ایچ اقبال کی تصانیف - ایک جائزہ (آخری حصہ)

رئیس فاطمہ  اتوار 6 مئ 2018
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ایچ اقبال نے بڑی عرق ریزی سے داستان مکمل کی ہے۔ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب بہت مفید، کار آمد اور دلچسپ ہے۔ بہت سے لوگ اورنگ زیب کے بعد صرف بہادر شاہ ظفرؔ کا نام جانتے ہیں جب کہ ان دونوں بادشاہوں کے درمیان دس بادشاہ اور گزرے ہیں جن کے دور حکومت، غلام گردش کی محلاتی سازشیں اور اقتدار کے لیے بھائیوں کی گردنیں اڑوا دینے کی داستانیں ہیں۔ یہ ناول سراسر دلچسپیوں کا حامل ہے۔ مصنف نے سات ابواب میں ناول کو تقسیم کیا ہے۔ یہ ابواب مختصر تعارف بھی ہیں ۔ یہ سات ابواب ان عنوانات سے ہیں:

(1)۔ طوائف الملوکی:

اورنگ زیب کے بعد اس کا بیٹا محمد معظم بہادر شاہ تخت نشین ہوا اور پانچ سال تک حکومت کی۔ اس کے بعد حصول سلطنت کے لیے اس کے چاروں بیٹوں میں جنگ ہوئی۔ جہاں دار شاہ اپنے بھائیوں کو ختم کر کے تخت نشین ہوا، لیکن صرف دس ماہ اس کی حکومت رہی۔ اس کے بعد اس کے چچا زاد بھائی فرخ سیر نے تخت سنبھالا۔

(2)۔ باد شاہ گر:

فرخ سیر کے پانچ سالہ عہد کے بعد رفیع الدرجات اور رفیع القدر کی باری آئی۔ رفیع الدولہ کے بعد اورنگ زیب کا پوتا روشن اختر تخت نشین ہوا۔

(3)۔عروج و زوال:

شہزادہ روشن اختر نے ابوالفتح ناصر الدین محمد شاہ کا لقب اختیار کیا۔ محمد شاہ اتنا عیاش تھا کہ عوام میں اسے محمد شاہ رنگیلا کہاجانے لگا۔ اسی کے دور میں نادر شاہ افشار نے ہندوستان پر حملہ کیا۔

(4)۔خمیازہ تاج وری:

محمد شاہ کے 29 سالہ دور میں نادر شاہ نے نادر شاہی حکم سے خون میں نہلادیا۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھی۔ دلی کی گلیاں خون سے بھر گئی تھیں۔ نادر شاہ ایران واپس جاتے ہوئے محمد شاہ کی بیٹی کو اپنی بہو بنا کے لے گیا۔ ساتھ ہی تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا بھی اپنے ساتھ لے گیا۔

(5)۔مغلانی بیگم:

محمد شاہ کے بعد اس کا بیٹا احمد شاہ تخت پر بیٹھا۔ اس کی چھ سالہ بادشاہت کے بعد جہاں دار شاہ تخت نشین ہوا۔ اس کے دور میں احمد شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کیا۔ اس نے بھی ایک شہزادی کو اپنی بیوی اور دوسری کو اپنی بہو بناکر لے گیا۔ گویا یہ شہزادیاں بھی مال غنیمت تھیں۔ جو ہیرے جواہرات تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرے کی طرح ان کے قبضے میں آئیں۔

(6)۔ دور ابتلاء:

شہزادہ علی گوہر اپنے و الد عالمگیر ثانی کا ولی عہد تھا۔ اپنے والد کے خوفناک انجام کی خبر اسے اس وقت ملی جب وہ دہلی سے بہت دور تھا۔ اس نے شاہ عالم ثانی کا لقب اختیار کیا۔ بارہ سال انگریزوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا رہنے کے بعد دہلی پہنچ سکا۔

(7)۔آخری بادشاہ:

شاہ عالم ثانی کے بعد اس کا چھوٹا بیٹا شہزادہ اکبر، اکبر ثانی کے لقب سے مشہور ہوا اور تخت نشین ہوا۔ اس کا عہد مکمل طور پر انگریزوں کی سرپرستی میں گزرا۔ وہ صرف دہلی کا بادشاہ بن کر رہ گیا تھا اس کے بعد شہزادہ سراج الدین بہادر شاہ ظفرؔ بادشاہ بنا مجبور اور لاچار بادشاہ اور اس کے بعد مغلیہ سلطنت کا چراغ گل ہوگیا۔

ایچ اقبال صاحب کا یہ ناول بہت دلچسپ ہے۔ زبان و بیان کا کیا کہنا انھوں نے کفایت لفظی سے بھی کام لیا ہے۔ کتاب شروع کرنے کے بعد ختم کیے بغیر دل نہیں مانتا۔ وقت کے پیش نظر صرف ایک چھوٹا سا اقتباس پیش کروںگی جو ان کی کتاب کے پانچویں باب ’’مغلانی بیگم‘‘ کا ہے۔

’’اس کا اصلی نام ثریا بیگم تھا لیکن اس کی شہرت مغلانی بیگم کے نام سے ہوئی۔ وہ بڑی طرح دار عورت تھی۔ اسے دیکھ کر اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ اس کی بیٹی عمدہ بیگم نوجوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی ہے۔ بعض قیافہ شناسوں کا خیال تھا کہ مغلانی بیگم کی کٹورا سی آنکھوں میں بڑی حریفانہ قسم کی چمک رہتی ہے۔ اس چمک میں اس وقت اور اضافہ ہوجاتا تھا جب وہ امرائے دربار کی بیگمات میں سے کسی کو دیکھ لیتی۔ اس کے دل میں یہ ولولہ کسی آتش فشاں کی طرح گڑ گڑانے لگتا کہ اس کا شمار بھی ان ہی بیگمات میں کیا جانے لگے۔ جاہ پرستی جیسے اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ گو کہ خود اس کا تعلق بھی اچھے خاندان سے تھا اور اس کے شوہر کی حیثیت بھی کچھ کم نہ تھی لیکن مغلانی بیگم کے خواب زیادہ بڑے تھے۔‘‘

پھر یہی مغلانی بیگم یعنی ثریا محلاتی سازشوں کا آلۂ کار بن گئی اور ایک رات سب کچھ ختم ہوگیا۔ اس کی بیٹی عمدہ بیگم کو رسیوں سے جکڑا گیا اور عمادرالملک نے اس کی رسیاں کھولتے ہوئے مغلانی بیگم سے کہا ’’اگر تو زندہ رہی تو کبھی اپنی بیٹی کو آکر ضرور دیکھ لینا، یہ گہنا بیگم کی بڑی اچھی کنیز بنے گی‘‘

’’مغلانی بیگم وہاں اکیلی رہ گئی اس کی آنکھوں کی جاہ پرستانہ چمک تو کبھی کی ماند پڑچکی تھی ۔ عیاشانہ زندگی کی رہی سہی چمک بھی اب دھندلاچکی تھی۔آبرومندانہ زندگی سے تو اس نے اپنا ناتا میر منو کی وفات کے بعد ہی توڑ لیا تھا۔ کوئی ایسی ذلت بھری رات اس کا مقدر بنے گی یہ اس نے کبھی گمان بھی نہ کیا ہوگا۔ لاہور کے گلی کوچوں میں مغلانی بیگم کی کہانی بہت دنوں تک سنائی دیتی رہی۔

اس کے بارے میں اس قسم کے جملے بہت دن تک کہے سنے گئے۔

’’اس جیسی عورتوں کا انجام اکثر اتنا ہی بھیانک ہوتا ہے‘‘

’’اس رات وہ لوگ کون تھے‘‘

’’مغلانی بیگم نے اپنی دولت گھر میں ہی کہیں چھپا رکھی تھی‘‘

’’باقی زندگی اس نے کیسی گزاری ہوگی؟‘‘

’’کوئی کہہ رہا تھا اس نے راوی میں ڈوب کر خودکشی کر لی تھی‘‘

’’ارے نہیں اس نے باقی زندگی غلاماں کی سرائے میں گزاری تھی‘‘

’’مری بھی وہیں ہوگی‘‘

’’شاید‘‘

مغلانی بیگم اسی ’’شاید و باید‘‘ میں کہیں گم ہوگئی تھی اسے تلاش کرنے کا کوئی خواہاں نہیں تھا۔

(نوٹ: یہ مضمون آرٹس کونسل کی ایک تقریب ’’ایچ اقبال کے ساتھ ایک شام‘‘ میں پڑھا گیا۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔