علم و عمل میں عدم مطابقت

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ کالم میں راقم نے ماس کمیونیکشن سے متعلق دو نظریات (تھیوریز) مخروط خاموشی اور علم و عمل میں عدم مطابقت کا ذکر کیا تھا، تاہم بات صرف مخروط خاموشی کے نظریے پر ہی ختم ہوگئی تھی۔ علم و عمل کا نظریہ بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے اور اس کا اظہار ہمیں روزمرہ زندگی میں بھی نظر آتا ہے، چنانچہ عام لوگوں خصوصاً طالبعلموں کی رہنمائی کے لیے اس پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔

اس نظریہ کے مطابق ایک انسان کا یقین تو کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب عمل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو وہ عمل اس کے برعکس کرتا ہے۔ گویا یہ قول و فعل کے تضاد والی بات ہے۔ قول و فعل کا تضاد ہمارے معاشرے کی ایک بڑی برائی بھی ہے۔ اس کی ایک مثال عموماً سگریٹ نوشی کے حوالے سے دی جاتی ہے۔ اس مثال کے مطابق ایک شخص جو بخوبی جانتا ہے کہ سگریٹ نوشی سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے مگر وہ اس حقیقت کے باوجود سگریٹ پیتا ہے یوں اس کا عمل، اس کے علم کے برعکس ہوجاتا ہے۔

لیکن علم و عمل میں جب یہ فرق واقع ہوجاتا ہے تو بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی، اس کے نتیجے میں مزید تین ردعمل پیدا ہوتے ہیں جن کو ماہرین ابلاغ ’ترجیحی انتخاب‘، ’ترجیحی ادراک‘ اور ’ترجیحی یادداشت‘ کے نظریات کا نام دیتے ہیں۔

اب یہاں سے بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ موجودہ دور چونکہ میڈیا کا دور ہے اور ہر وقت، ہر انسان کسی نہ کسی شکل میں میڈیا سے مسلسل رابطے میں ہوتا ہے، یعنی وہ میڈیا سے پیغامات وصول کررہا ہوتا ہے، لہٰذا جب کسی شخص کے علم اور عمل میں عدم مطابقت پیدا ہوتی ہے تو وہ شخص میڈیا سے آنے والے پیغامات میں سے اس پیغام کا فوراً انتخاب کرلیتا ہے جو اس کے مذکورہ علم و عمل کی عدم مطابقت کو جواز مہیا کرتا ہو، مثلاً سگریٹ پینے والے کے سامنے میڈیا سے کوئی ایسا پیغام گزرے جس میں سگریٹ پینے کے حق میں کوئی دلیل یا فائدہ وغیرہ بیان کیا گیا ہو تو وہ شخص فوراً میڈیا سے آنے والے بہت سے پیغامات کو چھوڑ کر یہی پیغام وصول کرے گا، حالانکہ اس وقت میڈیا سے ایک نہیں سیکڑوں پیغامات آرہے ہوتے ہیں۔

پھر دوسرے مرحلے میں وہ ’’ترجیحی ادراک‘‘ کے نظریہ کے مطابق عقلی طور پر اس کو درست بھی سمجھے گا اور فوراً یقین بھی کرلے گا، نیز تیسرے مرحلے میں وہ ’’ترجیحی یادداشت‘‘ کے تحت اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ بھی کرلے گا، یعنی ترجیحی یادداشت کے نظریے کے تحت جو پیغامات انسان کے علم و عمل کے فرق کا جواز پیش کردے انسان اس کو ہی اپنی دانست میں درست سمجھتا ہے اور یادداشت میں ترجیحی طور پر شامل بھی ہوجاتے ہیں۔

بظاہر یہ باتیں قارئین کو غیر اہم اور خشک قسم کی محسوس ہورہی ہوں گی مگر میڈیا والوںکے لیے، خاص کر اشتہارات والوں کے لیے یہ ایک انتہائی اہم ہتھیار ہوتی ہیں اور ہماری سیاسی جماعتیں تک اس انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً ماضی کے ایک موقع پر جب عام انتخاب کی تیاریا ں عروج پر تھیں اور محترمہ بینظیر بھٹو کے مخالفین یہ باتیں کررہے تھے کہ ان کی پچھلی حکومت کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئی تھی اور یہ کہ ان کی جماعت کے اکثر لوگ کرپشن میں ملوث ہیں، انتخاب کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک اشتہاری کمپنی سے انتخابی مہم کے لیے خدمات لیں، اس کمپنی نے تحقیق کے بعد یہ نعرہ دیا ’’یااﷲ، یا رسول… بینظیر بے قصور‘‘۔

بعض اوقات یہ معاملات ایک انسان کے اپنے نظریات کو بھی پلٹ دیتے ہیں، کیونکہ کسی معاملے میں کسی فائدے وغیرہ کے لیے جب علم اور عمل میں فرق پیدا ہوجاتا ہے تو انسان اپنے مخالف نظریات کے پیغامات کا انتخاب کرتا ہے (یعنی اخباری مضامین اور ٹی وی پروگرام وغیرہ کی شکل میں) تاکہ اپنے عمل کا کوئی جواز ڈھونڈ کر پیش کرسکے۔ یوں اس عمل سے ایک شخص اپنے اصل نظریات سے بھی دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں خواتین کا گھر سے باہر کردار ادا کرنے کا کوئی کلچر اور نظریہ نہ تھا، مگر حال ہی میں جب وہاں اس کے برعکس تبدیلی کا عمل شروع کیا گیا تو یہ بیانیہ دیا گیا کہ اس سے معیشت مضبوط ہوگی، چنانچہ یہ پیغام ان لوگوں کے لیے قابل انتخاب، قابل ادراک اور قابل یادداشت بھی ہوگیا کہ جن کا علم خواتین کے بارے میں کچھ اور تھا اور اب عمل کچھ اور ہوگیا۔

ہمارے معاشرے میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لوگ اپنے ذاتی فوائد کے لیے اپنے اصولوں پر بھی سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور پھر اپنے علم اور عمل کے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے جواز تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ مثلاً کچھ عرصہ پہلے جب پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے ووٹنگ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ملک کی بڑی بڑی جماعتوں کے ممبران نے بھی اپنے ووٹوں کا غلط استعمال کیا اور خود جماعتوں نے بھی اپنے اصولوں کے برعکس اپنے ممبران کو ووٹ ڈالنے کا حکم دیا۔

ایک پارٹی کے سربراہ اس بات پر بڑے ناراض تھے کہ ان کی پارٹی نے کیوں ان کی مرضی کے خلاف کسی اور پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے دیا اور اس واقعے کے خلاف انھوں نے ایک انکوائری بھی بٹھا دی، مگر خود انھوں نے بھی دوسری پارٹی کے ممبران سے گٹھ جوڑ کرکے اپنی مرضی کے ووٹ لیے۔ میڈیا میں ووٹ کی خریداری کے لیے کروڑوں روپے کی رشوتوں کا بھی کھل کر ذکر ہوا مگر تمام جماعتوں کے رہنماؤں (جنھوں نے اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا) اپنے اس عمل پر یعنی علم اور عمل میں عدم مطابقت پر کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ ہی لیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ان کے علم اور عمل میں کوئی فرق نہیں۔

آج یہی کچھ عوامی سطح پر بھی ہورہا ہے، ہر دوسرا شخص غلط کام کرتا نظر آتا ہے، ایک دودھ فروش سے لے کر بڑے کاروباری شخص تک ایماندار اور اصولی لوگ کم ہی ملتے ہیں، سرکاری دفتروں میں رشوت اور غلط دھندے عام ہیں، جب کہ ہم سب کا مذہب اور نظریہ ایمانداری کا ہے، اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا ہے، مگر افسوس ہم میں سے اکثر علم اور عمل میں عدم مطابقت ہی نہیں رکھتے بلکہ فائدہ در فائدہ اٹھانے کے لیے یہی عمل صبح و شام کرتے ہیں اور ایسے پیغامات (جواز) کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جن سے ثابت کرسکیں کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہیں۔ آئیے غور کریں، کہیں میں اور آپ تو اس میں شامل نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔