قومی بجٹ 2018-19ء

مبین مرزا  اتوار 6 مئ 2018
حکومت کے پاس یہ سہولت یا اختیار بھی تھا کہ آئندہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے بجائے صرف ایک سہ ماہی کا بجٹ پیش کرتی۔ فوٹو : فائل

حکومت کے پاس یہ سہولت یا اختیار بھی تھا کہ آئندہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے بجائے صرف ایک سہ ماہی کا بجٹ پیش کرتی۔ فوٹو : فائل

بجٹ 2018ء قومی اسمبلی میں 27 اپریل کو پیش کردیا گیا۔ عام طور سے بجٹ مالی سال کے اختتامی ایام، یعنی جون کے آخری دنوں میں پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس بار چوںکہ مئی کے آخر میں موجودہ حکومت اپنے اختیار و اقتدار کی مدت مکمل کرکے رخصت ہوجائے گی اور ملک کا نظام عبوری حکومت کے ہاتھ میں ہوگا، اس لیے بجٹ کا قبل از وقت پیش کیا جانا ضروری تھا۔

اصولی طور پر ویسے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، یعنی آئین کی رُو سے یہ اقدام درست ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس یہ قانونی اختیار ہے کہ وہ موجودہ سال کا بجٹ پیش کرکے رخصت ہو۔ اب یہ بجٹ کیا ہے اور اس کے ملکی اور عوامی زندگی پر کیا اثرات ہوں گے، ہم اس پر ذرا بعد میں بات کریں گے۔ اس سے پہلے چند ایک دوسرے پہلو قابلِ توجہ معلوم ہوتے ہیں۔

موجودہ حکومت کے پاس یہ سہولت یا اختیار بھی تھا کہ آئندہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے بجائے صرف ایک سہ ماہی کا بجٹ پیش کرتی اور یہ اختیار آنے والی حکومت کے لیے چھوڑ جاتی کہ وہ نظامِ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنی ترجیحات کی روشنی میں ملک کے منصوبے اور اخراجات طے کرے اور ان کے لیے بجٹ پیش کرے۔

اُسے جاتے ہوئے ملک کے رننگ فنانس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے نگراں حکومت کو کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے اخراجات کی مدآت میں رقم مہیا کرنے پر اکتفا کرنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا اور اُس نے کیوں ضروری سمجھا کہ وہ پورے ہی سال کا بجٹ پیش کرکے جائے؟ حالاںکہ وہ اچھی طرح جانتی ہوگی کہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے پر اسے اپوزیشن کے ردِعمل کا سامنا کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے، ایسا ہی ہوا بھی۔ پارلیمان میں حزبِ اختلاف کے رہنما خورشید شاہ نے نہ صرف اس اقدام کو غلط اور آئندہ حکومت کی حق تلفی قرار دیا، بلکہ احتجاجاً وہ اور اُن کی پارٹی کے دوسرے اراکین نے اسمبلی سے واک آؤٹ بھی کیا۔

خورشید شاہ نے اس بات پر بھی رائے کا اظہار کیا کہ وفاقی وزیرِخزانہ رانا افضل کے ہوتے ہوئے وزیرِاعظم کے مشیرِ مالیات مفتاح اسماعیل کو وزیرِخزانہ مقرر کیا گیا تاکہ وہ بجٹ پیش کرسکیں۔ انھوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مفتاح اسماعیل پارلیمان کا حصہ ہیں اور نہ ہی سینیٹ کے رکن۔ اس کے باوجود انھیں بجٹ پیش کرنے کی ذمے داری سونپی گئی۔

ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر میاں نوازشریف نالاں ہیں اور اپنی نااہلی کو وہ عوام کے ووٹ کی توہین قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو۔ پارلیمنٹ میں وفاقی وزیر کے ہوتے ہوئے ایک غیر پارلیمانی شخص کا بجٹ پیش کرنا بھی تو ووٹ کی توہین ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے خود اپنی پارٹی کے قائد کے نظریے کی نفی کی ہے۔ تحریکِ انصاف کے رکن شاہ محمود قریشی نے بھی بہ الفاظِ دیگر حکومت کے اس اقدام کو ہدفِ تنقید بنایا۔ انھوں نے پارلیمان کے ماحول کو تفریح کا رنگ دیتے ہوئے رانا افضل کو شہیدِ پارلیمان اور شہیدِ خزانہ بھی کہا۔

بعد ازاں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی تقریر میں ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس پورے سال کا بجٹ پیش نہ کرنے کے سوا چارۂ کار ہی نہیں تھا۔ ملک کے نظامِ کاروبار، حکومتی اداروں اور ترقیاتی کاموں کو جاری رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ بجٹ پیش کیا جائے اور پورے سال کے اہداف اور اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے سال بھر کا بجٹ ہی پیش کرنا ضروری تھا۔

اپوزیشن کے سخت اعتراضات کے جواب میں انھوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ آئندہ حکومت کے پاس آئینی حیثیت میں یہ اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سمجھے تو اس بجٹ میں اپنی ترجیحات کے مطابق تبدیلی کرسکتی ہے۔ بعد ازاں کچھ اسی نوع کی گفتگو وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی کی اور حکومتی اقدامات کا دفاع کیا۔ وزیرِاعظم نے رانا افضل کی جگہ مفتاح اسماعیل کے بجٹ پیش کرنے کی بھی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کی تیاری میں چوںکہ وہ مسلسل شامل رہے تھے، اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ انھیں ہی بجٹ پیش کرنے کی ذمے داری بھی ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

اب جہاں تک اعتراضات کی بات ہے تو پوری قوم جانتی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ جب اعتراضات کا غلغلہ بلند ہوا۔ ہمارے یہاں سال ہا سال سے یہ معمول ہو چکا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بجٹ پر اسی طرح اعتراضات کی بوچھاڑ کرتی ہیں۔ ہلڑ بازی کی جاتی ہے۔ برا بھلا کہا جاتا ہے۔ حکومت کے قومی شعور کو ناقص قرار دیا جاتا ہے اور معاشی اقدامات کو غیر حقیقی اور عوام دشمن بتایا جاتا ہے۔

حکومت کی حکمتِ عملی کو مسترد کیا جاتا ہے۔ مالیات کی تقسیم اور اہداف میں سقم دکھائے جاتے ہیں اور مین میکھ نکالی جاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس بجٹ پر اتنا شور شرابا نہیں ہوا۔ شاید اس لیے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس اس قسم کے شوق پورے کرنے کے لیے وافر مقدار میں وقت نہیں ہے، اور شاید اس لیے بھی کہ بجٹ کی حقیقت سے اب ان دونوں کو نہیں، بلکہ آئندہ حکومت اور اپوزیشن کو واسطہ پڑے گا۔

تاہم وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر احسن اقبال کی تمام تر وضاحتوں کے باوجود اس اعتراض کا وزن کم نہیں ہوتا کہ حکومت نے پورے سال کا بجٹ کیوں پیش کیا، وہ سال کی ایک سہ ماہی کا بجٹ بھی تو پیش کرسکتی تھی۔ اس بات میں وزن یوں بھی زیادہ نظر آتا ہے کہ پنجاب کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ چار ماہ کا بجٹ دے کر جائے گی، جب کہ سندھ کی حکومت نے تین ماہ کا بجٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جب صوبے اس مسئلے کو سمجھ رہے ہیں تو وفاقی حکومت نے اس پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کیا؟

رہ گئی اب یہ بات کہ وفاقی وزیرِخزانہ کے ہوتے ہوئے مفتاح اسماعیل کو آخر وزیرِخزانہ کا منصب کیوں سونپا گیا، جب کہ وہ ایوانِ بالا و زیریں دونوں میں سے کسی کا بھی حصہ نہیں ہیں۔ آخر ن لیگ پارلیمان میں کس قسم کی روایت کی داغ بیل ڈال رہی ہے؟ ماننا پڑے گا کہ یہ اعتراض محض برائے اعتراض نہیں ہے۔ یہ واقعی اہم سوال ہے۔

حکومت کے سرکردہ اور بااختیار اراکین یا ن لیگ کی قیادت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وفاقی وزیرِخزانہ رانا افضل یہ اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ بجٹ جیسے کسی بڑے اور گمبھیر مسئلے کو سنبھال سکیں تو کیا انھیں اس حقیقت کا اندازہ اس وقت نہیں تھا، جب انھیں وزیرِخزانہ کا منصب سونپا جارہا تھا؟ یا پھر جو کہا جارہا ہے، اس میں واقعی صداقت ہے کہ ن لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وہ اب ایک پارٹی نہیں رہی ہے اور اس میں اندرونی طور پر دھڑے بندیاں ہوچکی ہیں۔ اس کا ثبوت بجٹ کے اس مرحلے پر بھی مل گیا۔

واقعہ یہ ہے کہ بجٹ چند منٹ، چند گھنٹے یا انگریزی محاورے کے مطابق ایک رات کا کھیل نہیں ہوتا۔ کئی ہفتوں، بلکہ مہینوں پہلے ایک نہیں متعدد اعلیٰ استعداد رکھنے والے لوگ اپنی اپنی ٹیم یا اداروں کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے لیے انھیں بہت سے حکومتی اداروں سے مشاورت اور مدد بھی درکار ہوتی ہے۔

اہداف مقرر کیے جانے سے پہلے ان کے بارے میں آرا طلب کی جاتی ہیں۔ حکومت کی مالیاتی حیثیت، اس کی آمدنی کے ذرائع اور ممکنہ اخراجات کے بارے میں کسی ایک شخص کا فیصلہ یا من مانی کام نہیں آتی۔ صوبائی اور حکومتی اداروں کی آرا اور تجاویز اس پورے عمل میں درکار ہوتی ہیں۔ اس کا اندازہ تو ن لیگ کی قیادت یا وزیرِاعظم کو بہت پہلے ہوجانا چاہیے کہ رانا افضل بجٹ بنانے اور پیش کرنے والے کام کے لیے کارآمد نہیں ہیں۔ بہتر ہوتا کہ بجٹ کے موقعے پر مفتاح اسماعیل کو یہ فرائض اور منصب سونپنے کے بجائے پہلے سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کام کے لیے رانا افضل کو کس طرح تیار کیا جانا چاہیے۔

آخر ن لیگ نے جاتے جاتے پورے سال کے لیے وفاقی بجٹ پیش کرکے اپوزیشن کی جماعتوں کو یہ موقع کیوں دیا کہ وہ ایک بار پھر اُس کے خلاف زورشور سے ردِعمل کا اظہار کریں؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے دورِ حکومت میں جو کوئی کام کرتی رہی ہے، اس کا اس آخری مرحلے میں کریڈٹ لینا اور عوامی حافظے میں اُسے تازہ کرنا اور نمایاں طور سے پیش کرنا آئندہ انتخابات کے لیے اُس کے حق میں مفید ثابت ہوگا۔ یہ کام سب سے بہتر اور مؤثر انداز میں بجٹ کے ذریعے ہی کیا جاسکتا تھا۔

دوسری بات یہ کہ اس بجٹ پر ایک سرسری نگاہ ڈالیے تو بھی آپ کو فوری طور پر اندازہ ہوجائے گا کہ ملک میں جی ڈی پی کی صورتِ حال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس دور میں بہتر ہوئی ہے۔ افراطِ زر میں کمی آئی ہے۔ حکومت نے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرتے ہوئے واضح طور پر تأثر دیا ہے کہ عوام کے جان و مال اور ملک کی سلامتی اس کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہے۔

ملک کی آمدنی میں صوبوں کا حصہ بڑھا دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین اور ریٹائرڈ افراد کی پینشن میں دس فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ کھاد، پولٹری اور ڈیری مصنوعات، لائیو اسٹاک، زرعی اور صنعتی مشینری، ایل ای ڈی لائٹس، الیکٹرک گاڑیوں، ایل این جی وغیرہ پر رعایت دی گئی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر اور ریفائنری پر ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے۔ ان سب باتوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ایک تو اپنے اختتامی ایام میں حکومت اپنے دورِ حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کا نہ صرف کریڈٹ لینا چاہتی ہے، بلکہ عوام کو بتانا چاہتی ہے کہ اُس کا رویہ عوام دوست رہا ہے اور اُسے ملک کی ترقی اور خوش حالی سے خاص دل چسپی ہے۔ اُس نے جو اقدامات کیے، وہ کارگر رہے اور اُن سے عوامی سطح پر بہتری کا عمل سامنے آچکا ہے۔

حزبِ اختلاف کے سارے شور شرابے کے باوجود حکومت جو کچھ عوام کو باور کرانا چاہتی تھی، اس میں وہ خاصی حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس بجٹ پر اُسے معاشیات کے شعبے سے وابستہ بعض شخصیات اور چیمبرز آف کامرس کے افراد کی طرف سے سراہا گیا ہے۔ کھل کر حکومت کے بجٹ سے متعلق فیصلوں کو عوام دوست قرار دیا گیا ہے۔

کہا گیا کہ یہ فیصلے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیں گے۔ اسی طرح ملک کی ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے بھی جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ حوصلہ افزا ثابت ہوں گے۔ ٹیکس دہندگان کے لیے جائیداد کی فروخت پر ٹیکس ایک فی صد کردیا گیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کی سرمایہ کاری میں ڈیویڈنڈ پر ساڑھے بارہ فی صد ٹیکس تھا جسے اب کم کرکے پانچ فی صد کردیا گیا ہے۔ ٹیکس لاگو ہونے والی آمدنی کا دائرہ بڑھا کر بارہ لاکھ کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک لاکھ ڈالر تک کی فارن ریمیٹنس کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ یقینا یہ فیصلے عوام کے لیے پسندیدہ ہوں گے اور ان کی نظروں میں حکومت کو عوام دوست ثابت کرنے کا ذریعہ بھی۔

اب اگر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری یا شاہ محمود قریشی اور بعض دوسرے افراد بجٹ کو ن لیگ کی سیاسی اور انتخابی حکمتِ عملی کا شاخسانہ بتاتے ہیں تو بے شک بتاتے رہیں۔ ن لیگ حکومت میں ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ بجٹ کو بھی اپنی انتخابی پوزیشن کی بہتری کے لیے استعمال کرسکے تو وہ کیوں نہیں کرے گی۔ سچ پوچھیے تو اس پوزیشن میں پیپلز پارٹی یا تحریکِ انصاف میں سے کوئی ہوتا تو اس کی بھی ہر ممکن کوشش یہی ہوتی کہ وہ ہر ایسا کام کر گزرے جو اس کے لیے انتخابی فائدے کا باعث ہوسکتا ہے۔

ایسا صرف ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔ دنیا کے ان سب ممالک میں یہی ہوتا ہے، جہاں نظام سے زیادہ افراد مضبوط ہوتے ہیں۔ جہاں سیاسی جماعتیں اپنے اگلے انتخاب کو ملک کے حالات اور اس کے عوام کی تقدیر سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر آپ، ہم، یعنی عوام اس صورتِ حال کو بدلنا چاہتے ہیں تو اس کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ ہے بہتر قومی شعور کا اظہار— اور اس کا بہترین موقع وہ ہوتا ہے جب آپ انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔

اس گفتگو کے آخر میں ہمیں ایک بات پارلیمانی اراکین کے طریقِ کار اور ردِعمل کے اظہار کے بارے میں کرنی ہے۔ جس وقت مفتاح اسماعیل بجٹ پیش کررہے تھے، تحریکِ انصاف کے قومی نمائندے ان کے ڈیسک کے سامنے کھڑے ہوئے احتجاج کررہے تھے۔ انھوں نے مسلسل ایک شور برپا کیا ہوا تھا اور ان کی کوشش تھی کہ بجٹ پیش نہ کیا جاسکے، یا اس ہلڑ بازی میں پارلیمنٹ کے اراکین بجٹ کی تقریر نہ سن سکیں۔

انھوں نے بجٹ کی کاپیاں جو انھیں فراہم کی گئی تھیں، پھاڑ پھاڑ کر مفتاح اسماعیل کی طرف اچھالیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ یہ بالکل فلمی سین پیش کرتی ہوئی صورتِ حال تھی۔ تاہم اس کا کلائمکس اس وقت آیا جب تحریکِ انصاف کے مراد سعید اور ن لیگ کے عابد شیر علی کے مابین تلخ کلامی نے طول کھینچا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ دونوں باقاعدہ دست بہ گریباں ہوں۔ ایسے موقعوں پر جیسا کہ ہوتا ہے، دونوں طرف کے دوسرے لوگ بیچ بچاؤ کے لیے آگے آئے، لیکن منظر دیدنی تھا کہ جب تحریکِ انصاف کے مراد سعید ہاتھ چھڑا کر اور راہ میں آنے والی نشستوں اور میزوں کو پھلانگتے ہوئے اپنے حریف کی طرف لپک رہے تھے۔

یقین جانیے، یہ تسلیم کرنا محال تھا کہ یہ واقعی ملک و قوم کی تقدیر بنانے اور آئندہ نسلوں کا مستقبل سنوارنے والے اعلیٰ سطح اور اعلیٰ اختیار والے اراکین کی اسمبلی کا حقیقی منظر ہے یا بولی وڈ کی کسی فلم کا کوئی اشتعال انگیز گرماگرم سین۔ یہ سوچ کر سخت خجالت محسوس ہوئی کہ یہ فلم کا نہیں ہمارے پارلیمان کا حقیقی سین ہے— اور اس وقت تو جیسے آدمی شرم سے زمین میں گڑ جاتا ہے، جب اُس کی نوجوان اولاد میں سے کوئی برابر میں بیٹھے ہوئے یہ منظر دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے، ابو کیا ہماری پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے لوگ نہیں ہوتے؟

آپ کچھ جواب نہیں دے پاتے اور خالی نظروں سے بیٹے یا بیٹی کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ پھر کہتا یا کہتی ہے، ایسے تو سڑکوں پر غل غپاڑہ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں یا پھر سرکس میں نقلی لڑائی کا کرتب دکھانے والے۔ آپ کتنی ندامت محسوس کرتے ہیں۔ ہماری اولاد یقیناً ہم سے بہتر ذہنی سطح رکھتی ہے، اس کے شعور کی سطح بھی بلاشبہہ بلند ہے۔ ہم نے اپنی کم عقلی، ناتجربہ کاری، پارٹی بازی یا سادگی— کسی بھی وجہ سے ایسے لوگوں کو پہچاننے میں بہت دیر کی۔ تاہم خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بچے ہمارے جیسے مزاج اور ذہنی رویوں کے اسیر نہیں ہیں۔ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ وہ آگے چل کر یقینا اپنے سیاسی قائدین اور قومی راہ نماؤں کا انتخابات بہت بہتر طور پر کریں گے۔ n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔