کتنا بدل گیا ہے انسان

جاوید قاضی  جمعرات 3 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میں جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں، یہ دن مزدوروں کا عالمی دن ہے اور اس حوالے سے میری نظر میرے ملک پر جب پڑتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا بدل گیا ہے پاکستان۔ اداروں کی بربادی نے، طبقات کو نئے سرے سے ترتیب دیا ہے۔

جب ادارے قدراً بہتر کام کرتے تھے تب ضروریات اتنی نہیں بڑھی تھیں جینے کے لیے، کوئی پریوار و پڑوس ہوتا تھا، گلی، کوچوں، محلوں کی خبر رکھتے تھے آنا جانا رہتا تھا، خوشیاں، کھیل کود، بھاگم دوڑ، چھپن چھپائی سوائے اسکول کے، محلے کے بچے آپس میں بھی کیا کرتے تھے۔ بڑے گھل مل کر بیٹھتے تھے۔اب ایسا لگتا ہے جیسے کچھ بھی نہ تھا۔ بہت بدلا ہے پاکستان۔ بہت خود غرض ہوا ہے انسان۔ جیسے اس میں سے وہ اقدار و روایات، رواداری و برداشت روٹھ چلی ہوں۔ محفل کے بیچ اکیلا ہے انسان۔

ہمارے ہندوستان کے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ پوٹھوار کے کسی ٹاٹ اسکول میں پڑھے تھے اور اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام بھی۔ یوں تو میں نے بھی ٹاٹ کے اسکول میں پڑھا ہے (ساتویں کے بعد پیٹارو جانا ہوا)۔ میری ابا، ان کے گہرے دوست غلام رسول جتوئی ( غلام مصطفی جتوئی کے والد) بھی ان زمانوں میں انھی ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھتے تھے۔ نیز یہ کہ اسکول سرکاری، ہسپتال سرکاری، امیر و غریب، یوں کہیئے سب ایک ہی بازار جایا کرتے تھے۔

کہاں تھے تب امیروں اور غریبوں کے اسکول ہسپتالیں اور بازار جدا جدا۔ اتنی بڑی گاڑیاں اور ان کی قطاریں۔ کہاں رکھتے تھے امیر لوگ اتنے سیکیورٹی گارڈ۔ کہاں ہوتی تھیں اتنی ساری چوریاں، ڈاکے، قتل اور عورتوں ، بچییوں کی بے حرمتی۔ کہاں تھا یہ رواج کہ اشتہار سرکاری اور فوٹو صاحب کا۔ نہ اتنے ترجمان تھے نہ اتنے براجمان اور کھڑے ہونے والے درباری۔ نہ صاحبوں کی اتنی جاگیریں تھیں، نہ کارخانے تھے اور نہ ہی پلازہ۔ نہ کنسٹرکشن کمپنیاں، نہ حصے نہ حصص۔ سیاستدان الگ تو کارخانے دار الگ۔ اب خود ہی صاحب ہیں، خود ہی سیاستدان اور خود ہی پارٹی کے سربراہ بھی، تو خود ہی کارخانے دار اور جاگیردار بھی۔ ان کے پلازہ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔

پاکستان اور پاکستان کے اندر بدلتے ہوئے ان اقدار سے خود بدلا ہے غریب انسان بھی۔ ان کے لیے جو کچھ بھی تھا وہ سب چھن چکا۔ جو ٹاٹ کے اسکول تھے اور سرکاری ہسپتالیں۔ کچھ بہتر عدالتی نظام تھا جو اب کچھ اور ہے۔ یہاں استاد اور ڈاکٹروں کی تعداد پہلے سے دس گنا زیادہ ہے اور وہ تنخواہ بھی لیتے ہیں۔ مگروہ انسان ان میں شاید اب نہیں رہا، جو پہلے تھا۔ پہلے وہ تنخواہ بھی کم لیتے تھے اور اپنی ڈیوٹی بھی پوری کرتے تھے۔ اس زمانے میں سستی تعلیم، سستا علاج اور انصاف بھی میسر تھا۔ انھی سرکاری اسکولوں میں غریبوں کے بچے پڑھے، منموہن سنگھ اور ڈاکٹر عبدالسلام بنے۔ وہ دہقانوں کے بچے تھے، کسی ماسٹر، ٹیلر یا مستری کے بچے تھے۔ اب ان اسکولوں میں کوئی بھی پڑھ کر بڑا آدمی نہیں بنے گا، نہ ہی کوئی علم و ہنر پائے گا۔

ان ہسپتالوں سے کوئی صحتیاب ہو کہ نہ نکلے گا اور نہ ان کو انصاف میسر ہو گا، نہ ہی بازاروں میں سستی و معیاری اشیاء ملیں گی۔ ہر طرف مہنگائی کا راج ہے ۔ آلو، ٹماٹر، پیاز، گوشت،دودھ، تیل اور تمام چیزیں ملاوٹی ہیں۔ ان بازاروں میں اگر کہیں چیزیں سستی ہیں تو ملاوٹ زدہ ہیں۔ اب تو گدھے کا گوشت زیادہ اور بڑا گوشت کم فروخت کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ گوشت امیروں کے بازاروں یا ہوٹلوں میں فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ وہاںاس بات کی کسی کو فکر نہیںکہ گوشت کی قیمت کیا ہے۔ بچوں کی اسکولوں کی فیس ہو یا ڈاکٹر کی فیس، انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں۔ یہاں امیروں کی اکثریت ٹیکس چور ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو ترقیاتی کاموں سے کمیشن کھا کر امیر ہوتے ہیں۔

اور یہ کمیشن افسر شاہی سے لے کر ایوانوں تک اپنا مقام بناتا ہے۔ بجٹ در بجٹ، بلیو اورینج، گرین ٹرینیںاوربسیں ہیںلیکن پھر بھی غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ ان کے بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکے نہیں۔ اسکول نہیں ہے، ہسپتالیںنہیں۔ اگر ہیں تو علاج ندارد، دوائیں مہنگی، دو نمبر کی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ریاست ہی نہیں ۔تمام اسکول اب پرائیویٹ ہیں۔ جو سرکاری ہیں ان کو اڈاپٹ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ہسپتال پرائیوٹ و پبلک پارٹنرشپ کے اصول کے تحت اڈاپٹ ہوگئے ہیں۔ سرکاری سیکیورٹی امیر سیاستدانوںکی پرائیوٹ سیکیورٹی کے طور پر کام کر رہی ہے، اور متوسط طبقے کے لوگ جو کل تک اپنے بچوںکو سرکاری اسکولوں میں پڑھایا کرتے تھے ان کا رجحان اب پرائیوٹ اسکولوں کی طرف ہے۔ اورتمام پرائیوٹ اسکول بڑھتی ہوئی فیسوں سے اپنے اسکول چلا رہے ہیں۔ تعلیم تجارت بن چکی۔

یہ غریب طبقہ الیکشنز میں کھڑا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ممبر اسمبلی بننے کے لیے بیس کروڑ کا خرچہ ہے اور یہ غریب صرف ان امیروں کو ووٹ ہی دیا کرتے ہیں۔ یہ خود رنگ و نسل و زبان کے تضاد میں بٹے ہوئے ہیں جب کہ امیر طبقہ ان تضادات سے آزاد ہے۔ ان امیروں کی نہ قوم ہے نہ زبان ان کی آدھی جائدادیں ملک سے باہر ہیں ان کا ایک پاؤں ملک کے اندر اور دوسرا پاؤں ملک کے باہر۔ یہ دہری شہریت بھی رکھتے ہیں اور اقامہ جیسے پرمٹ بھی جس کے ذریعے آسانی سے ملک سے باہر پیسے ارساںکر سکتے ہیں۔

کل یوم مئی تھا، مزدوروںکا عالمی دن۔ وہ مزدور جو اپنے خون پسینے سے اپنے لیے روزی کماتے ہیں بھوک و افلاس کے مارے لوگ ہیں۔ دوستوفسکی کی زبان میں ذلتوں کے مارے لوگ ہیں۔ دوستو فسکی اپنے ناول Crime and Punishment میں لکھتا ہے کہ کس طرح کرائم جنم لیتا ہے، کس طرح پھر بھوک چوری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکی، ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔ یاد آیا؟

گناہ کی بنیاد کیپیٹل ہے۔ پرائیویٹ پراپرٹی ہے اور یہ ہوس پھر ختم نہیں ہوتی۔ رہنے کے لیے ایکڑوں میں گھر چاہیے ہوتے ہیں۔ اپنے ذاتی جہاز و تیل ا ور ذاتی معالج چاہیے ہوتے ہیں اور انھیں لاکھوں کروڑوں میں فیس دینے سے کوئی انکار نہیں۔ بس ان کے مفادات کا تحفظ ہونا چاہیے۔ صحیح کہتا تھا مارکس کہ ناانصافی کی بنیاد سرمائے کی ترتیب و تقسیم ہے۔ اور یہ تمام مزدور، محنت کش کا پیدا کیا ہوا ہے۔ یہ سرمائے کے حواری کی تشریح ہے۔ جس نے عراق کو خانہ جنگی میں تبدیل کیا، مشرق وسطیٰ کے امن کو تباہ کیا۔

افغانستان کی موجودہ صورت بھی اسی نشے میں غلطان سامراجی قوتوں کی تشریح کا نتیجہ ہے۔ دنیا کے سب لوگ اس حوالے سے ایک ہیں۔ ان کے اسحتصال کرنیوالے بھی ایک ہیں۔ ہمیں اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال بغیر رنگ و نسل دیکھے کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنا ووٹ پارٹی کے manifesto کو دیکھ کر دینا چاہیے۔ ایک ایسی پارٹی اور لیڈر جس کے پاس vision  ہو ۔ جس کے پاس اداروں کو built  کرنے کا پروگرام ہو۔ ایک ایسی پارٹی جوغریب کے بچوں کو مفت و معیاری تعلیم فراہم کرنے کو یقینی بنائے۔ ان کے لیے سستا و معیاری علاج اور انصاف فراہم کرنے کے لیے منظم پالیسی ترتیب دے۔

اٹھو مرے دنیا کے غریبوں کوجگا دو

کاخ ِ امرا کے در و دیوار ہلا دو

جس کھیت سے دہقاںکو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلادو

(اقبال)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔