مزدور کے ماتھے پر…

شیریں حیدر  اتوار 6 مئ 2018
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

نیا برس شروع ہوتا ہے… ہم نئے سال کا کیلنڈر پہلے کاغذی خریدا کرتے تھے اب اپنے موبائل فون پر چیک کرتے ہیں، سب سے پہلے ہم سب یہ چیک کرتے ہیں کہ اس برس میں کون کون سی چھٹی کون سے دن وقوع پذیر ہو گی، یعنی سال کے باون ویک اینڈز کے علاوہ اور کون کون سی ایسی سرکاری چھٹیاں ہیں جو ملیں گی، کہیں عیدیں ویک اینڈ پر تو نہیں ہوں گی کہ اضافی چھٹیوں کے امکانات ختم ہو جائیں ۔ اس سال یکم مئی کی چھٹی منگل کے دن آئی تو بہت سے ’عقلمندوں ‘نے پیر کی چھٹی لے کر اپنا ویک اینڈ چار دن تک کھینچ لیا۔

ہمارے ہاں لوگ چھٹیاں عموما اس لیے لیتے ہیں کہ ڈٹ کر سو سکیں، کچھ شوقین آج کل کے موسم میں چار دن کے لیے ٹھنڈے علاقوں کی سیاحت کو نکل جاتے ہیں۔ غرض اس سال یکم مئی، یعنی مزدوروں کے دن کی چھٹی کو ایک پیر کے دن کے ساتھ ملا کر طویل ویک اینڈ پر محیط کر کے لوگوں نے کئی پلان بنا لیے۔ مگر اس روز اگر کسی کی چھٹی نہ تھی تو وہ مزدور تھے… عمارتوں پر کام کرتے، بازاروں اور منڈیوں میں، ریڑھیوں پر سامان ڈھوتے، اسٹیشن اور ائیر پورٹ پر سامان کی ٹرالیوں کو دھکیلتے …

’’ تم نے یکم مئی کو چھٹی کیوں نہیں کی تھی بیٹا؟ ‘‘ میری خاموشی نے مزدور سے سوال کیا۔

’’ چھٹی کرتا میری اماں، تو اس روزکی شام کو گھر کا چولہا کیسے جلتا؟ ‘‘ خاموشی میں ہی جواب ملا۔’’ تمہارے مزاج میںاتنی تلخی کیوں ہے؟ ‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔

’’ کیونکہ صاحب لوگ پڑے سو رہے ہوتے ہیں اور ہمیں کہیں کام بھی نہیں مل رہا تھا… دن بھر لور لور پھر کر شام کو خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے تو بچے کیا پیٹ پر پتھر باندھ کر سوئیں گے؟ پہلے ہی دن بھر کی مشقت کے بعد ہاتھ میں جو چند روپے آتے ہیں وہ کئی ضرورتوں کے عفریت کے منہ میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں، بچے سوکھی روٹی اچار یا پانی کے ساتھ کھا کر سوتے ہیں!!‘‘

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات!!

ہوا کچھ یوں تھا کہ بچوںکے کمرے کے اے سی میں مسئلہ تھا، صاحب سے کہا کہ اپنے ’’ فیملی الیکٹریشن ‘‘ کو بلوا لیں، یکم مئی کو تو انھوں نے مان کر نہ دی کہ اس روز تو سارے کام کرنے والوں اور مزدوروں کی چھٹی ہوتی ہے۔ ’’ جانے اس روز مزدور بے چارے کہاں سے کھانا کھاتے ہوں گے کام کیے بنا! ‘‘ میںنے بڑبڑا کر کہا تھا ۔ کیونکہ مجھے علم تھا ، لیبر ڈے ان لوگوں کے اللے تللے ہیں جن کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ، ان کی چھٹی ہوتی ہے اور ان ہی کی عیاشی۔ تاہم اگلے روز صاحب نے میری عرضی کی منظوری دی اور کال کی کہ ظہیر کو بلوائیں، وہ گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے گھرمیں مہینے میں کئی بار … کم از کم ایک بار تو ضرور آتا ہے کہ بجلی کا کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہی رہتا ہے اور وہ ہمارے گھر کے سارے بجلی کے نظام کا نباض بن چکا ہے ۔ کئی دفعہ بیل بجنے کے بعد اس کا فون اٹھایاگیا مگر کسی اور نے ہیلو کہا تو صاحب نے بتایا کہ انھیں ظہیر سے بات کرنا تھی کہ وہ آج آ جائے۔

’’ ظہیر تو کل وفات پا گیا تھا، کل ہی اس کا جنازہ بھی ہو گیا تھا !! ‘‘ فون کے اسپیکر سے ابھرنے والی آواز نے میرے حواس بھی اڑا دیے تھے۔ کیسا خوبرو جوان، چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد، انتہائی شریف اور با اعتماد ورکر… پیارا سا انسان ، یکم مئی کو کسی کے گھر پر کام کرتے ہوئے سیڑھی سے سر کے بل گرا اور سر پر لگنے والی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی تھی۔ آہ ظہیر، اللہ تعالی نے تمہاری زندگی اتنی ہی مختصر لکھی تھی مگر میں تمہارے خاندان کے دکھ کو اپنے اندر محسوس کر رہی تھی، تم سے میرا انسانیت کے سوا کوئی تعلق نہیں تھا مگر تمہارے دکھ نے تین چار دن سے میرے دماغ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تم اس روز بھی معمول کے کام پر نکلے ہو گے، دل میں سوچ بھی آئی کہ اگر صاحب تمہیں ایک دن پہلے کام پر بلالیتے، اسی وقت اس گھڑی اگر تم یہاں ہوتے کہ جس وقت فرشتہ اجل نے تمہاری جان لینا تھی تومیںعمر بھر اس کیفیت سے نہ نکل پاتی۔ مگر موت کے وقت کے ساتھ ساتھ غالباً مقام کا تعین بھی مقرر ہے۔

مزدور کے ماتھے پر، محنت کا پسینہ ہے

ہر قطرہ ہے اک موتی، ہر بوند نگینہ ہے

تم محنت کا پسینہ ماتھے پر لیے ہر روز گھر جاتے ہو گے مگر اس یکم مئی کو تمہارے ماتھے پر تمہارا اپنا لہو موتیوں اور نگینوں کی مانند سجا ہو گا، یہ حادثہ تمہارے خاندان والوں کو صدمے کے نہ ختم ہونیوالے بحر بیکراں میں ڈبو گیا ہے۔ یکم مئی کو ہم جن مزدوروں کی یاد میں مزدوروں کا عالمی دن مناتے ہیں، تمہارا ان میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جانے کتنے ہی اسی طرح اب تک تاریک راہوں کے مسافر ہوئے ہیں مگر ان کا کہیں تذکرہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ کون سی اتنی اہم شخصیات ہیں۔ کاش اس ایک دن ہی ان مزدوروں کو اتنا اہم سمجھ لیا جائے کہ انھیں عوضانے سمیت چھٹی دے دی جائے، ہر اس جگہ سے جہاں وہ کام کرتے ہیں، سال میں فقط ایک دن کہ ان کے لیے تو نہ عید کو چھٹی ہے نہ کسی اور موقعے پر۔ اپنی بیماری ا ور تکلیف کو بھی پس پشت ڈال کر وہ کام کرتے ہیں تا وقتیکہ بیماری انھیں پچھاڑ کر بستر پر نہ ڈال دے، مگر گھر پر فاقے ہوتے ہیں تو اسی کو کمر باندھنا پڑ جاتی ہے ورنہ…

نظام بدلنے تک یہ درد بھی سہنا ہے

مزدورکے بچے کو مزدور ہی رہنا ہے

ایک اور بچہ… میرے اور آپ کے بچوں جیسا نازک اور معصوم، جسے کھیلنا چاہیے، اسکول جانا چاہیے، تعلیم حاصل کر کے بہتر شہری بننا چاہیے… حالات اس کے ہاتھ میں کدال اور بیلچہ پکڑا دیتے ہیں اور وہ پیٹ کا دوزخ بھرنے والوں کے گروہ کا ایک اور کارکن بن جاتا ہے۔ اس کا بچپن چھن کر مٹی، ریت اور سیمنٹ کے قبر نما ڈھیروں میں دفن ہو جاتا ہے۔

کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ ہم کام کرنے والوں کی عظمت کو تسلیم کرنے کی بجائے انھیں خود سے گھٹیا سمجھتے ہیں۔ گاؤں میں کام کرنے والوں کو کمی کمین کہا جاتا ہے… انھیں اسی طرح اچھوت اور کمترسمجھا جاتا ہے جیسے ان کے پیشے ان کا مذہب ہوں یا ان کی ذات جو ہماری اعلی ذاتوںسے کمتر ہیں۔ ہم خود تونکمے ہیں، ان کمیوں ، مزدوروں اور محنت کشوں کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں، اپنے گھروں میں ایک بلب تک نہیں لگا سکتے، لیک ہوتا ہوا ایک نل مرمت نہیں کر سکتے ۔ اپنے سجے ہوئے لان دیکھ کر خوش ہوتے ہیں مگر خود اس لان میں گرمی ا ور سردی میں گوڈی کرسکتے ہیں نہ پودوں کو پانی دے سکتے ہیں۔

دھوبی سے ہمیں بے سلوٹ استری کیے ہوئے کپڑے چاہئیں ، خانساماں کے ہاتھ کا پکاہوا کھانا، صفائی کے لیے بھنگی یا جمعدار۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب لوگ ہمارے محتاج ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے زیادہ ان کے محتاج ہیں ۔ وہ تو کام کرتے ہیں، کسب کر کے کماتے ہیں، اللہ نے ان کے رزق کا ہمیں وسیلہ بنایا ہے مگر ہم خود کو ان کے خدا سمجھ بیٹھتے ہیں، انھیں عوضانہ بھی احسان سمجھ کر دیتے ہیں۔ کام کرنے والے کی عظمت تسلیم کرنے میں ہی عظمت ہے۔ اور ہاں ایک خوشخبری تو آپ کو سنانا بھول ہی گئی کہ آئندہ برس ، یکم مئی کی چھٹی بدھ کے روز آ رہی ہے… چلیں آپ پلان کریں کہ ویک اینڈ کے ساتھ اس چھٹی کو ملا کر کیا پلان بنایا جا سکتا ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔