کسی عاشق کے انتظار میں

عبدالقادر حسن  اتوار 6 مئ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اگرچہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کالم کے بارے میں کوئی پرانی یاد دماغ میں اچانک چونک اٹھتی ہے ایسی کوئی غیر ضروری یاد جب تک ذہن کے کسی گوشے میں زندہ رہتی ہے اسے دماغی فضول خرچی کہیں تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اس یاد کی حفاظت میں ذہن کا کوئی نہ کوئی گوشہ مصروف رہتا ہے اور دماغ اس کی یاد میں کھویا رہتا ہے۔

جب میں اپنے دماغ کے کسی کونے کھدرے میں محفوظ ایسی کسی پرانی یاد کو کبھی تازہ کرتا ہوں تو بعض اوقات تعجب ہوتا ہے کہ میں نے ذہنی پسماندگی کے اس دور میں کتنی فضول خرچی کر دی ہے جس کا نہ تو مجھے کوئی فائدہ ملا ہے اور نہ ہی قارئین کو وقت ضایع کرنے کا کوئی فائدہ ہوا ہے یعنی وقت جو ضایع ہوا ہے اس کی قیمت ادا کرنے والا کوئی نہیں یا پھر یوں کہیں کہ اس کی کوئی قیمت ہی نہیں تھی جس کو ادا کیا جاتا۔

پہلے تو یہ یاد دماغ کو ضایع کرتی رہی اور جب کاغذ پر منتقل بھی ہوئی تو قارئین کو اس کا کوئی فائدہ نہ ملا اگر کسی کو تھوڑا بہت فائدہ ہوا بھی تو وہ اس قدر نہ تھا کہ اس کی قیمت کا تعین ہی کر لیا جاتا۔ بہر حال یادیں امڈتی چلی آتی ہیں اور بعض یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہوتا ہے اور قارئین کو ان میں مزید کوئی دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے اس معاملے کو یہیں چھوڑتے ہیں۔

میرے وطن کے گوشے میں آج کل گھروں میں بیٹھے یا باہر گھومتے پھرتے ایک ہی تبصرہ جاری ہے کہ آئندہ الیکشن میں کیا ہوگا۔ ملک کے کسی بھی ٹکڑے میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیں ہر ایک کے دل و دماغ پر ایک ہی دھن سوار ہے۔

دیار وطن کے مختلف گوشوں میں گھومتے پھرتے اور اس کے در و دیوار کو پیار اور عقیدت کے مرکزوں اور گوشوں کو دل ہی دل میں تقسیم کرتے دل تو چاہا کہ کہ اپنی اس سرزمین کو عقیدت و محبت کے جتنے ٹکڑوں میں بانٹ لیں اور اپنے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو کہ جس کے ساتھ میرے جسم کا کوئی ٹکڑا چپکا ہوا نہ ہو یوں میں مجسم پاکستان بن کر پاکستان کی سرزمین پر یہ اعلان کرتا پھروں کہ اے پاکستانیوں اس دفعہ بلکہ ایک دفعہ ہی سہی اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے تو دیکھو کہ بدلے میں کیا ملتا ہے اور اگر اللہ پر یقین کامل ہو تو اس کی ذات کبھی اپنے بندے کو مایوس نہیں ہونے دیتی۔

میں خود یہ چاہتا ہوں کہ اب میں اس مہم یا سفر کا حصہ بن جاؤں جس کا پہلا قدم پاکستان کے بزرگوں نے اٹھایا تھا اور اس نئے وطن کو ایک معشوق کا درجہ دیا تھا وہ لوگ اور ان کی روحیں اب تک اس سرزمین کے عشق میں اسیر ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس وطن کو اپنے قریب کس طرح لے آئیں اور اسے اپنے وجود کا ایک مستقل حصہ ہی بنا لیں وہ اس سرزمین پر رہتے ہی نہیں اس کی مٹی سے عشق بھی کرتے ہیں اور اسے اپنے وجود کا ایک ٹکڑا بنا لینا چاہتے ہیں تا کہ کوئی ان میں تفریق نہ کر سکے اور ہمیں انھیں یک جان سمجھتے ہوئے کسی کو یہ نہ کہنا پڑے:

’’بعد ازیں من دیگرم تو دیگری‘‘

کہ پھر ہم کوئی اور آپ اور ہیں۔ پاکستان کے بزرگوں نے پاکستان کو معشوق کا درجہ دے کر حاصل کیا تھا کیونکہ کسی معشوق کے لیے انسان حد سے گزر جاتا ہے اور یہی ہمارے بزرگوں نے کیا اپنے عشق میں کامیاب ہوگئے اپنے معشوق کے ساتھ حد درجہ پیار بھی کیا لیکن ابھی معشوق کی جوانی ہی تھی کہ عاشق رخصت ہو گئے اور اپنے معشوق کو بیچ منجدھار ناپختہ عاشقوں کے حوالے کر گئے جنھوں نے اس معشوق کی وہ قدر نہیں کی جو اس کے پہلے عاشقوں نے کی تھی اس لیے معشوق کی حالت وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی گئی اور ایک وقت وہ بھی آگیا ہے کہ معشوق اپنے عاشقوں سے جان چھڑانے کی کو شش کرتا رہا مگر یہ اس کے خون کے پیاسے نام نہاد عاشق جونکوں کی طرح اس کے ساتھ چمٹ گئے اور عشق کے بجائے اس کا خون ہی پینے لگے جس سے یہ معشوق اس قدر لاغر ہو گیا کہ ہر جس کا جی چاہتا اس سے اپنا حصہ وصول کر لیتا اور معشوق کی معشوق والی حیثیت ختم ہوگئی اور عاشق بھی کھانے والے بن گئے جنھوں نے اس کے جسم کو کھا کھا کر ڈھانچے میں تبدیل کر دیا اور یہ ڈھانچہ ابھی بھی اپنے پرانے وقتوں بلکہ اپنے بزرگ عاشقوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے اس نے اپنے وجود کو کسی نہ کسی طرح برقرار رکھا ہوا ہے اس امید کے ساتھ کہ شاید کوئی ایسا عاشق آجائے جو اسے واقعی معشوق کا درجہ دے کر ایک بار پھر اس کو سجا سنوار دے اسی انتظار اور امید و بیم کی کیفیت میں یہ ڈھانچا اب تک موجود ہے۔

بات کسی سچے عاشق کی ہے عشق کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن ان میں سے بہت سارے عاشق تو ہمارے دیکھے بھالے ہیں جنھوں نے اپنی مطلب کا عشق کر کے اس کی یہ حالت کر دی ہے اب کسی نئے عاشق کی تلاش اور انتظار میں معشوق ایک بار پھر سج سنور اور سرخی پوڈر لگا کر بیٹھا ہے ایسے ہی جیسے بازار حسن میں طوائف روزانہ سج سنور کر کسی نئے گاہک کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے گاہگ آتا ہے اور اسے مزید ویران مسمار کر کے چلا جاتا ہے ایسا ہی حال کچھ اس پاکستان نامی معشوق کا بھی ہوا ہے کہ جو بھی آیا اپنی دکانداری چمکا کر چلا گیا۔

عاشقی اور معشوقی کا یہ کھیل پچھلے ستر سال سے جاری ہے اور جاری رہے گا عاشق تبدیل ہوتے رہیں گے اور بالآخر وہ وقت بھی جلد آئے گا جب کوئی سچا عاشق اپنے اس معشوق کو ڈولی میں بٹھا لے جائے گا۔ وہ وقت دور نہیں معشوق تیار ہے کسی سچے عاشق کی تلاش میں جس کا آنا یقینی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔