مارکس 200 برس کا ہوگیا

زاہدہ حنا  اتوار 6 مئ 2018
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کارل مارکس کی زندگی اور اس کے فلسفے پر انگریزی میں سیکڑوں کتابیں ہیں لیکن اردو میں ایسی کتابیں چند ہیں جو اس کی زندگی اور افکار پر روشنی ڈالتی ہیں۔ سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور ہمارے بعض دوسرے دانشورں نے مارکس کے بارے میں لکھا ہے۔

ماسکو سے اردو میں ایک ترجمہ شدہ کتاب ’’ایک عالی دماغ کی پیدایش‘‘ سامنے آئی اور اب ڈاکٹر پروین کلو کی کتاب ’کارل مارکس: زندگی فلسفہ و افکار‘‘ الحمد پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔ ڈاکٹر پروین کے والد غلام نبی کلو گزشتہ دہائیوں کے ایک اہم مارکسی رہنما تھے۔ سالہاسال پرانی بات ہے جب پاکستان مزدور کسان پارٹی کے غلام نبی کلو جریدہ ’روشن خیال‘ کے دفتر تشریف لائے، پروین ان کے ہمراہ تھیں اور اب صفدر حسین نے مارکس پر ان کی کتاب مجھے بھیجی ہے، جس کا ابتدائیہ ’محبت کا قرض‘ ہے۔

پروین نے لکھا ہے کہ ’’میرے والد تعلیم کو زندگی کا چراغ قرار دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ میں نے ان کی خصوصی توجہ، بے پناہ محبت اور کمال مہربانی کی بدولت بی اے، ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کیا۔ جن دنوں میں بی اے کررہی تھی اور اپنے امتحان کی تیاری کے لیے اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی، میں پڑھتے پڑھتے تھک گئی، تو میں نصابی کتب چھوڑ کر ذہنی طور پر تازہ دم ہونے کے لیے کارل مارکس پر لکھی جانے والی ایک کتاب پڑھنے لگی، اسی دوران والد میرے کمرے میں آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے۔

میں نے ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا، میں صبح سے اپنے امتحان کی تیاری کررہی تھی، میں تھک گئی تھی، میں نے تازہ دم ہونے کے لیے ابھی ابھی یہ کتاب اٹھائی ہے۔ میرے والد نے بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا بیٹا میں جانتا ہوں کہ تم کارل مارکس سے محبت کرتی ہو، میری ایک خواہش ہے جو میں پوری نہیں کرسکا، میں چاہتا ہوں جب تم اپنی تعلیم مکمل کرلو تب تم کارل مارکس پر ایک کتاب لکھنا۔

مجھے نہیں معلوم کہ تب تک میں زندہ رہوں گا یا نہیں، لیکن مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میری یہ خواہش پوری کروگی۔ میں نے اپنے والد کے ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیے اور کہا آپ کیسی باتیں کررہے ہیں، آپ کا سایہ خدا ہمیشہ ہمارے سر پر رکھے، میری آنکھوں میں نمی آگئی، میں نے کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں کہ میں آپ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گی۔ میری آنکھوں میں آج بھی نمی ہے، جب میں اپنے والد سے کیا ہوا وعدہ پورا کررہی ہوں، درحقیقت یہ میرے والد کی بے پناہ محبت کا تھوڑا سا قرض ہے جو میں نے اتارا ہے‘۔

مارکس جدید تاریخ کے ان افراد میں اہم ترین ہے جنھوں نے دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اس کے معاشی نظریات نے دنیا کو سر کے بل کھڑا کردیا۔ ہم میں سے بے شمار لوگ اس کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے، اس کے باوجود کوئی بھی تاریخ پر اس کے گہرے اثرات سے انکار نہیں کرسکتا۔

وہ انیسویں صدی کے جرمنی میں پیدا ہوا، اس کے اردگرد کی خیال انگیز فضا میں ادب، شاعری، فلسفے اور صحافت کا غلغلہ تھا، نوجوانوں کے سینوں میں بغاوت کی آگ بھڑکتی تھی، جس سے وہ پرانے نظام کو جلا کر راکھ کردینے کے لیے بے تاب تھے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کا بیٹا تھا، جہاں کتابیں زندگی کا ایک اہم جزو تھیں۔ اس کے روشن خیال باپ ہنرخ کی زندگی کسب معاش کی مصروفیتوں کے بعد یونانی، فرانسیسی اور جرمن فلسفیوں کے افکار و خیالات اور اعلیٰ کلاسیکی ادب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزری تھی۔

کارل نے آنکھ کھولی تو یہ علمی اور ادبی ماحول اس کے اندر رچ بس گیا۔ برطانوی ڈرامہ نگار شیکسپیئر سے اس کا عشق آغاز ہوا تو اس کی عمر بمشکل دس بارہ برس تھی، اس عشق کو ہوا ٹرائر کے ایک دانشور اور دولت مند بزرگ لڈوگ وان ویسٹ فالن نے دی، جس کے مارکس کے گھرانے سے خاندانی تعلقات تھے اور جو بعد میں اس کا خسر ہوا۔ جینی کے باپ کو کارل کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتوں سے گہری دلچسپی تھی، وہ اکثر نوعمر کارل کو اپنے ساتھ سیر کے لیے لے جاتا۔

دونوں سبزۂ نورستہ کی خوشبو سے بوجھل مرغزاروں میں گھنٹوں چہل قدمی کرتے اور اس دوران لڈوگ، ننھے کارل سے شیکسپیئر کے مکالموں کی ندرت اور انسانی نفسیات پر اس کی گرفت کے بارے میں باتیں کرتا چلا جاتا۔

جرمنی سے جلاوطن ہوکر مارکس لندن پہنچا تو شیکسپیئر کے لیے اس کی وارفتگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ جینی تو پہلے ہی اس عظیم ڈرامہ نگار کے سحرمیں گرفتار تھی۔ بچیاں ذرا بڑی ہوئیں تو کارل اور جینی نے انھیں بھی اس عشق میں مبتلا کیا۔ اس کے گھر آنے والے مارکس گھرانے کے اس شوق سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے گھر میں شیکسپیئر کے ڈراموں کی خواندگی کے لیے ایک انجمن کی نشستیں ہوتی تھیں جن میں یورپی تارکین وطن کے علاوہ انگریز بھی شرکت کرتے۔ اس کی جیب میں جب چار پیسے آتے تو وہ گھر والوں کے ساتھ تھیٹر کا رخ کرتا اور اس عہد کے بڑے اداکاروں اور اداکاراؤں کی فنی صلاحیتوں سے لطف اندوز ہوتا۔

ناولوں میں گم رہنا اس کا ایک ختم نہ ہونے والا شوق تھا۔ فیلڈنگ کا ’’ٹام جونز‘‘ سر والٹر اسکاٹ، الیگزنڈر ڈوما، بالزاک، غرض کسی بھی بڑے اہم یورپی ادیب کی کتاب اس کے مطالعے کے دائرے سے باہر نہیں تھی۔ زبانیں سیکھنے کا شوق بھی اسے ادب کے حوالے سے تھا۔ اس نے اپنا سارا تحریری کام جرمن، فرانسیسی اور انگریزی میں کیا لیکن مطالعے کے شوق نے اسے تمام یورپی زبانوں میں رواں کردیا تھا۔

پچاس برس کی عمر میں اسے روسی سیکھنے کا شوق ہوا اور صرف چھ مہینے میں اس نے روسی پر اتنی دسترس حاصل کرلی کہ وہ پشکن، گوگول اور دوسرے کلاسیکی روسی ادیبوں کو براہ راست پڑھنے لگا۔ فرانز مہرنگ نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ کسی قسم کے سیاسی یا سماجی تعصبات سے کام نہیں لیتا تھا۔ اور نہ بورژوازی اور پرولتاریہ کا جھگڑا اٹھتا تھا۔

حد تو یہ ہے کہ وہ مہم جوئی پر مشتمل ان داستانوں کو انتہائی ذوق شوق سے پڑھتا جنھیں دیکھ کر اس دور کے سکہ بند سوشلسٹ حقارت سے منہ موڑ لیتے تھے۔ مارکس کی بیٹی ایلیز نے لکھا ہے کہ شیکسپیئر کے ڈرامے ہمارے گھر میں بائبل کی حیثیت رکھتے تھے۔ 6 برس کی عمر میں اس کے کئی ڈراموںکے مکالمے مجھے ازبر تھے۔ پاپا نے ہم بہنوں کو ہومر کا سارا کلام سنایا تھا، اس کے علاوہ بھی بہت سی کتابیں انھوں نے ہمیں سنائیں جن میں سر وانٹس کی ’’ڈون کہوٹے‘‘ اور الف لیلہ سرفہرست ہیں۔

ایلیز مارکس نے باپ اور خاندان کے بارے میں جو یادداشتیں انگریزی میں لکھیں ان سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیسا کمال داستان گو تھا، وہ لکھتی ہے کہ پاپا ہمیں وہ داستانیں سناتے جو ہفتوں اور مہینوں جاری رہتیں۔ افسوس کہ وہاں کوئی نہ تھا جو اس داستان در داستان سلسلے کو لکھ لیتا۔ شاعرانہ انداز بیان میں نظموں کے ٹکڑے تھے، طنز ومزاح کا پیرایہ تھا۔ اس داستان میں ایک جادوگر تھا جس کی کھلونوں کی دکان تھی اور جس کا ہاتھ ہمیشہ تنگ رہتا۔ اس کی دکان میں کیسے دل موہ لینے والے کھلونے تھے۔ لکڑی کے مرد، عورتیں، دیوزاد اور بونے، بادشاہ، ملکائیں، کاریگر اور ان کے آقا، جانور، پرندے، یوں سمجھیں کہ وہ سب جو نوح کی کشتی میں سوار تھے۔

میز، کرسیاں، بگھیاں، ہر طرح کے صندوق، ہانس حالانکہ ایک جادوگر تھا لیکن وہ نہ بھوت کو کچھ دے سکتا تھا اور نہ قصائی کا ادھار ادا کرسکتا تھا۔ چنانچہ اپنے مزاج کے برخلاف وہ اپنے جادوئی کھلونے شیطان کے ہاتھ بیچنے پر مجبور ہوجاتا۔ یہ کھلونے مختلف مشکلوں سے دوچار ہوتے لیکن مشکل مہمات سر کرکے آخرکار وہ ہانس کی دکان میں ہی لوٹ آتے۔ ان کھلونوں کی بعض مہمات دہشتناک اور وحشت انگیز کرداروں سے اور کچھ مزاح اور چٹکلوں سے بھری ہوئی اور کچھ مضحکہ خیز ہوتیں لیکن پاپا انھیں کس جوش اور ولولے سے سناتے۔

وہ انیسویں صدی کے ایک ایسے بے مثال فلسفی کے طور پر سامنے آیا جس کے خیالات نے بیسویں صدی کی ایک عظیم مملکت اور مشرقی یورپ کے متعدد ملکوں کے خدوخال تشکیل دیے اور اس کا فلسفہ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے سرچشمۂ حیات بن گیا۔

لندن میں مستقل رہائش اختیار کرنے کے بعد اس نے ’’داس کیپٹل‘‘ کے علاوہ دوسری اقتصادی تحریروں اور مختلف زبانوں میں اپنے ادبی مطالعے کی جو یادداشتیں بنائیں وہ اس کی باریک لکھائی میں 50 ضخیم  جلدوں اور 30 ہزار صفحات پر مشتمل تھیں۔

یہ وہی مارکس ہے جس کے لیے اقبال نے کہا تھا:

آں کلیمِ بے تجلی، آںمسیحِ بے صلیب

نیست پیغمبر و لے دربغل دارد کتاب!

میں لاہور میں نہیں ہوں لیکن ابھی میری ڈاکٹر پروین کلو سے بات ہوئی ہے۔ وہ اب ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوچکی ہیں اور کارل مارکس پر یہ کتاب لکھ کر اپنے والد سے محبت کا قرض اتار چکی ہیں۔ اس وقت وہ کارل مارکس کی دو سو سالہ سالگرہ کاکیک کاٹ رہی ہیں۔ کارل مارکس نے بھلا کیوں سوچا ہوگا کہ اس کی سالگرہ لاہور میں منائی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔