سیاسی جماعتیں ہمارے اشعار کا سہارا لیکر ہمیں رد کردیتی ہیں، شاعر و ادیب

عمیر علی انجم  بدھ 17 اپريل 2013
مشتاق احمد یوسفی، افتخارعارف۔ فوٹو: فائل

مشتاق احمد یوسفی، افتخارعارف۔ فوٹو: فائل

کراچی: رواں انتخابات بھی زبانی کلامی باتوں کی نذر ہوگئے اس بار بھی کسی قلمکار کو الیکشن مہم کاحصہ نہیں بنایاگیا اورنہ ہی اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں نے کسی قلمکار سے رابطہ کیا۔

رواں انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے اپنے جیالوں، وڈیروں، جاگیرداروں کو ٹکٹوں سے نوازا ہے مگرکسی بھی شاعر،ادیب، دانشور سے رابطہ نہیں کیاگیا اس حوالے سے ملک کے ممتاز قلمکاروں سے نمائندہ ایکسپریس نے گفتگوکی، معروف شاعر امجد اسلام امجدکاکہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی سے قلمکاروں کوردکیاگیاہے جبکہ سیاسی جماعتیں اپنی الیکشن مہم چلانے کے لیے ہمارے اشعارکا ہی سہارا لیتی ہیں۔

معروف ڈرامہ نگار انور مقصود نے کہا کہ قلمکارکسی بھی ملک کی تقدیرلکھتا ہے دنیا بھر میں اسکی بہت اہمیت ہے مگرپاکستان میں اسکو بے کارآدمی سمجھا جاتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دنیاکے مقابل کھڑے نہ ہوسکے، ممتاز شاعر افتخار عارف نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں صرف کرپٹ وڈیروں کو ٹکٹ دیتی ہیں قلمکار کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا اس لیے بھی حق نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا ہمدرد یا جیالا نہیں ہوتا۔

 

انور مقصود، امجد اسلام امجد۔ فوٹو: فائل

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی تقدیربدلنے والوں نے مجھ سے فی الحال کوئی رابطہ نہیں کیا مگرمیں یہ جانتاہوں کہ اگراس ملک کا مستقبل کوئی سنوارسکتا ہے تووہ صرف اس ملک کا قلمکار ہی ہے کیونکہ وہ جوکچھ دیکھتاہے وہ عام آدمی نہیںدیکھتا جو سیاست دان جوش میں آکر اپنی تقریروں میں اس بات کو بار بار دھراتے ہیں کہ ملک کی تقدیر ادیب لکھتاہے وہ سچ کہتاہے مگراس پرعمل بھی کریں توزیادہ بہتر ہوگا زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

ممتازمزاح نگارمشتاق احمدیوسفی نے کہا کہ آج ہم جس دورمیں زندہ ہیں اس کے کچھ تقاضے ہیں اس میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ معاشرے کو بااختیار بنایاجائے اس ملک میں قلمکاروں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں سیاست دانوں کی طرح قلمکاروں کوبھی ایوانوں میں بیٹھنے کاحق دیناچاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔