خدشات

نصرت جاوید  جمعرات 18 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

آیندہ انتخابات میں یقیناً پاکستان مسلم لیگ (قاف) کا کافی بُراحال ہوگا۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چوہدری شجاعت حسین کو سیاست نہیں آتی۔ میری ان سے شناسائی کا باقاعدہ آغاز 1985ء میں ہوا تھا۔ قومی اسمبلی کے رکن بننے کے بعد وہ جونیجو کابینہ کے رکن رہے۔ انھیں پوری طرح علم تھا کہ میں ذاتی طور پر جنرل ضیاء کا مداح نہیں اور میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنھیں ’’جہادی ایجنسیاں‘‘ مشکوک گردانا کرتیں تھی۔

اس سب کے باوجود میں نے جب بھی ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا انھوں نے فراخ دلی سے میرے لیے وقت نکالا۔ میں جس خبر کے بارے میں کھوج لگارہا ہوتا وہ اس کے بارے میں جتنا کچھ بھی جانتے تھے سارے کا سارا بتادیتے۔ معاملہ بہت ہی حساس ہوتا تو’’آف دی ریکارڈ‘‘ کی شرط لگاکر سچ بول دیتے۔ ان کے ساتھ اکیلے میں بہت ساری ملاقاتیں کرنے کے بعد میں بڑے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اتنے سادہ نہیں جتنا نظر آتے ہیں۔ ان کی قوتِ مشاہدہ بہت تیز ہے اور یادداشت بھی کمال کی۔ بطور ایک رپورٹر میں ان کے ملکی حالات کے بارے میں خیالات کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور ہوں۔

مجھے یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ گزشتہ چند روز سے چوہدری شجاعت حسین تواتر کے ساتھ یہ کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں آیندہ انتخابات کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائیں گے۔ سیاسی منظر نامہ البتہ ان انتخابات کے بعد کافی خوفناک دِکھنا شروع ہوگیا ہے۔

وہ لوگ جو گزشتہ چند برسوں میں ٹی وی اسکرینوں پر سیاستدانوں کی بھد اُڑاتے پروگراموں کو دیکھ دیکھ کر ’’تجزیہ کار‘‘ بنے ہیں اور فیس بُک یا ٹویٹر پر اپنے تجزیے اول فول لفظوں میں پیش کیا کرتے ہیں فوراً یہ کہہ اُٹھیں گے کہ چوہدری صاحب کو آیندہ کا سیاسی منظر نامہ شاید اس لیے خوفناک نظر آنا شروع ہوگیا ہے کیونکہ انتخابات میں ان کی جماعت ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنے والی ہے۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں ایسی انقلابی سوچ سے متفق نہیں ہوسکتا۔ اچھی طرح جانتا ہوں کہ سیاستدان کس ڈھیٹ ہڈی کے بنے ہوتے ہیں۔ انتخابات میں ہارجیت کے عادی ہوتے ہیں۔ کسی بھی کھیل کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں کی طرح وہ ہر وقت جیتنے کے گمان میں مبتلا ہوکر میدان میں نہیں اُترتے۔

چوہدری شجاعت کی ایک سے زائد بار دہرائی بات پر میں گھنٹوں سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ ایسا کرتے ہوئے مجھے ایک بار پھر اس بات کو یاد رکھنا پڑا کہ آیندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی 272نشستوں کے لیے مقابلہ ہونا ہے۔ اگر آپ بھی اس تعداد کو ا چھی طرح ذہن میں بٹھالیں تو پھر یہ بھی سمجھ لیجیے کہ آیندہ کی مستحکم حکومت بنانے کے لیے کسی جماعت کو 11مئی کی رات کو کم ازکم 137نشستوں پر اپنی کامیابی دکھانا ہوگی۔

اب ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ آپ کے ذہن میں کونسی جماعت یہ تعداد حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔ میں اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ وہ جسے پنجابی محاورے میں ’’ہوا‘‘ کہا جاتا ہے اس کے مطابق آج کل گڈی نواز شریف کی چڑھی نظر آرہی ہے۔ میں ہر دوسرے تیسرے روز ان کی جماعت کے کسی نہ کسی وفادار مگر ٹھنڈے دماغ والے شخص سے ازخود رابطہ کرتا ہوں۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میرے اس کالم کے لکھنے تک پاکستان مسلم لیگ نواز کا شدید ترین خیر خواہ بھی اس جماعت میں 272میں سے 120سے زیادہ نشستیں دیتا نظر نہیں آرہا تھا۔

نواز شریف کے بعد چرچا ہے تو عمران خان اور ان کی سونامی کا۔ تحریک انصاف کے وہ لوگ جو ابھی بھی مجھے اپنے دوستوں میں شمار کرتے ہیں اکیلے میں بھی ملتے ہیں تو دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت آیندہ انتخابات میں ویسے ہی حیران کن نتائج دکھائے گی جو ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو1970ء میں نصیب ہوئے۔ البتہ وہ سب مجھے ابھی تک یہ بھی نہیں بتا سکے کہ 272تو دور کی بات ہے مجھے صرف یہ گنوادیں کہ وزیر اعظم بنانے والی 137سیٹوں پر  انھوں نے کس کس امیدوار کو کھڑا کیا ہے۔ وہ خوش رہیں اور اپنے اندازوں میں درست ثابت ہوں۔ مگر میں ایک حسابی کتابی رپورٹر ہوں۔

11مئی کا تجزیہ کرنا ہے تو قومی اسمبلی کے ایک ایک حلقے کے بارے میں ذرا تفصیل سے جاننا میری مجبوری ہے۔ مجھے تحریک انصاف کے دوستوں نے وہ تعداد تو نہیں بتائی جسے وہ 11مئی کے دن حاصل کرنے کی توقع کررہے ہیں۔ مگر دو غیر ملکی سفیروں نے الگ الگ مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ ان سے ملاقاتیں کرنے والے تحریک انصاف کے لوگ قومی اسمبلی کی کم ازکم 80نشستیں جیتنے کے بارے میں کافی پراعتماد دِکھ رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ درست کہہ رہے ہوں۔ مگر 80کی تعداد عمران خان کو وزیر اعظم نہیں بناتی۔ ایسا صرف اس صورت ممکن ہے کہ اگر وہ کسی دوسری بڑی ایک جماعت یا چھوٹی چھوٹی کچھ جماعتوں کے ساتھ آیندہ کی مخلوط حکومت بنانے کو تیار ہوں۔ بات جب مخلوط حکومت کے امکانات تک آجاتی ہے تو تحریک انصاف اپنے ابھی تک کے پررعونت رویے اور اپنے کارکنوں کے ’’انقلابی‘‘ انداز کی وجہ سے کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ’’اسٹیٹس کو کی حامی‘‘ جماعتوں سے ’’اقتدار کی خاطر‘‘ سمجھوتے کرتی نظر نہیں آرہی۔

پاکستان مسلم لیگ میں اس معاملے پر لچک دکھانے کی صلاحیت ضرور موجود ہے۔ مگر انتخابات کے قریب آتے ہی انھوں نے ہم خیال مسلم لیگ، جمعیت العلمائے اسلام اور جماعت اسلامی وغیرہ سے جو رویہ اختیار کیا اس کی بدولت پیدا ہونے والی تلخی کو آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اپنا کالم ختم کرنے سے پہلے مجھے اتنا بھی یاد دلانے دیجیے کہ آیندہ انتخابات صرف پشاور سے رحیم یار خان تک محدود نہیں ہیں۔ آگے سندھ بھی ہے اور بلوچستان بھی۔ نواز شریف یا عمران خان کو وزیر اعظم پورے پاکستان کا بننا ہے صرف پنجاب ہی کا نہیں۔ اور یہ آخری بات لکھنے کے بعد میں آپ کو چوہدری شجاعت حسین کے بتائے خدشات کو ذرا سنجیدگی سے لینے کا مشورہ دوںگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔