کاش پاکستان کپ انگلینڈ یا دبئی میں ہوتا

پی ایس ایل میں تو خوب رقم خرچ کی جاتی ہے تھوڑی یہاں بھی کر دیتے تو کیا ہو جاتا۔


Saleem Khaliq May 08, 2018
پی ایس ایل میں تو خوب رقم خرچ کی جاتی ہے تھوڑی یہاں بھی کر دیتے تو کیا ہو جاتا۔ فوٹ: پی سی بی

''کب آ رہے ہیں آپ فیصل آباد سے واپس'' میں نے بورڈ کے ایک آفیشل سے پوچھا،''فیصل آباد وہاں کیوں ارے ہاں وہ ٹورنامنٹ چل رہا ہے پاکستان کپ، وہاں میرا کیا کام،میں تو لاہور میں ہی ہوں'' یہ ان کا جواب تھا،'' اچھا پھر دبئی اور انگلینڈ وغیرہ کے ایونٹس میں آپ کا کیا کام ہوتا ہے'' میں اگلا سوال یہ کرنا چاہتا تھا مگر احتراماً خاموش رہا، پھر میں نے پتا لگایا کہ بورڈ کا کون کون سا بڑا آفیشل ٹورنامنٹ کے دوران فیصل آباد گیا تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی کہ کوئی نہیں گیا۔

سخت گرمی میں کون وہاں جانے کی زحمت گوارا کرتا،چیف سلیکٹر انضمام الحق کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اپنے اے سی والے کمرے سے نکل کر اسٹیڈیم جاتے، ہاں اب انگلینڈ میں کھلاڑیوں کی ''کارکردگی'' کا جائزہ لینے سیریز شروع ہونے سے قبل ہی پہنچ گئے ہیں۔

ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، جہاں انگلینڈ میں کوئی میچ ہو چیف سلیکٹر وہاں سب سے پہلے موجود ہوتے ہیں حالانکہ اب انھیں کون سی ٹیم منتخب کرنا ہے، مگر مفت میں بزنس کلاس کا ٹکٹ، پاؤنڈز میں ڈیلی الاؤنس و دیگر سہولتیں مل رہی ہوں تو کون چھوڑتا ہے، ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید نے بھی کسی میچ میں جانے کی زحمت گوارا نہ کی، میری کئی لوگوں سے بات ہوئی جنھوں نے بتایا کہ جس وقت دوپہر کو پاکستان کپ کا میچ شروع ہوتا درجہ حرارت42 ڈگری تک پہنچ چکا ہوتا تھا۔

اتنے گرم موسم میں نجانے کس''عقلمند '' کے کہنے پر داخلہ ٹکٹ بھی رکھ دیا گیا اسی لیے فائنل کے سوا تمام میچز میں اسٹیڈیم میں الو بولتے رہے، فائنل چھٹی کے دن ہونے، بہتر موسم اورگلوکار فاخر کی پرفارمنس نے کراؤڈ کو متوجہ کیا، پی ایس ایل میں پورا پی سی بی دبئی چلا جاتا ہے، جب کبھی آڈٹ ہوا تو پتا چلے گا کہ کروڑوں روپے تو آفیشلز کے دوروں پر پھونک دیے گئے۔

اسی طرح انگلینڈ سے سیریز میں آپ دیکھیے گاکتنے سارے لوگ جائیں گے مگر اپنے ملک کے ٹورنامنٹ میں کسی کو دلچسپی نہیں، یہاں ڈومیسٹک کرکٹ صرف رسمی کارروائی پوری کرنے کیلیے کرائی جاتی ہے، یہی پاکستان کپ اگر انگلینڈ یا دبئی میں ہوتا تو یقین مانیے بورڈ آفیشلز میں وہاں جانے کیلیے لڑائیاں ہو رہی ہوتیں، اس بار صرف میڈیا ڈپارٹمنٹ کی ہی تعریف کرنا چاہیے جنھوں نے بروقت تصاویر، ویڈیوز اور میچ رپورٹس میڈیا کو ارسال کیں۔ سلیکٹرز کے ویژن کا آپ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ احمد شہزاد، شعیب ملک، عمر امین، کامران اکمل اور محمد حفیظ کو قیادت سونپی گئی۔

ان میں سے بیشتر کی اب زیادہ کرکٹ باقی نہیں رہی،ایسے ایونٹ میں آئیڈیل تھا کہ آپ نوجوانوں کو کپتان بنا کر گروم کرتے مگرافسوس ایسا نہ ہوا، ٹورنامنٹ دیکھ کر ایسا محسوس ہواکہ پاکستان کے بیٹنگ میں مسائل ختم ہونے والے ہیں، ڈان بریڈمین کے معیار کے بیٹسمین ہمیں مل گئے ہیں،11 میچز میں 15 سنچریاں اور32 نصف سنچریاں بنیں،12 بار ٹیموں نے300 کا ہندسہ عبور کیا، بولرز میں وقاص مقصود (14) اور ضیا الحق (11) کے سوا کسی کو 10 وکٹیں نہ ملیں،پورے ٹورنامنٹ میں صرف2 بار کسی بولر نے5 یا زائد کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

ٹورنامنٹ کے کیوریٹر کو راولپنڈی سے فیصل آباد بلایا گیا تھا، یقیناً لوگ چوکے چھکے دیکھنا چاہتے ہیں مگر ایسی پچز بھی نہ بنائیں جہاں بولرز اپنے بال نوچتے رہیں، گیند اور بیٹ کے درمیان اچھا مقابلہ ہونا چاہیے، یہاں رنز کے ڈھیر لگانے والے بیٹسمین جب دیار غیر میں ذرا سی مشکل وکٹ پر کھیلیں تو پریشان ہو جاتے ہیں، ایسی پچز پی ایس ایل کے دوران بنائیں تو مزا بھی آئے، وہاں ہائی اسکورنگ میچز نہ ہونے پر کہا جاتا تھا کہ بولنگ زبردست ہے۔

اب وہی بولرز پاکستان کپ میں ہاتھ ملتے نظر آئے، چونکہ قومی ٹیم برطانیہ روانہ ہو چکی تھی لہذا ٹورنامنٹ کے دوران نوجوان کھلاڑی زیادہ جان لڑاتے دکھائی نہیں دیے، ان کو پتا تھا کہ کچھ بھی کر لیں اب کون سا ٹیم میں فوراً نام آئے گا،ایک اور بات بھی محسوس کی گئی کہ پی سی بی کے مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ نے زیادہ تشہیر سے گریز کیا، کئی بڑے کھلاڑی ایکشن میں نظر آئے اس لحاظ سے شائقین کو اسٹیڈیم آنا چاہیے تھا، پی ایس ایل میں تو خوب رقم خرچ کی جاتی ہے تھوڑی یہاں بھی کر دیتے تو کیا ہو جاتا، جب تک آپ خود اپنی کرکٹ کو اہمیت نہیں دیں گے کسی اور سے بھی کوئی امید نہیں رکھیں،ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک میں بڑی غیر ملکی ٹیموں کو بھی آنا چاہیے۔

پاکستانی کرکٹ کو ترسے ہوئے ہیں، دوسری طرف جب ٹی وی پر غیرملکی اگر کبھی پاکستان کپ جیسے ٹورنامنٹ کا کوئی میچ دیکھیں تو گراؤنڈ خالی دیکھ کر یہی کہتے ہوں گے کہ یہ تو بالکل الٹ صورتحال ہے، لہذا ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ شائقین میچزکی جانب راغب ہوں، بورڈ کے پاس ویسے ہی بہت پیسہ ہے لہذا ایک، آدھ ٹورنامنٹ میں اگر کراؤڈ کا داخلہ مفت کر دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔

اعلیٰ حکام کو ڈومیسٹک میچز میں جانا چاہیے تاکہ دیگر کو بھی ڈر رہے اور وہ انتظامات میں کوئی کوتاہی نہ برتیں،چیف سلیکٹر کو بتائیں کہ ملکی اسٹیڈیمز میں اے سی والے کمرے ہیں وہاں انگلینڈ جیسا ماحول سمجھ کر کچھ وقت تو گذارنے آ جایا کریں، ہر ماہ کئی لاکھ روپے صرف اس لیے تھوڑی ملتے ہیں کہ سال میں چار، پانچ بار پاکستانی ٹیم تشکیل دے دیں، ڈومیسٹک ایونٹس کو بھی اہمیت دیا کریں۔

اسی طرح بورڈ کو شیڈول بناتے ہوئے موسم اور دیگر عوامل بھی ذہن میں رکھنے چاہیں، ایونٹ کی مناسب تشہیر کریں تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ ان کے شہر میں اسٹارز کھیل رہے ہیں، بچوں کیلیے مختلف ایکٹیوٹیز رکھیں، فائنل کی طرح گلوکاروں کی پرفارمنس دیگر میچز میں بھی رکھیں،شائقین میں شرٹس،کیپس وغیرہ تقسیم کریں،بذریعہ قرعہ اندازی بڑے انعامات بھی دیں،اپنی خزانے سے رقم خرچ نہیں کرنی تو اسپانسرز ڈھونڈیں، فیصل آباد میں بھی کئی ایسی بڑی شخصیات موجود ہیں جو چند لاکھ روپے کے انعامات آسانی سے دے دیتیں۔

اسی صورت چند ہزار لوگ شاید میچ دیکھنے آ جایاکریں، یہ حقیقت ہے کہ ڈومیسٹک میچز میں کبھی ہاؤس فل نہیں ہوتا مگر اسٹیڈیم ایسے خالی بھی نہیں رہتے، لہذا بورڈ کو مستقبل میں ایسی شرمندگی سے بچنے کیلیے مناسب حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں