ہماری جمہوری قوتیں

جاوید قاضی  جمعرات 10 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

قصہ ہو اگر دشمنوں کا توکھل کر بیان بھی کیا جائے مگر یہاں بار سنگ ستم اپنوں ہی کی روایت ہے۔ کچھ ایسی رسم ہے جس کو بیان کرتے کرتے کہیں ایسا نہ صادر ہو جائے کہ آپ کس کی زبان بول رہے ہیں۔ احسن اقبال پر ایک نوجوان نے گولیاں برسائیں۔ موصوف خادم حسین رضوی کی سوچ کے اسیر تھے، اسی طرح وہ کیپٹن صفدرکی فکروسوچ سے بھی متاثر ہیں۔

کیپٹن صفدر ، نواز شریف کے داماد اور مریم نوازکے خاوند ہیں۔ چند روز پہلے قائد اعظم یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کیے ہوئے فزکس ڈپارٹمنٹ کا نام تبدیل کرنے لیے قومی اسمبلی میں ریزولیوشن منظور ہوا۔ ملالہ سے پہلے اس ملک کے کسی شہری کو اگر نوبل پرائز ملا ہے تو وہ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں۔ جس دور میں دنیا کا یہ عظیم ایوارڈ عبدالسلام کو دیا گیا اس وقت جنرل ضیاء الحق صدر پاکستان تھے۔ میں نے پی ٹی وی پر یہ مناظر خود دیکھے کہ صدر پاکستان ریاستی اعزاز کے ساتھ ڈاکٹر عبدالسلام کی دعوتیں کر رہے تھے۔

کیا ماجرا ہے کہ ایک عظیم سائنسدان جو کہ ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ تھے، ان کے نام سے منسوب کیے ہوئے فزکس ڈپارٹمنٹ کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ کیا اس لیے کہ وہ ایک مخصوص مذہبی فرقے سے تعلق رکھتے تھے کیونکہ وہ اسی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور جس کا ان کے شعوری اور فکری سمجھ سے کوئی تعلق نہ تھا، ان کی شعوری سوچ فزکس تھی ، وہ ایک بہترین سائنس دان تھے۔ اپنی تحقیق اور مشاہدے سے انھوں نے دنیا کے بارے میں ایک ایسی پیش گوئی کی کہ ایٹم کے اندر ایک ایسا پارٹیکل ہے جو ابھی دریافت ہونا ہے، جس سے یہ جانکاری مل سکتی ہے کہ کائنات کس طرح تخلیق ہوئی تھی۔

اس دریافت کو higgs boson theory  کے تحت  God Particle بھی کہا جاتا ہے۔ اس پارٹیکل پر تحقیق کرنے کے لیے سوئٹزرلینڈ کے اندر اربوں ڈالر خرچ کر کے ایک بڑی لیبارٹری بنائی گی جس نے اپنی تحقیق سے بلآخر یہ ثابت کیا کہ ایسے پارٹیکل کا وجود ہے۔ مختصراً یہ کہ ڈاکٹر عبدالسلام ہمارے اسٹیفن ہاکنگ تھے، وہ ہمارے نیوٹن اور آئن اسٹائن تھے۔ وہ پاکستان کا عظیم سرمایہ اور فخر تھے۔ وہ بے حد اور لامحدود تھے۔ وہ خود ایک شعور تھے، سوچ تھے فکر تھے، علم تھے اور ہم نے ان پر بھی حد لگا دی۔ ہم نے ہر فکر و سوچ پر حد لگائی۔ ملالہ سے لے کر عاصمہ جہانگیر تک اور یہ نہ سوچا کہ شعور قوموں کا اثاثہ ہوتا ہے۔ قوموں کے خوشحال مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔ جس قوم نے بھی شعور اور سوچ پر قدغن لگائی وہ پیچھے ہی رہی۔

میں اس بحث میں زیادہ الجھنا نہیں چاہتا لیکن بہرحال یہ وہ ہی فکر ہے جس کی PML-N بھی حمایتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق سے پہلے ایسے واقعات بہت کم تھے مگر ان کے بعد ایسے واقعات کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ حال ہی میں میاں صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی تعریف اس بہانے سے کی کہ جنرل ضیاء کو میاں صاحب کی بنوائی ہوئی سڑکیں یعنی روڈ کنسٹرکشن کا کام بہت اچھا لگتا تھا۔

میاں صاحب دراصل یہ باورکرانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی جنرل ضیاء الحق کے فلسفے کو مانتے ہیں کیونکہ الیکشن قریب ہیں اور وہ ووٹ جو نون لیگ کو زیادہ تعداد میں ملا کرتے تھے، حلف نامے میں ترمیم ہونے کے بعد ضمنی انتخابات میں اس تعداد میں کمی آئی۔ یوں کہیے کہ میاں صاحب تذبذب کا شکار ہیں۔ وہ جمہوری قوت بھی ہیں اور ضیاء الحق کے فلسفے کو بھی ماننے والے بھی۔ ان کے ایک طرف محمود اچکزئی ہیں اور دوسری طرف کیپٹن صفدر۔

پاکستان کی دوسری بڑی جمہوری قوت، پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی، جنرل ضیاء الحق کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونیوالے دو جمہوری آئیکون ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹوکا تسلسل ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان، پاکستان پیپلز پارٹی کا منشور تھا۔ گزشتہ دس سالوں میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی جو سندھ میں رہی ہے اس نے سندھ کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔

انھوں نے حکومت میں آتے ہی زمین کی بندر بانٹ کا آغازکیا اور ٹھٹہ میں ہزاروں ایکڑ زمینیں مخصوص لوگوں نے خریدیں۔ نواب شاہ کے اندر بھی پیپلزپارٹی کے پروجیکٹس میں ان ہی کے لوگ پہلے زمینیں خرید لیتے ہیں اور پھر انھیں پروجیکٹس پر سرکاری طور پرکام کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ زمین کے بدلے زمین دی گئی۔ کچرا اورکوڑے کی زمینوں کے بدلے بہترین اور مہنگی زمینیں دی گئیں۔ مقامی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے ذریعے بندوق کی نوک پر زمینیں حاصل کی گئیں۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا land scam سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سامنے آیا۔

یہ ہے وہ پارٹی جس کا منشور تھا روٹی، کپڑا اور مکان، اربوں ڈالرکا یہ پروجیکٹ پیپلزپارٹی نے متعارف کروایا لیکن امیروں کے لیے۔ وہ گھر تو بنا رہے تھے لیکن امیروں کے لیے۔ غریبوں کو دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔ چھوٹے سرکاری اسپتال اور اسکولز جن کی حالت بد سے بد تر ہے۔ سندھ کے لوگ بھوک وافلا س کا شکار ہیں۔ پانی کا شدید بحران ہے، یہاں تک کہ پینے کا شفاف پانی بھی میسر نہیں۔لیاری کو دیکھیے، یہ پی پی کا ووٹ بینک ہے، جہاں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے منسوب سڑک کئی سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لی مارکیٹ میں ایک چھوٹا فلائی اوور نہ بن سکا، 12 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے لیاری کی نئی نسل کے اعصاب شل کردیے ہیں، نیزکہ یہاں لوگ تمام بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔

غریبوں کے ساتھ، غریبوں کی اس پارٹی نے اپنے حکومتی دور میں جو رویہ رکھا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ غریبوں کی اس پارٹی کو ووٹ دینے والے غریب، غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں اور ان کے لیڈر امیر سے امیر تر۔ جمہوری قوت کا دعویٰ کرنیوالی یہ پارٹی آج اپنے جمہوری ہونے کے دعوے سے بھی دور ہے۔ ان کی اصل جمہوری قوت ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو اب تاریخ کا حصہ ہیں اور ان کی موجودہ قیادت پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے ۔

پاکستان میں موجود دو بڑی جمہوری قوتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی جس طرح سے اپنی حکومت govern کر رہی ہیں، اس سے آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اپنے جمہوری اقدار میں کس قدر پختہ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جمہوریت بہت بڑے بحران کا شکار ہے اور اس بحران کی وجہ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ یہ دو جماعتیں خود ہیں۔ انھوں نے خلاء پیدا کیا اور اسٹیبلشمنٹ نے اس خلاء کو پر کیا۔

یہاں غور طلب معاملہ یہ ہے کہ اگر ہم پاکستان کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تواس بات کی اجازت بالکل نہیں دی جائے کہ مذہب کو ہتھیار بنا کر انتشار پھیلایا جائے کیونکہ پاکستان اس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہے اور اب مزید گنجائش نہیں کہ مذہب کو بنیاد بنا کر مزید نفرتیں اور انتشار پھیلایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔