جہالت، افلاس اور اندھیر نگری

نسیم انجم  اتوار 6 مئ 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

گدھا ایک محنتی اور صابر و شاکر جانور ہے، ذرا سی کاہلی کا مظاہرہ کرے تو ڈنڈے برسنے شروع ہوجاتے ہیں اور اس پر مزید ظلم اس طرح ہوتا ہے کہ اس کے منہ میں لوہے کی نکیل ڈال دی جاتی ہے۔ یہ

تو معمول کی باتیں ہیں، اکثر اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے یا بڑے کو گدھے پر سوار کیا جاتا ہے، چہرے پر کالک مل دی جاتی ہے اور گلے میں جوتوں کا ہار اور بے چارے گدھے کو ذلت کے اس ٹوکرے کو اپنی پیٹھ پر لادنا پڑتا ہے، اس وقت گدھے کی وقعت بڑھ جاتی ہے اور سوار کی گھٹ جاتی ہے کہ لعن طعن کا مستحق وہی شخص ہوجاتا ہے جو اپنے کالے کرتوتوں کے ساتھ محلے کے شرارتی بچوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے یا پھر اہل محلہ کا یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ اس چور، اچکے کو پورے علاقے کی سیر کرائی جائے تاکہ آیندہ کے لیے سبق سیکھ سکے، گویا گدھا جوکہ بدکردار ہوتا ہے اور نکھٹو اور ہڈ حرام اس کے باوجود اسے دیکھ کر ذرہ برابر خوشی حاصل نہیں ہوتی، اس کے برعکس گھوڑے کی ایک جھلک ہی تاریخ کے ان ابواب کو روشن کردیتی ہے جب گھوڑوں پر بیٹھ کر جنگ لڑی جاتی تھی، تاریخ اسلام اور تاریخ عالم کی جنگوں میں گھوڑوں کی بہادری، وفاداری اور شان و تمکنت کے قصائد کتابوں میں درج ہیں اور سینوں میں محفوظ ہیں۔

قدآور سونے کی طرح چمکتے گھوڑے نگاہوں کو بھاتے ہیں۔ مسٹر ڈونکی ہر محاذ پر مار کھا جاتا ہے۔ ان کی قسمت کا خانہ قدر و منزلت سے خالی ہوتا ہے۔ لیکن خوف خدا رکھنے والے جانوروں سے ضرور ہمدردی رکھتے ہیں کہ بے زبان ہیں، اگر یہی مشقت والا کام حضرت انسان کے ذمے ڈال دیا جائے تو زبان سے تو کچوکے لگائے گا ہی بلکہ اپنی تذلیل کا ایسا بدلہ لے گا کہ مالک زندگی بھر اس صدمے کو بھلا نہ سکے گا۔

گدھے کو تو پھر بھی برداشت کرلیا جاتا ہے لیکن گلی کوچوں میں پھرنے والے زخمی کتے جنھیں دیکھ کر ابکائی آنی شروع ہوجاتی ہے، اس نجس جانور پر ایک نگاہ غلط پڑ جانے کے بعد دوسری نگاہ ڈالنے کی شاید ہی کوئی ہمت کر پاتا ہو، جب کہ اہل مغرب کا تو یہ حال ہے کہ ان کے پسندیدہ جانور کتے کو تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں بلکہ جائیداد میں بھی شریک ہوتا ہے اور گھروں میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کھانے پینے سے لے کر بیڈ روم اور بستر میں بھی ساتھ ہی نیند کے مزے لوٹتا ہے۔ ڈائننگ ٹیبل، صوفہ سیٹ، کچن غرض ہر جگہ اسے گھومنے پھرنے کی آزادی ہے لیکن ہمارے یہاں تو انسانوں کے حقوق بھی حکومتی رویے نے پامال کردیے ہیں۔

جن کے لیے یکم مئی کی چھٹی کی جاتی ہے وہی بے چارے جانور کی طرح کام کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بحیثیت مسلمان یہ بات باعث تقویت ہے کہ کتے کو اس کی اوقات پر ہی رکھا جاتا ہے۔ کتا اگر نجس ہے تو نجس ہے، سورۃ کہف میں محض چوکیداری کے حوالے سے کتے کا ذکر آیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب کی نقالی میں پاک اور ناپاک چیزوں میں تفریق نہ کی جائے۔

لیکن آج کے دور میں جب اسکولوں سے علم کی روشنی کو گل کر دیا گیا ہے، بچے گلیوں میں کھیلنے پر مجبور ہوگئے اور جرائم پیشہ لوگ ان کے نزدیک آتے چلے گئے۔ یہ جرائم پیشہ لوگ بھی کبھی معصوم تھے، جرم کی دنیا سے ناواقف تھے۔ حکمرانوں کے بچے باہر کے ملکوں میں زیر تعلیم تھے اور ان بے چاروں سے کتابیں چھین لی گئیں اور تاریک راہوں میں دھکیل دیا گیا، پھر وہ خود تو بھٹکے ہی تھے انھوں نے بہت سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر ایک گروہ بنالیا، ماں باپ بے چارے کیا کرتے، وہ خود دن رات محنت مشقت کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے۔ وڈیروں، جاگیرداروں، امرا اور خاص طور پر ان لوگوں نے جن کا انسانیت سے دور دور تک کا واسطہ نہ تھا، ان کے خاندانوں کو غلام بنالیا اور گھوسٹ اساتذہ کی پیداوار میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ پھر کیا ہوا۔

اندھیرا اور اندھیرے کی ردا پھیلتی گئی، اغوا، تشدد، ڈکیتی کا بازار گرم ہوگیا۔ شہر جنگل میں بدل گیا۔ اسی جنگل میں بھوکے، پیاسے، روزگار کے متلاشی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے کتوں اور گدھوں کو ذبح کرنے لگے، اور اپنے ہی بھائیوں کو اس کا گوشت تکوں، بہاری بوٹیوں، نہاری اور بریانی کی شکل میں پیش کیا جانے لگا، اس منافع بخش دھندے میں ایک نہیں بہت سے لوگ شامل ہوگئے اور یہ بات تو بتانے کی ہے ہی نہیں کہ پولیس بھی شامل تھی۔ وہ تو ہر جرم میں شامل ہوتی ہے، لیکن سب نہیں۔ چند کالی بھیڑوں کے سوا۔ مذبح خانہ کھولا گیا، حرام گوشت فروخت کیا گیا، ہر کام تن تنہا کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔

گزشتہ دنوں آٹھ سو گدھوں اور کتوں کی کھالیں پکڑی گئیں۔ ان کا گوشت کہاں گیا؟ آسان جواب ہے۔ ان لوگوں کے پیٹوں میں جو باہر کا کھانا کھانا پسند کرتے ہیں۔ کتوں اور گدھوں کی کھالوں کے حوالے سے حقیقت بالکل سامنے آگئی ہے، شک کی گنجائش ذرہ برابر نہیں بچی ہے۔

اخبار کی خبر کے مطابق کہ گودام سے 40 سے زائد بوریاں برآمد کی گئیں، جن میں گدھوں اور کتوں کی کھالیں موجود تھیں لیکن یہ کیس پولیس نے کمزور کردیا، ساتھ میں عدالت نے بھی اپنا کام کر دکھایا، مطلب یہ کہ انصاف کے تقاضے کو پورا کردیا اور افغان باشندے سمیت دو ملزمان قابل ضمانت دفعات کے باعث رہا کردیے گئے۔

اس پوری کارروائی میں پولیس اور ملزمان کی ساز باز سامنے آگئی، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے لوگ دوسروں سے پیچھے ہرگز نہیں ہیں، وہ کتے کو کتا نہیں انسان سمجھتے ہیں، لیکن یہاں جانور کو جانور ہی خیال کیا جاتا ہے اور پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور شیطان کی روش پر چلتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے ہیں، جب کہ اﷲ نے تو اس جانور کا گوشت کھانے کے لیے منع فرمایا ہے، جس پر اﷲ کا نام نہ لیا گیا ہو۔لیکن بات یہ ہے اﷲ کے احکامات پر عمل وہی کرے گا، جس کے دل میں اﷲ کا خوف اور سزا و جزا کے دن سے ڈرتا ہوگا۔

ڈر اور خوف کا احساس وہی شخص کرتا ہے جو علم رکھتا ہو۔ اور علم کا معاملہ جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ غریب کو اس سے محروم کر دیا گیا، اور پھر اپنی مرضی کے کام کروانا آسان ترین ہوگیا، اب بے چارہ سخت دھوپ میں پولنگ اسٹیشن آتا ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اسے باقاعدہ لانے کا انتظام کیا جاتا ہے، یہ وہ واحد دن ہوتا ہے جب اسے مفت کی سواری اور بریانی کی پلیٹ نصیب ہوتی ہے، ایک بریانی کی پلیٹ حلق سے اتارنے کے بعد سرکار کا وہ ہر حکم بجا لاتا ہے۔

ہمارے ملک میں حرام اور نجس جانوروں کی ہلاکت کی بازگشت اس وقت سے زیادہ سنائی دینے لگی اور ثبوت بھی سامنے آگئے، جب سے ہمارے پڑوسی ملک میں سے اثر و رسوخ بڑھے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ تعلقات کہاں تک جاتے ہیں۔ شاید وہ وقت دور نہیں جب حشرات الارض اس پاک زمین سے غائب ہو جائیں گے اور پاک چین دوستی زندہ باد کا نعرہ وہ شخص بھی لگائے گا جو سی پیک کے نام اور فوائد سے ناآشنا ہے۔

ہمارے ایک عزیز تھے جو اب اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے، وہ شپ پر بحیثیت ڈاکٹر ملازم تھے، انھوں نے سالہا سال کی ملازمت کے دوران مرغی کے انڈے پر گزارا کیا کہ اشیائے خورونوش میں وہی حلال رزق تھا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں، بے شمار لوگ ہیں جو صاحب ایمان ہوتے ہیں اور جنھیں یہ احساس فکرمند رکھتا ہے کہ کہیں ان سے اس حاکم کی نافرمانی تو نہیں ہو رہی ہے، جس کی قدرت میں جان ہے، سانسوں کی لڑی جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔کیا ایک ایسے ملک پر جو لاالہ الا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا ہو، منافق حکمران حکومت کا حقدار ہوسکتا ہے؟ کاش صاحب اقتدار زندگی کی حقیقت کو سمجھنے اور عذاب الٰہی سے بچنے کی کوشش کرتے تو یہ پاکستان قوت ایمانی کے سبب سپر طاقت ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔