زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے ....

جاوید قاضی  ہفتہ 12 مئ 2018
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صحیح کہتے تھے فیضؔ صاحب

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

میں نے اپنی آنکھوں سے مفلسوں کی چوکھٹ پر وہ چادر ٹنگی دیکھی ہے جس میں بے شمار پیوند ہوتے ہیں۔ فیضؔ ایک فرد کی زندگی کو اس مفلس کی قبا کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ مہاتما گوتم بدھ کو زندگی میں چاروں طرف صرف دکھ ہی دکھ نظر آتے ہیں، جیسے ہر ایک فرد کے اندر، ایک درد کی کہانی رچی بسی ہے۔ وہ غریب ہے یا امیر سب کے دکھوں کے مختلف پہلو ہیں۔ ہمارے رومی اپنی مثنوی کی ابتداء ہی اس درد کی کتھا سے کرتے ہیں۔

وہ بانس کے درخت سے ٹوٹی ہوئی بانسری کی کہانی کو درد کی کہانی کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بانسری کے اندر موجود سوز جدائی کا سوز ہے ایک لمبی جدائی کا۔ وچھوڑے کا درد، مدتوں کا ہجر ہے۔ صوفیوں نے تو خود ہونے کے احساس کو جدائی قرار دے دیا، رب سے جدائی کا اور نہ ہونے کے احساس کو ملاپ کہہ دیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو، اپنی بیٹی بینظیر اور بیوی نصرت بھٹو سے جیل میں آخری ملاقات میں کہنے لگے کہ کل میں اپنی اماں اور ابا سے جا کر ملوں گا، اسی گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں جہاں وہ اپنی ابدی نیند میں ہیں۔

یہ جو درد ہے وہ کسی حساس ذہن کی میراث ہے۔ درد کی کلیاں بہت پیچیدہ اور شگفتہ ہوتی ہیں۔ سوگندھ کی مانند ہوتی ہیں، زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جہاں ایک ہی جھٹکے میں کایا پلٹ جاتی ہے۔ شاہ لطیف تبھی تو کہتے ہیں:

دکھایا اسے دکھوں میں گوندر گس محبوب کا

اب گوندر گس کیا ہوتا ہے، اس کی تشریح نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ بس یونہی کہیے کہ

جنوں میں جتنی بھی گزری بکار گزری ہے

اگرچہ دل پر خرابی ہزار گزری ہے

یہ درد کے رشتے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ ٹوٹنے کانام ہی نہیں لیتے، نہ ہی چھوٹتے ہیں۔ یہ جسم سے ایسے چمٹ جاتے ہیں کہ جیسے پیرہن ہوکوئی۔ دردتوکوزے ہوتے ہیں مٹی سے بنے ہوئے کوزے، بھٹی سے نکالے ہوئے۔ اس درد کا مالک جیسے خود ایک کوزہ گر ہو،کوزے درکوزے درکوزے اور وہ ان کوزوں کے بیچ یگانہ و یکتہ۔ اسے تنہائی چاہیے، خیالوں کے امڈتے سمندر میں، موجوں کے سفینے میںوہ اکیلا کھڑاہونا چاہتا ہے۔ ان سب کوزوں، سب یادوں میں غرق ہوکر وہ اپنے آ پ کو مکمل پاتا ہے۔ ایسا مکمل کہ جس سامنے باقی تمام مکمل ثانوی ہوں۔ وہ نہ مکاںہوتا ہے نہ زمان نہ تم نہ میں۔ نہ حال نہ ماضی نہ مستقبل۔ وہ تھم سا جاتا ہے ۔ مدھم مدھم، دھیرے دھیرے وہ کچھ اس طرح سے ہو جاتا ہے کہ جیسے میرؔ کہتے ہیں۔

رات کو رورو صبح کیا یا

صبح کو جوں توں شام کیا

میرے نصیب میں درد بہت کم آیا اور یوں میں شاید بدنصیب بھی ہوں۔ درد کی بنیادی صنف حسن ہے۔ حسن خود ایک بھرم ہے یا پھر یوں کہیے کہ وچن ہے کہ جیسے ماں سے بچھڑتا ہوا بچہ۔ چلتی ہوئی ٹرین میں جاتے جاتے، پلٹ فارم پر پیچھے دوڑتی ہوئی ماں کو یہ کہے کہ ماں میں لوٹ آؤنگا۔ بقول ناصرؔ کاظمی

ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر

راہ میں پھول کھلے، سایوں میں گیسو آئے

رنگ باتیں کریں اور باتوں میں خوشبو آئے

درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے

درد پھر مہک اٹھتا ہے، درد پھر بول اٹھتا ہے۔ درد کو جیسے معنی مل جائے۔ یہ جو اپنے عہد کے سچ بولنے والے ہیں کیسے وہ ڈر کو شکست دیتے ہیں۔ کیسے وہ اپنے کنبے سے نکل کر، باقی کنبوں کے رکھوالے ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو اوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر آیندہ آنی والی نسلوں کو خبر دینے والے ہو جاتے ہیں۔ وہ آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ وہ وہی ہیں جو ہر دور میں ہوتے ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں۔ اپنوں کو مشکل میں ڈال کر اوروں کے وکیل بن جاتے ہیں۔

آج جو درد کی کیفیت مجھ پر طاری ہے اس کی وجہ بھی میں بتاتا چلوں۔ کل میں حسب معمول کورٹ میں ٹی بریک کے وقت بار میں بیٹھا ہوا تھا۔ حسب روایت اپنے وکلاء برادری کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا۔ میں نے دیکھا ایک بارہ سالہ بچہ صوفے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ بار کے ایک کونے میں دیوار پر 12 مئی 2007 ء کے شہداء کی تصاویر آویزاں ہیں اور ہ بچہ ان تصاویر میں سے ایک تصویر کے ساتھ سیلفی لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں اس کی طرف بڑھا اور اس کی سیلفی کے ساتھ میں نے بھی اس کی ایک تصویر کھینچی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تمہارے کون ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ یہ میرے والد ہیں۔ میں دو سال کا تھا جب میرے ابو مجھ سے بچھڑ گئے۔

یہ بچہ شہید ایڈووکیٹ حاجی الطاف عباسی کا بیٹا تھا۔ اس بچے کا نام محمد حسن علی تھا۔ وہ سینٹ مائیکل اسکول کا طالب علم ہے۔ غالبا اپنے بوڑھے نانا کے ساتھ اپنے والد کی بار میں لگی ہوئی تصویر کے پاس یوں آیا تھا کہ جیسے 12 مئی کے حوالے سے ان کی تصویر پر پھول چڑھانے آیا ہو۔ اس کے والد نے اپنے بیٹے کے مستقبل کو کہیں نہیں سوچا وہ rule of law  کے لیے اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اس عزم کے ساتھ کہ اس ملک میں ایک دن قانون کی حکمرانی ہوگی اور تمام بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی۔ ایسا پاکستان ہوگا جہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ مگر ابھی منزل بہت دور ہے۔ اس کا بیٹا تو اچھی تعلیم حاصل کر رہا ہے مگر اس ملک میں کروڑوں بچے ایسے ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔

یہ وہ تحریک تھی جو آمریت کے خلاف صف آراء تھی اور اس تحریک کے نتیجے میں یہ ملک آمریت سے پاک ہوا۔ مختصرأ یہ کہ کل مجھے اس سیلفی کی اہمیت کا اندازہ ہوا کہ اس سیلفی میں ایک درد تھا اور سکون بھی، کہ جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے۔ یہ بچہ جس کے نصیب میں پیدا ہوتے ہی ایک عجیب درد ورثے میں آیا۔ اس نے اپنے باپ کو دیکھا تک نہیں اور اس درد جدائی میں جیسے وہ خود اپنے والد کا چہرہ بن گیا میری دعا ہے کہ زندگی میں اس کی تمام خواہشیں پوری ہوں یہ درد جو اس کے نصیب میں آیا ہے وہ اس درد کو سنبھال پائے۔ اس درد سے وہ زندگی میں کوئی حسن یا جمال پیدا کر سکے۔

بڑا ہے درد کا رشتہ

یہ دل غریب ہی سہی

تمہارے نام پر آئیں گے غم گسار چلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔