہاں سے نکلنے کنیرڈ کالج پہنچے جہاں ہم نے روسی شہزادی ’انستاسیا‘ کے بارے میں ایک کھیل پیش کیا۔ ہمیں اسٹیج پر کام کرنے کی تربیت فریدہ شیر اورہماری ٹیچر کوثر شیخ نے دی۔ پیرین کوپر ہماری رہنما تھیں۔ ان ہی ٹیچروں نے ہمیں سیاسی اور سماجی شعور سے روشناس کرایا۔

روبینہ کا کہنا تھا کہ امریکا اورلندن سے واپس آکر وہ دونوںپرانی دوست ایک بار پھر اکھٹے ہوگئیں۔ اس مرتبہ اس یکجائی کا سبب جنرل ضیاء الحق کا حکومت پر غاصبانہ قبضہ اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ سفاکانہ سلوک تھا۔ روبینہ ان دنوںکو یاد کرتی رہیں جب ستمبر 1983میں مارشل لاء رژیم کے خلاف اورایم آرڈی موومنٹ سے یک جہتی کے اظہار کی خاطر ان لوگوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس جلوس پر پولیس ٹوٹ پڑی اور حناجیلانی، عاصمہ جہانگیر، روبینہ سہگل، مدیحہ گوہر اور فریال گوہر کو گرفتار کر کے پہلے سول لائنز تھانہ لے گئی جہاں سے یہ سب کوٹ لکھپت جیل منقتل کردی گئیں۔ روبینہ کہنے لگیں کہ ہم دو ہفتوں تک کوٹ لکھپت میں رہے۔ اس دوران یہ عاصمہ اور مدیحہ تھیں جنہوں نے اپنے لطیفوںاور نقلوںسے ہمیں بہلایا اور کسی کے اندر بھی خوف یا مایوسی کو جنم نہیں لینے دیا۔

یہ اپریل1984کے دن تھے جب جنرل ضیاء نے تمام پاکستانیوں کے نماز روزے کی ذمے داری اپنے سر لے لی تھی، فنون لطیفہ کو اورنگ زیب عالمگیر کی طرح گہرا دفن کرنے کا ٹھیکہ بھی جنرل ضیاء کے پاس تھا۔ اسکولوں اور کالجوں میںڈراما نہیںکھیلا جا سکتا تھا۔ ایسے میں مدیحہ نے ’اجوکا‘کی بنیاد رکھی۔ نہ اسٹیج تھا اورنہ اداکاروں کے لباس کا انتظام ہوا تھا لیکن مدیحہ ڈٹ گئی۔ اس کاکہنا تھا کہ ضرورت ہوئی توہم سڑک پر اپنا کھیل دکھائیں گے۔ ہندوستان میں ’نکٹرتھیٹر‘ کی روایت تھی لیکن ہمارے یہاں کبھی کسی نے اس بارے میں سوچابھی نہ تھا۔ بادل سرکار کے مشہور ڈرامے’جلوس‘ کو پاکستان کی اس وقت کی صورتحال کے مطابق مدیحہ اور شاہد ندیم نے لکھا اور ڈائریکٹ کیا۔

یہ ڈراما خدیجہ گوہر کے لان پر کھیلاگیا۔ روبینہ اس میںایک کردار تھیںاور سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ خدیجہ گوہر کا گھر کنٹونمنٹ میں تھا۔ اس روز کے بعد مدیحہ کے قدم نہیں رکے۔ روبینہ کہتی ہیںکہ میری مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں اس لیے دس برس بعد میںنے تھیٹر کی دنیا سے کنارہ  کشی اختیار کی لیکن ہمیشہ مدیحہ کے ڈرامے دیکھتی رہی اسے اورشاہد ندیم کوداددیتی رہی۔ اب وہ چلی گئی ہے تو میرادل غم سے بوجھل ہے لیکن میں یہ جانتی ہوںکہ عاصمہ ہویا‘مدیحہ دونوں جس راستے پر چلیںوہ مزاحمت کاراستہ تھا‘ یہ دونوں چلی گئی ہیں لیکن ان کی راہ پر چلنے والی نئی نسل آئے گی اوران کے کام کوآگے لے جائے گی۔ ہمارے یہاں لڑائی ابھی لمبی ہے اورہمیں ہمت نہیں ہارنی ۔ روبینہ اپنے مخصوص جوشیلے اندازمیں بولتی رہیں۔

اس رات جب ہماراطیارہ 40ہزار فٹ کی بلندی پر تھا تومیری نگاہ شام کے پہلے تارے پرپڑی، اس کی جگمگاہٹ میںعاصمہ اورمدیحہ کی پُرعزم آنکھوں کی چمک تھی۔ لالہ رخ کی آنکھیں بھی شام کے اس تارے سے جھانک رہی تھیں‘ یہ مزاحمت کرنے والوں کی آنکھیں تھیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔