چیف الیکشن کمشنرفخرالدین جی ابراہیم نام کے ’چیف‘

مظہر عباس  بدھ 17 اپريل 2013
نوٹیفکیشن نہیں ہوا توکس نے مذہب کے نام پرووٹ مانگنے پرپابندی کی خبرچلائی؟۔ فوٹو: فائل

نوٹیفکیشن نہیں ہوا توکس نے مذہب کے نام پرووٹ مانگنے پرپابندی کی خبرچلائی؟۔ فوٹو: فائل

کراچی: ماضی کے برعکس موجودہ چیف الیکشن کمشنرجسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم کوویٹوکی طاقت میسرنہیں ،جوان کے پیشروؤں کوحاصل تھی ،جس کے باعث انھیں فیصلہ سازی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

اس کابھی پس منظرہے کہ الیکشن کمیشن یاچیف الیکشن کمشنرنے منگل کوالیکشن کمیشن آفس میں میڈیاکے داخلے پرپابندی کیوں لگائی؟یہ جسٹس ابراہیم جیسے شخص کے لیے آسان فیصلہ نہیں  ہوگاجومعلومات تک رسائی پریقین رکھتے ہیں۔لگتاہے الیکشن کمیشن کے اندرموجودچندلوگ انھیں شرمندہ کراناچاہتے ہیں۔وہ پہلے خبرچلواتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے مذہب اور فرقے کے نام پرووٹ مانگنے پرپابندی لگادی ہے۔شدید ردعمل پرالیکشن کمیشن کووضاحت کرناپڑی کہ انھوں نے اس ضمن میں کوئی نوٹیفیکیشن نہیں کیا۔

الیکشن کمیشن کاترجمان سیکرٹری ہے تاہم لگتاہے چیف الیکشن کمشنرکی ہدایات کے باوجودکمیشن کے تمام افرادہی ترجمان ہیں۔تاہم سوال یہ ہے کہ اگرنوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا تو کس نے اورکیوںیہ خبرچلائی؟ چیف الیکشن کمشنر’چیف‘ہیں مگرنام کے۔عملی طورپردیگرارکان کی طرح ان کابھی ایک ووٹ ہے۔

وہ کمیشن کے ارکان یاالیکشن کمیشن کی طرف سے کیے گئے کوئی فیصلہ روک نہیں سکتے البتہ اپنااختلافی نوٹ دے سکتے ہیں تاہم انھوں نے ناخوشگوارصورتحال سے بچنے کیلیے ابھی تک ایساکرنے سے اجتناب کیاہے۔نئے نامزدگی کاغذات اگرچہ ان کی ذہن کی پیداوارہیں تاہم جس طرح ان کی تشریح اورتصویرکشی ہوئی ،تمام الزام ان کے سرآگیا۔وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کوامیدواروں کے متعلق تمام معلومات میسرآئیں تاہم اگرکسی نے مالی تفصیلات والا کالم خالی چھوڑدیا تو بھی اس کے کاغذات مستردنہیں ہو سکے۔

ریٹرننگ آفیسرز، عدلیہ کی طرف سے تعینات کئے گئے تاہم سوالات کے متعلق جانچ پڑتال یابریف کرنے کے حوالے سے ان کی  تربیت نہیں ہوئی۔جس کے باعث چیف الیکشن کمشنر کو پھر شرمندگی کاسامناکرناپڑا۔اس عمل کے دوران الیکشن کمیشن کاایک رکن افضل خان ٹی وی ٹاک شوزمیں کمیشن کی نمائندگی کرتے رہے حالانکہ چیف الیکشن کمشنرنے ’زیادہ نہ بولنے‘کی ہدایت کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔