باغ بہشت میں!

سردار قریشی  بدھ 9 مئ 2018

بچوں کو جیسے ہر کام  اور دوسروں سے آگے نکلنے کی بہت جلدی ہوتی ہے، ویسے وہ نظر بچا کر باغ بہشت میں بھی بڑوں سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ شاید وہ اسے کسی چڑیا گھر، سفاری پارک یا ساحلِ سمندرکی طرح کا کوئی تفریحی مقام سمجھتے ہیں اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے، وہاں جا کر اس کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو چھ ماہ کے مختصر عرصے میں مجھے اپنے دو بہت ہی پیارے اور عزیز بچوں کے بچھڑنے کا جان لیوا صدمہ نہ سہنا پڑتا۔ اللہ کسی دشمن کو بھی اولاد کا دکھ نہ دکھائے۔ پچھلے ستمبر میں میری بھتیجی رابعہ جہانزیب اپنے والدین اور بھائیوں بہنوں کے علاوہ پانچ چھوٹے چھوٹے پھول سے بچوں کو روتا بلکتا چھوڑکر وہاں پہنچی تھی اور ابھی اس کا کفن میلا بھی نہ ہوا تھاکہ کینیڈا میں مقیم میری بھانجی ڈاکٹر ساجدہ ارسلان برکی بھی ہمیں داغِ مفارقت دے کر وہاں اپنی کزن سے جا ملی ہے۔

میں چشم تصور سے دونوں کو ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کبھی جنت کی معطر فضاؤں میں پریوں کی طرح محو پرواز توکبھی رنگ برنگے خوشبودار پھولوں کی کیاریوں میں چہل قدمی کرتے اور کسی گھنے سایہ دار، پھلوں سے لدے تناور درخت کی شاخ میں پڑے جھولے میں اس طرح ’’ہوٹے‘‘ لیتا دیکھتا ہوں کہ فرشتے انھیں جھولا جھلا رہے ہیں اور جنت الفردوس کی فضاؤں میں ہر طرف ان کے قہقہے گونج رہے ہیں ۔ انھیں کون سمجھائے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ جگہ تخلیق کی ہے، اپنے پیارے بندوں کے دائمی آرام و سکون کے لیے ہے جہاں انھیں ہمیشہ رہنا اور اس کی لازوال نعمتوں، برکتوں، راحتوں، لذتوں اور آسائشوں سے مستفید ہونا ہے، پھر انھیں اتنی جلدی کس بات کی اورکیوں ہے، اگر وہ ذرا صبر سے کام لیں، دنیوی زندگی کی مشقتوں سے تھکے ہارے اور مصائب کے مارے بزرگوں کو پہلے جاکر آرام کرنے دیں اور خود اپنی باری کا انتظار کریں تو اس میں کیا حرج ہے ؟

لیکن نہیں، انھیں یہ بات سمجھ نہیں آتی، آگے نکلنے کی جلدی میں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے سہارے بڑھاپا گذارنے کی آس لگائے بیٹھے،ان بزرگوں اور ان سے بھی زیادہ خود ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں پرکیا بیتے گی ، جنھیں اس وقت (جب انھیں مہم جوئی کی سوجھی) ان کے ساتھ کی اشد ضرورت تھی اور جو ان کے بغیر جینے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پر شاید یہ ان کے بس اور اختیار میں نہیں، بچوں کا اس میں کوئی قصور بھی نہیں، موت کا ایک دن اور وقت معین ہے، جب جس کی باری آتی ہے اسے آگے بڑھنا ہوتا  ہے۔ باری سے یاد آیا ، موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کا ہر ذی روح کو ذائقہ چکھنا ہے سو جب جس کی باری آتی ہے اسے آگے بڑھ کر اس کو گلے لگانا پڑتا ہے۔

ایک مشہورکہاوت ہے کہ روزی حیلے سے ملتی اور موت بہانے سے آتی ہے۔ رابعہ کی طرح ساجدہ کی موت کا بہانہ بھی سرطان (کینسر) کا موذی مرض بنا، پردیس میں ہونے کے باوجود وہ گزشتہ کئی سالوں سے بڑی ہمت، حوصلے اور بہادری سے اس کا مقابلہ کر رہی تھی اور بالآخر اس کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہارگئی۔ ساجدہ خود بھی ڈاکٹر تھی ، اس عارضے کی سنگینی اور اس سے لاحق خطرات سے نہ صرف باخبر تھی بلکہ نہایت سنجیدگی اور باقاعدگی سے اپنا علاج بھی کروا رہی تھی۔

اس کے مرض کی تشخیص تو کینیڈا نقل مکانی کرنے سے پہلے پاکستان ہی میں ہو گئی تھی، علاج بھی ہو رہا تھا۔ پھر ایکا ایکی اس کو فیملی کے ساتھ کینیڈا منتقل ہونا پڑا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ وہ نواب شاہ سے بیاہ کر تو فیصل آباد گئی تھی لیکن اس کی قسمت میں سات سمندر پار کینیڈا کی مٹی میں دفن ہونا لکھا تھا سو موت اسے وہاں لے گئی اور آئی بھی تو ایسی بیچارگی اور کسمپرسی کی حالت میں کہ بوڑھی ماں اور بہن بھائیوں سمیت ددھیالی اور ننہیالی رشتہ داروں میں سے کوئی اس کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا چہ جائیکہ اس کی تجہیز وتکفین میں شریک ہوتا اور اس کے جنازے کو کندھا دیتا۔ اس پر مجھے سہگل کا گایا ہوا گانا ’’ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے، اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے‘‘ یاد آگیا جو ہم لڑکپن میں ریڈیو سیلون سے سنا کرتے تھے۔

اْس نے ابھی دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا، اپنے دو بچوں کو پالنے پوسنے میں ہی زندگی بِتا دی اور ان کی خوشیاں دیکھنے سے پہلے آنکھیں موندلیں۔ بھلا بتاؤ، یہ بھی کوئی بات ہے ، کوئی ایسے بھی کرتا ہے کیا؟ جانے کی ایسی بھی کیا جلدی تھی؟ جانا تو ایک دن سب نے ہوتا ہے لیکن ہر کام کی طرح موت کو گلے لگانے کے وقت کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے۔ رویا تو بوڑھوں کی جدائی پر بھی جاتا ہے کہ یہ ان کے ساتھ رشتہ اور تعلق کا فطری تقاضا ہے لیکن جوان موت کا دکھ بھلائے نہیں بھولتا۔ بھرپور زندگی گذار کر دار فانی سے کوچ کر جانے والوں کی جدائی نہیں رلاتی، ان کے ساتھ گذارے ہوئے دنوں کی یادیں آنسو بہانے کا سبب بنتی ہیں جب کہ بچوں کا یوں اچانک روٹھ جانا ، منہ موڑ لینا اور اپنوں پرایوں سب سے اچانک قطع تعلق کرلینا وابستگان خصوصاً بزرگوں کی کمر توڑ دیتا ہے، ان کا جینا دو بھر کر دیتا ہے اور زندگی میں ایسا خلا پیدا کردیتا ہے جو کبھی پْر نہیں ہوتا اور انھیں خون کے آنسو رلاتا رہتا ہے تا آنکہ وہ خود ان کے پاس جاکر ان سے مل نہ لیں۔

ساجدہ کے دونوں بچوں زرغام (جسے میں نقلی پٹھان کہہ کر چھیڑا کرتا تھا) اور دْر زرناب کو بچپن کی منزلیں طے کرکے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھے ابھی دن ہی کتنے ہوئے تھے کہ انھیں اپنی ماما کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا ہے۔ پچھلے رمضان المبارک میں جب ساجدہ اپنی کزن رابعہ جہانزیب کے پْرسے کے لیے کراچی آئی تھی  تو اس کا شوہر ارسلان اور دونوں بچے بھی ہمراہ تھے۔ بچوں نے مستقبل کے حوالے سے کیا کیا سہانے سپنے دیکھ رکھے تھے اس کا کچھ اندازہ ان کی باتوں سے ہوتا تھا، وہ اپنی ماما سے جس قسم کی جذباتی وابستگی رکھتے تھے وہ بتانے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ان کے تمام خواب، منصوبے اور ارادے اپنی ماما سے جڑے ہوئے تھے جو سب اس کے جانے سے بکھر گئے ہیں۔ اْن پر کیا گزرتی ہوگی، میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں۔ میں نے زرغام سے پوچھا نیاگرا فال دیکھنے گئے تو بولا نانا دعا کریں ماما جلدی سے ٹھیک ہوجائیں، پھر ان کے ساتھ دیکھنے جائیں گے۔

آئیے ایک بار پھر ان دونوں جنتی سہیلیوں، ساجدہ ارسلان اور اس کی کزن رابعہ جہانزیب کو چشم تصور سے ’’موج مستیاں‘‘ کرتے دیکھنے باغ بہشت چلتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں جو ان کے ساتھ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے خوش گپیاں لگا رہے ہیں، ارے یہ ساجدہ کے ساتھ تو اس کے دادا، تایا، تائی،ابو، بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز اور بھانجا عثمان ہیں جن کی آواز تو سنائی نہیں دے رہی لیکن ان کی حرکات وسکنات سے لگتا ہے جیسے وہ ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہورہے ہوں اور آپس میں ہنسی مذاق کر رہے ہوں۔ مجھے ارسلان کی بات یاد آگئی، ساجدہ کی وفات پر تعزیت کرنے کے لیے میں نے اسے کینیڈا فون کیا تو اس نے چھوٹتے ہی کہا: ماموں،آپ کی ساجدہ چلی گئی۔

وہ بھائی اعجاز کی لاڈلی تھی نا، انھی کے پاس چلی گئی۔ دوسری ٹولی میں ساجدہ کی کزن رابعہ جہانزیب اپنے دادا، دادی، دو پھوپیوں اور چچا رضا کے ساتھ بیٹھی لوڈو کھیل رہی ہے۔ اْس کی دادی کو یہ کھیل بہت پسند تھا بس اپنی گوٹیاں مارنے نہیں دیتی تھیں، جہاں کسی نے یہ جرات کی وہ بساط ہی الٹ دیا کرتی تھیں کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔اماں رابعہ کو چاہتی بھی بہت تھیں، آخر کو وہ ان کے حج کی نشانی تھی اور اس وقت پشاور میں پیدا ہوئی تھی جب وہ فریضہ حج ادا کرنے حجاز مقدس گئی ہوئی تھیں۔ اچھا بیٹا ساجدہ اور رابعہ! ہم سے پہلے   باغ  بہشت پہنچ گئی ہو تو خوب کھیلو،کودو اور مزے کرو۔ تمہیں جنت کی حسین وادیاں، پھل اور مشروبات مبارک ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔