بارودی سرنگیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 2 مئ 2018

اگر آپ اپنے بچوں پر ہروقت نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں تو میں آپ کو منع کرنے والا کون ہوں،آپ یہ کام جاری رکھیے لیکن اس سے پہلے اتنی تکلیف ضرور گوارا کیجیے کہ امریکی صحافت کے ایک انمول شہ پارے ’’با پ کی بھول‘‘جسے ڈبلیو لونگسٹن لارینڈ نے تحریر کیا، ایک بار اس کا ضرور مطالعہ کرلیجیے۔ یہ ایک ایسا شہ پارہ ہے جو قارئین کے ذہن میں اس طرح گونجتا رہتا ہے کہ وہ اسے باربار پڑھنے اور چھاپنے کا اصرار کرتے ہیں۔ ہم اس کی خلاصہ شدہ صورت ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ سے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں۔

’’سنو میرے بچے! میں تم سے اس وقت مخاطب ہوں جب کہ تم سورہے ہو۔ تم نے ایک ننھا سا ہاتھ اپنے ایک رخسار کے نیچے رکھا ہوا اور تمہارے گھنگریالے بال تمہاری نم آلود پیشانی پر پڑے ہیں میں چپکے سے اکیلا تمہارے گھر میں گھس آیا ہوں ۔ چند منٹ پہلے میں لائبریری میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ میرے دل میں اپنی ذات سے نفرت کی ایک تند سی لہر پیدا ہوئی، میرا گلا رندھ گیا میں اپنے جرم پر شرمندگی کے احساس سے مغلوب ہو کر تمہارے بستر کے پاس چلا آیا ہوں۔

میرے پیارے بچے! یہ ہیں وہ باتیں جو میں سو چ رہا تھا میں تم پر خفا ہوا تم اسکول جانے کے لیے لباس پہن رہے تھے کہ میں نے تمہیں ڈانٹا کہ تم نے اپنے چہرے کو اچھی طرح صاف نہیں کیا تولیے کو یوں ہی ایک مرتبہ منہ پر پھیر کر رکھ دیا، اپنے جوتوں پر اچھی طرح پالش نہیں کی میں نے تمہیں ڈانٹ پلائی تم سے اپنی چند چیزیں فرش پرگر گئیں تو میں نے تمہیں برا بھلا کہا میں نے تم پر ناشتے کے وقت بھی نکتہ چینی کی۔

میں نے کہا کہ تم چائے وغیرہ گرادیتے ہو، روٹی کو چبائے بغیر نگل جاتے ہو، تم میزکے اوپر اپنی کہنیاں رکھ لیتے ہو تم ڈبل روٹی کے اوپر مکھن کی بہت موٹی تہہ چڑھاتے ہو، تم اسکول کے لیے چلے اور میں اپنی گاڑی کے لیے بھاگا تو تم میری طرف مڑے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر لہرایا اور کہا خدا حافظ پاپا! میں نے کڑھ کر جواب میں کہا ’’اپنے کندھے پیچھے کی طرف رکھو‘‘ دوپہر کے بعد نکتہ چینی کا یہ دور پھر نئے سرے سے چلا میں سٹرک پر چلا آرہا تھا چھپ کر کیا دیکھتا ہوں کہ تم اپنے گھٹنوں کے بل گولیاں کھیل رہے ہو تمہاری جرابیں کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں۔ میں تمہیں تمہارے ساتھی لڑکوں کے سامنے اپنے ساتھ آگے آگے لے کر چلا جس سے تمہاری تحقیر ہوئی۔ میں نے تم سے کہا کہ جرابیں بہت مہنگی ہیں اگر تمہیں خود خریدنا پڑیں تو تم ان کی زیادہ پروا کروگے۔ یہ الفاظ ایک باپ کی زبان سے نکلے میرے بیٹے۔

شاید تمہیں یاد ہو اس کے بعد شام کو میں اپنے کتب خانے میں پڑھنے میں مصروف تھا کہ تم جھجکتے ہوئے میرے پاس آئے اور تمہاری نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ تمہارے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ میں نے اخبار کے اوپر سے تمہاری طرف جھانکا تم نے میری نگاہوں سے اس مداخلت پر ناراضگی ٹپکتی دیکھی تو دروازے پر ہی رک گئے میں نے جھنجھلا کرکہا ’’اب کیا چاہتے ہو؟‘‘ تم نے اپنی زبان سے کچھ نہ کہا اور جذبات سے مجبور ہوکر پورے زور سے سیدھے میری طرف بھاگتے ہوئے آئے اور آکر اپنے ننھے ننھے بازو میری گردن میں حمائل کردیے اور مجھے بوسہ دیا۔

اس وقت تم نے مجھے اس جوش محبت سے بھینچا جو قدرت نے تمہارے دل میں پیدا کی ہے اور جسے میرے بے تو جہی بھی کم نہ کرسکی اس کے بعد تم چلے گئے اور سیڑھیوں پر زور زور سے پاؤں پٹختے ہوئے اوپر چڑھ گئے۔ میرے بچے! تمہارے جانے کے بعد میرا اخبار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا اور مجھ پر ایک عجیب احساس ندامت طاری ہوگیا۔ میں عادت سے مجبور ہوکرکیا کرتا رہا ہوں؟ تم ایک ننھے سے بچے ہو میں تمہاری دل جوئی کے بدلے تم پر نکتہ چینی کرتا رہا اور تمہیں ڈانٹتا ڈپٹتا رہا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے تم سے محبت نہیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ میں تمہاری عمر کے مقابلے میں تم سے بہت زیادہ توقعات رکھتا تھا، میں تمہیں تمہاری عمرکے بجائے اپنی عمر کے گز سے ناپ رہا تھا۔

میرے بچے میں اندھیرے میں تمہارے بستر کے پاس آیا ہوں، احساس شرمندگی سے مغلوب ہوکر تم پر جھکا ہوا ہوں، یہ ایک ادنی سا راضی نامہ ہے مجھے معلوم تھا کہ میں یہ باتیں جاگتے میں تم سے کہتا تو تم ان کو سمجھ نہ پاتے لیکن میں کل سے تمہارا صحیح معنوں میں ’’پاپا‘‘ بنوں گا، تمہاری خوشی میری خوشی ہوگی تم بیمار ہوگئے تو درد میرے دل میں ہوگا تم ہنسو گے تومیرا دل بھی کھل اٹھا کرے گا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں ایک جوان آدمی تصور کیا لیکن میرے بچے! اب میں تمہیں بستر پر تھکے ماندے اور سکڑے ہوئے لیٹے دیکھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم تو ابھی بالکل بچے ہو ابھی کل تک تو تم اپنی ماں کی آغو ش میں تھے اور تمہارا سر اس کے کاندھے پر جھکا ہوتا تھا میں نے تم سے حد سے زیادہ توقع رکھی ۔ ناجائز حد تک زیادہ توقع۔‘‘

یاد رکھیں! نکتہ چینی بارودی سر نگوں کا کام کرتی ہے، اس سے انسان رشتوں، تعلقات، شخصیت، قابلیت اور نشوونما میں اس قدر تباہی پھیلتی ہے، جس کا تصور محال ہے یہ ان چیزوں میں تیزاب کے چھڑکاؤ کا کام کرتی ہے، آ پ ساری زندگی کوئی اور بات اپنے پلے میں باندھیں یا نہ باندھیں لیکن آپ کو ساری زندگی یہ بات تو اپنے پلے میں باندھنی ہی چاہیے کہ کبھی کسی پر نکتہ چینی نہ کریں، ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں، کسی کی بے عزتی نہ کریں، کسی کی غلطی پر اسے شرمندہ نہ کریں کیونکہ انسان کو زندہ رہنے کے لیے روٹی سے زیادہ عزت کی ضرورت ہوتی ہے، ہم روٹی کے بغیر تو زندہ رہ سکتے ہیں لیکن عزت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ذہن میں رکھیں کائنا ت کی ہر چیز ’’عزت‘‘ کا مطالبہ کرتی ہے۔ زندگی کی اس سب سے اہم بات کو ہم اکثر غیر اہم سمجھتے ہوئے، اپنے آپ کو غیر اہم کرتے چلے جاتے ہیں، ہماری اکثریت ہمیشہ اسی بھول کا شکار ہوجاتی ہے زندگی ہمیشہ دو اور دوچار نہیں ہوتی بلکہ پانچ بھی ہوتی ہے اکثر غیر روایتی طریقے روایتی طریقوں سے زیادہ موثر اور خو شگوار ثابت ہوتے ہیں۔ ہماری ذمے داریوں میں صرف پیسے کمانا ہی شامل نہیں ہے بلکہ اپنے رشتوں اور تعلقات کی حفاظت کرنا بھی ہماری ذمے داریوں کا حصہ ہے۔ یاد رکھیں! حفاظت صرف روایتی طریقوں سے نہیں بلکہ غیر روایتی طریقوں سے بھی ہوتی ہے رشتے اور تعلقات دیوار پر بیل کی طرح ہمیشہ سیدھے نہیں بڑھتے ہیں۔

آپ چاہیں سیاست دان یا بیوروکریٹ، بزنس مین ہوں یا نوکری پیشہ یا زمیندار ہوں، آپ اپنے رویوں سے رشتوں اور انسان کو جیتتے ہیں اور ہارتے ہیں ان کو جیتنے یاہارنے کا کوئی اور پیمانہ اس کے علاوہ نہیں ہے یہ بات آپ جتنی جلدی سمجھ لیتے ہیں، آپ کے لیے اتنا اچھا ہوتا ہے ورنہ آپ رشتوں اور لوگوں کو ہارتے رہتے ہیں اور آپ کو اپنی ہارکی وجہ آخر تک سمجھ میں نہیں آتی ہے اگر آپ اپنی عزت کروانے کے طلبگار اور خواہش مند ہیں تو پہلے آپ دوسروں کی عزت کریں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔