غیرملکی سفارتکاروں کا سوال

نصرت جاوید  جمعرات 18 اپريل 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے ہاں ضرورت سے بہت ہی زیادہ بھاشن دینے والے خود ساختہ ’’محب وطن‘‘ پارسائوں کو پورا یقین ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں سے ملنے والے صحافی اس مشروب کے مفت میں مل جانے کی تڑپ میں مبتلا رہتے ہیں جس کا استعمال یا تعریف کرنا 62\63 کی زد میں آتا ہے۔ 62/63 کی خلاف ورزی تو شاید ایک حد تک نظرانداز کی جا سکتی ہے۔ مگر اس سے بھی زیادہ خوفناک خدشہ اس بات کا رہتا ہے کہ غیر ملکیوں سے ملنے والا آہستہ آہستہ ان کا ایجنٹ بن جاتا ہے۔

پاکستان کے دشمن ممالک ایسے ایجنٹوں کو اس ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ان سے حساس معلومات اِکٹھی کرتے ہیں۔ محب وطن پارسائوں کے ان خدشات کو دور کرنے کی خاطر ہمارے بہت سارے ’’حساس‘‘ ادارے کم از کم اسلام آباد میں تو بڑے متحرک رہتے ہیں۔ آپ کسی ایسی سفارتی تقریب میں چلے جائیں جو ہمارے دوست نہ سمجھے جانے والے ملک نے منعقد کی ہو تو وہاں جاتے اور نکلتے وقت تین چار اہلکاروں کا ایک گروہ آپ کو گھیر کر آپ کی ذات کے بارے میں تمام کوائف جاننا چاہتا ہے۔

آپ نخرہ کریں تو دوسرے روز ان ہی میں سے کوئی ایک آپ کے گھر آ دھمکتا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے گویا تفتیش شروع کر دیتا ہے۔ قومی سلامتی کے نام پر کی جانے والی اس تفتیش سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ 1981ء سے مسلسل انگریزی اخباروں کے لیے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے میں اکثر ایسی تفتیش بھگتا کرتا ہوں۔ پہلے پہل تو بڑا غصہ آتا تھا اور بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ جایا کرتی تھی پھر وقت کے ساتھ ساتھ قویٰ معتدل ہو گئے۔ اب کوئی آئے تو کھلے دل سے اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔

اس کے سوالات خندہ پیشانی سے سنتا ہوں اور دل ہی دل میں پریشان ہوتا رہتا ہوں کہ میرے ملک کی سلامتی کے محافظ بنے لوگوں کی معلومات خوفناک حد تک فروعی ہی نہیں اکثر معاملات میں قطعی غلط بنیادوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ایسے اہلکاروں کے افسران کے ساتھ بھی سماجی تقاریب میں واسطہ رہتا ہے۔ چند ایک تو اب پرانے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جب کبھی ان سے تذکرہ کیا تو صرف ہنس دیے اور مجھے سمجھانے کی کوششیں کی کہ ایسی تفتیش کا اصل مقصد لوگوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے دوست نہ سمجھے جانے والے سفارتکاروں سے میل ملاقات بڑھانے سے اجتناب برتیں اور یہ مقصد اکثر صورتوں میں پورا ہو جاتا ہے۔

میرے سلسلے میں یہ نسخہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ رپورٹنگ سے میرا رزق وابستہ ہے اور خارجہ امور ان شعبوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں لکھنا اور بولنا میری ذمے داری سمجھا جاتا ہے۔ میں اس ذمے داری کو پورا نہ کر سکوں تو گھر کیسے چلائوں گا۔ اپنے رزق کی مجبوریوں سے قطع نظر میں بڑی سنجیدگی سے یہ بات بھی جان چکا ہوں کہ غیر ملکی سفارتکاروں سے ملے اور بات چیت کیے بغیر آپ ایک اچھے صحافی بن ہی نہیں سکتے۔ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو صحافی اور سفارتکاروں کا دھندا ایک جیسا ہے۔ دونوں کا فرض خبریں اکٹھی کرنا اور ان کا تجزیہ کرنا ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ میں جو خبر ڈھونڈوں گا وہ یا اس کی بنیاد پر کیا ہوا تجزیہ آپ اس کالم میں پڑھ پائیں گے۔ کوئی سفارتکار اپنے ہیڈ کوارٹر کو جو کچھ بھیجتا ہے اس تک رسائی صرف چند لوگوں کا حق ہوا کرتی ہے ۔ ’’وکی لیکس‘‘ نے البتہ یہ MYTH بھی توڑ دی ہے۔ کبھی وقت ملے تو پاکستان کے بارے میں لکھی کسی بھی رپورٹ کو پڑھ لیجیے۔ اس رپورٹ کا انداز بالکل ایسا ہے جو رپورٹر خبر دیتے ہوئے اپناتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس میں لکھی ہوئی انگریزی زیادہ چست اور گرائمر کے قوائد پر پورا اُترتی ہے۔ تھوڑی سی برتری قوتِ مشاہدہ کے معاملے میں بھی ہے۔

اس سب کے باوجود ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ ’’وکی لیکس‘‘ کے نام پر جو کچھ افشاء کیا گیا اس میں ہمارے عام آدمی کے لیے واقعی کوئی ’’خبر‘‘ بھی تھی۔ ہرگز نہیں۔ کسی بھی ان پڑھ قبائلی سے مل لیجیے۔ وہ بے چارہ تو ’’وکی لیکس‘‘ کے منظر عام پر آنے سے کئی برس پہلے سے چیخ رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے ہماری حکومت کی منظوری اور کسی نہ کسی سطح کی مدد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتے۔ ’’وکی لیکس‘‘ میں افشاء کی گئی باتوں نے تو بلکہ عام لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے شبہات کے ٹھوس ثبوت فراہم کر دیے ہیں۔

صحافی اور سفارتکار جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ان میں ایک بہت ہی خوشگوار مگر منافقانہ چپقلش جاری ہو جاتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے خبریں اُگلوانے کی کش مکش میں اُلجھ جاتے ہیں۔ اچھا صحافی وہ ہے جو اس ملاقات کے بعد خبریں دے کر نہیں لے کر آئے اور یہی قصہ سفارتکار کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ صحافی اور سفارتکار کے پیشہ وارانہ تعلق کی وضاحت کے بعد مجھے بتانا آپ کو یہ ہے کہ اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں کی اکثریت نے طے کر لیا ہے کہ 11 مئی کے انتخابات ٹالے نہیں جا سکتے۔ ان انتخابات کے نتائج آ جانے کے بعد کیا ہو گا اس کے بارے میں کوئی ایک سفارتکار بھی اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہہ رہا۔

بتدریج ان کی اکثریت یہ تو کہنا شروع ہو گئی ہے کہ بظاہر نواز شریف کی ’’گڈی‘‘ چڑھ رہی ہے۔ مگر انھیں آیندہ کے وزیراعظم کی صورت دیکھنا چاہیے یا نہیں یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈا جا رہا ہے۔ عمران خان کی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ٹھوس اُٹھان کا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ایک سوال بھی کرنا شروع ہو گئے ہیں جس نے مجھے پریشان ہو کر یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ میں ان کا سوال آپ کی نذر کر کے ختم کرتا ہوں۔ ’’اگر تحریک انصاف کو انتخابات میں اتنی سیٹیں نہ ملیں جس کی وہ توقع کر رہی ہے تو کیا انتخابی نتائج کو مان لیا جائے گا؟ اگر نہیں تو کیا پنجاب میں 1977ء جیسی کوئی تحریک تو نہیں شروع کردی جائے گی؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔