جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے بل بوتے پر چلنے والی اسمبلی سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا

غلام مرتضیٰ زہری / نسیم جیمز  اتوار 21 اپريل 2013
ایک بھی روپیہ خرچ کیے بغیر مہم چلانے والے ممتاز قانون داں علی احمد کُرد سے گفتگو ۔ فوٹو : فائل

ایک بھی روپیہ خرچ کیے بغیر مہم چلانے والے ممتاز قانون داں علی احمد کُرد سے گفتگو ۔ فوٹو : فائل

 یوں توملکی تاریخ میں جب بھی جمہوریت اور جمہوری اقدار کی بحالی کی تحریک چلی اس میں بلوچستان نے اپنے حصے کا کردار خوب خوب ادا کیا ہے، لیکن سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کے دور میں جب عدلیہ پر شب خون مارا گیا تو اس کے خلاف چلائی جانے والی وکلاء تحریک میں ایک توانا آواز بلوچستان سے بھی تھی۔

یہ آواز ججز کی بحالی کے بعد بھی خاموش نہیں ہوئی، بل کہ جہاں جہاں جمہوریت، جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کی بالادستی کی بات آتی ہے یہ آواز گونج اُٹھتی ہے۔ یہ آوازعلی احمدکردکی ہے جن کا تعلق بلوچستان کے ایک سیاسی گھرانے سے ہے۔

علی احمدکرد نے 13اکتوبر1948ء کو میر غلام رسول کرد کے ہاں آنکھ کھولی۔ چوں کہ ان کا گھرانہ ایک سیاسی اور علمی گھرانا تھا۔ اس لیے انہیں لڑکپن ہی سے اچھا ماحول میسر آیا۔ علی احمدکرد نے زمانۂ طالب علمی سے ہی سیاست شروع کی اور اسٹوڈنٹس پالیٹکس میں فعال کردار ادا کیا، جس کا وہ فخریہ انداز میں اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے ساری زندگی سیاست کی ہے اور انہیں اس پر فخر ہے۔ علی احمدکرد کے بقول وہ ہر دور میں فعال سیاسی کارکن رہے ہیں۔

ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں بھی انہوں نے حصہ لیا اور بقول ان کے ’’خوب ہنگامے کیے۔‘‘عدلیہ کی آزادی کے لیے چلائی گئی تحریک میں انہوں نے اہم کردار اد اکیا اور جب عدلیہ بحال ہوئی تو اپنی نظریاتی کمٹمنٹ کا ثبوت یوں دیا کہ بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی عدالت میں کبھی پیش نہ ہونے کاعہد کرلیا۔ ان دنوں جب کہ ملک بھر میں انتخابی گہماگہمی ہے، بڑے بڑے سیاسی پہلوان خم ٹونک کر میدان میں آگئے ہیں۔

کوئی سیاسی اور قبائلی حیثیت کی بنا پر انتخابات میں امیدوار ہے تو کسی کو اپنی دولت پر ناز ہے، لیکن بلوچستان کے اس نہتے وکیل نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان بھی اپنے ہی انداز میں کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم پرایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرے گا۔ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی مہم پر کروڑوں اڑانے کے بعد امیدوار کی دیانت داری مشکوک ہوجاتی ہے یا شاید وہ یہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہ روپیہ پیسہ خرچ کیے بغیرعام پاکستانی پارلیمنٹ تک پہنچ سکتا ہے یا نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ہر امیدواراپنی انتخابی مہم پرکروڑوں روپے خرچ کر رہا ہو، ہر سیاسی جماعت نے پبلسٹی فنڈ قائم کردیا ہو، امیدوار بندوق برداروں کے بغیر چائے بھی نہ پیتے ہوں، ایسے میں علی احمدکرد جیسے افراد کا سیاسی اکھاڑے میں اترنے کا اقدام غلط فیصلہ تو نہیں؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہم نے علی احمدکرد ایڈووکیٹ کے ساتھ ایک نشست رکھی جس میں انہوں نے کھل کر اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ انہوں نے ماضی کے جھروکوں میں بھی جھانکا اور حال میں رہتے مستقبل کے منظرنامے کا نقشہ بھی کھینچنے کی کوشش کی۔

انہوں نے سیاسی سفر کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مختلف الزامات کا سامنا کیا، لیکن اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ علی احمد کرد نے ایوب خان سے لے کر سابق صدر (ر) پرویز مشرف کے دور حکومت تک 7سال اسیری میں گزارے ہیں۔

علی احمد کرد سن 1972میں ایل ایل بی کے پرچے دے رہے تھے۔ دو دن بعد آخری پرچہ تھا۔ وہ بتاتے ہیں دوستوں کے ساتھ جناح روڈ سے گزر رہا تھا کہ دیکھا پولیس اہل کار ایک سیاسی کارکن کو پکڑ کر لے جارہے ہیں۔ میں اس کے پاس گیا اور کہا کہ تم جیل جاؤ میں تمہارے گھر میں اطلاع دوں گا تاکہ تمہاری ضمانت کا بندوبست کریں۔

اتنے میں ڈی ایس پی بشیر احمد نے کہا کہ کرد صاحب ہم آپ کو تلاش کررہے تھے۔ میں نے کہا کہ چلیے آپ کو چائے پلاتے ہیں، تو ڈی ایس پی نے کہا کہ نہیں آپ کو ہم چائے پلاتے ہیں اور آپ سے کچھ حال احوال بھی کرنا ہے۔ جب انہوں نے کہا کہ حال احوال کرنا ہے تو ہم سمجھ گئے کہ پولیس والے کیوں چائے کی دعوت دیتے ہیں۔ ڈی ایس پی نے کہا کہ دو دن بعد ذوالفقار علی بھٹو دورۂ کوئٹہ پر آرہے ہیں۔ چوں کہ میں نیشنل عوامی پارٹی میں تھا اور نیپ، پیپلزپارٹی کی کٹر مخالف تھی، اس لیے انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ علی احمد کرد کو کسی بھی صورت گرفتار کرلیا جائے۔

ڈی ایس پی نے کہا کہ میں آپ کو اس لیے گرفتار کر رہا ہوں، کیوںکہ بھٹو صاحب کے دورے کے دوران آپ کوئی ہنگامہ کھڑا نہ کردیں۔ میں نے کہا کہ پرسوں میرا آخری پرچہ ہے، جس پر ڈی ایس بہت پریشان ہوا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا کہ ہم آپ کو ابھی گرفتار کریں گے اور بھٹو صاحب کے جانے کے بعد ہم آپ کو رہا کردیں گے۔

میں نے کہا کہ میں پولیس والوں کی بات پر یقین نہیں کرتا، تو ڈی ایس پی نے کہا کہ کرد صاحب میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں۔ پرچہ دوپہر کو تھا اور انہوں نے گارنٹی دی تھی کہ صبح کے اوقات میں آپ کو چھوڑ دیں گے، اس یقین دہانی پر میں نے ان کی بات مان لی۔ وہ مجھے جیپ میں بٹھا کر ایئرپورٹ تھانے لے گئے، جہاں مجھے 24گھنٹے کسی وارنٹ کے بغیر حراست میں رکھا گیا۔

دو دن بعد جب بھٹو صاحب 11بجے کوئٹہ سے چلے گئے تو مجھے پولیس سے رہا کیا۔ اس واقعے کے بعد وہ پی پی کے خلاف مزید متحرک ہوگئے اور پی پی کے خلاف نیپ کی سرگرمیوں میں تیزی لائی گئی۔ اس دور کو یاد کرتے ہوئے علی احمد کرد کہتے ہیں کہ ہر دس دن بعد مجھے گرفتار کیا جاتا اور میں ضمانت پر رہا ہوجاتا۔ اس کے بعد حکومت نے حتمی فیصلہ کیا کہ علی احمد ایک ہی بار میں لمبے عرصے کے لیے جیل بجھوا دیا جائے۔ ایک رات دو بجے پولیس کی ایک بھاری نفری نے ایس ایس پی، ڈی ایس پی اور دیگر اعلیٰ حکام اور مجسٹریٹ کی سربراہی میں میرے گھر پر چھاپا مارا پولیس اہل کاروں نے میرے گھر کے سامان کی چھان بین شروع کی۔

ایک کمرے میں چیکنگ کا کام مکمل ہوا اور سب دوسرے کمرے میں چلے گئے، مگر ایک پولیس افسر اسی کمرے میں کھڑا تھا، جس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔ وہ افسر اس بیگ سے کوئی چیز نکال کر میرے کمرے میں رکھ رہا تھا کہ میری نظر اس پر پڑی اور میں نے اس افسر کو رنگے ہاتھوں پکڑا اور پورے طاقت سے اس افسر سے بیگ کھینچنے کی کوشش کی اور اس کے اعلیٰ افسران کو بلا کر کہا کہ یہ شخص میرے کمرے میں کچھ رکھ رہا ہے، تاکہ مجھے پھنسایا جائے۔

حکام نے پولیس افسر کو چھڑوایا اور اسے گاڑی میں لے گئے۔ اس واقعے پر قومی اسمبلی میں لیڈرآف اپوزیشن خان عبدالولی خان اور دیگر سیاسی راہ نماؤں نے احتجاج کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے 4ماہ بعد ایک بار پھر پولیس نے انہیں ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسایا اور اس بنا پر گرفتار کیا کہ ان کے گھر کے سامنے جیل روڈ پر واقع قبرستان سے 2ہینڈ گرنیڈ برآمد ہوئے ہیں، جس پر انہیں چار سال قید کی سزا ہوئی۔

علی احمدکرد نے ہر دور حکومت میں عوامی حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ وہ آئندہ عام انتخابات کے لیے کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 259کوئٹہ کے لیے آزاد حیثیت سے امیدوار ہیں، جہاں ان کا مقابلہ اہم مذہبی، سیاسی اور قبائلی شخصیات سے ہوگا۔ اس کے علاوہ انہوں نے راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 55سے بھی کاغذات نام زدگی جمع کرائے ہیں۔

اگرچہ ان کی سیاسی جدوجہد، بے باک طرزِگفتگو اور شعلہ بیانی کے سبب انہیں سیاسی جماعتوں سے بھی ٹکٹ مل سکتا تھا، لیکن انہوں نے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ اور راولپنڈی سے الیکشن لڑنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو براہ راست پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسمبلی کا تقدس، طاقت اور اس کی خوب صورتی اس میں موجود اچھی سوچ رکھنے والے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ عوام کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے بل بوتے پر چلنے والی اسمبلی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور ایسی اسمبلیاں بھی کم زور ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ کم زور ایوانوں کے ایک وزیراعظم کو پھانسی دی جاتی ہے، تو دوسرے کو 10سال تک جبری طور پر جلاوطن کیا جاتا ہے۔ عوام کو میرا پیغام ہے کہ انتخابات میں سیاسی اور عوامی سوچ رکھنے والے افراد کو منتخب کریں، تاکہ وہ صرف عوام کی مکمل نمائندگی کے دعوے دار نہ ہوں، بلکہ عملی سطح پر اس کا مظاہرہ کریں۔

انتخابی مہم پر ایک بھی روپیہ خرچ نہ کرنے کا علی احمدکرد ایڈووکیٹ کا اعلان انہیں مزید انفرادی حیثیت دلاتا ہے۔ اس بابت ان کا کہنا ہے کہ روپے پیسہ خرچ کرکے ایوانوں تک پہنچنا آسان ہوتا ہے، لیکن ایسی صورت میں منتخب نمایندہ عوام سے زیادہ اپنے لگائے گئے پیسے کے بارے میں سوچتا ہے۔ علی احمد کرد ایڈووکٹ نے16مارچ2009کو اعلان کیا تھا کہ بحالی کے بعد چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں کبھی پیش نہیں ہوں گا۔

وہ اپنے اس وعدے پر آج بھی قائم ہیں۔ حالاںکہ انہیں کروڑوں روپے فیس کی بھی پیشکش ہوئی، مگر انہوں نے عوام کے ساتھ کیا ہوا وعدہ نہیں توڑا۔ اب انہوں نے عوام سے ایک اور وعدہ کیا ہے کہ الیکشن پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کریں گے اور وہ اﷲ سے دعا گو ہیں کہ وہ انہیں ایک بار پھر اس معاملے میں ثابت قدم رکھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام ان کو پیسے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی سیاسی کار کردگی پر منتخب کریں گے۔

ان کے بقول عوام انہیں اسمبلی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ یہ واقعہ سناتے ہیں کہ ایک روز راولپنڈی میں گاڑی میں جا رہا تھا تو وہا ں بازار میں لوگوں کا ہجوم اکھٹا ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ آپ راولپنڈی میں جلسہ کب کریں گے۔ علی احمد کرد کہتے ہیں کہ میں انتخابی مہم کے دوران کوئٹہ اور راولپنڈی میں تین سے چار چھوٹے بڑے جلسے اور کارنر میٹنگ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ان جلسوں کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کروں گا، میرے چاہنے والے ہی یہ خرچہ اٹھائیں گے۔

2013ء کے عام انتخابات میں آئین کے آرٹیکل 63اور63 پر سختی سے عمل درآمد کی شرط نے سیاست دانوں کو مشکل صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔ علی احمد کرد ایڈووکیٹ آئین کے مطابق امیدواروں کے اثاثہ جات اور کاغذات کی چھان بین کے خلاف نہیں لیکن وہ ریٹرننگ آفیسرز کے غیرضروری سوالات کے شدید مخالف ہیں۔ وہ ایسے سوالات پوچھنے اور ان کے میڈیا پر آنے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ریٹرنگ افسران کو امیدواروں سے ایسے سوالات پوچھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62,63میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ ریٹرننگ افسران ہجوم میں امیدواروں سے ایسے سوالات پوچھیں جن سے امیدواروں کی عز ت مجروح ہو۔

جعلی ڈگریوں کے حامل سابق وزراء کے خلاف پانچ سال کے بعد کارروائیوں کو وہ غیرضروری قراردیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جعلی ڈگریوں کے سلسلے میں آج سابق اراکین اسمبلی کے خلا ف کارروائی کی جارہی ہے۔ عوام کے ذہن میں بھی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ایسے اراکین اسمبلی جو پانچ سال تک لوٹ مار کرتے رہے، حکومت اور عدلیہ نے ان کے خلا ف کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب اچانک اس مسئلے پر اتنی توجہ مرکوز کی جارہی اس بارے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ’’اب کیا پچھتائے کیا ہووت جب چڑیا چک گئیں کھیت۔‘‘ اب اس معاملے کو اتنی اہمیت دینے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

ان کی رائے ہے کہ وکلاء تحریک نے پاکستان کے منظر نامے کو تبدیل کردیا ہے۔ اب عدلیہ کا ادارہ پہلے جیسا مفلوج ادارہ نہیں رہا۔ اب عدلیہ میں بڑی طاقت کا احساس پیدا ہوا ہے جہاں سے ہر شخص کو انصاف ملے گا کیوںکہ یہ پہلے زمانے کی لنگڑی لولی عدلیہ نہیں ہے۔ لوگ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ ہی کو عدلیہ کا نشان سمجھتے ہیں، مگر انصاف کے شعبے سے وابستہ وکلاء کو معلوم ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک نے اس ادارے میں ایسی روح پھونک دی ہے کہ چیف جسٹس کے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سپریم کورٹ میں قابل ذکر اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے والے جج موجود ہوں گے، جن سے سپریم کورٹ کی غیرجانب داری، آزادی اور تقدس کو ہر حال میں برقرار رکھنے کی امید ہے۔

علی احمد کرد ایڈووکیٹ کا انتخابی منشور سادہ لیکن ہمہ جہت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ کام یاب ہوئے تو ملک میں ہونے والے ظلم، غربت اور ناانصافی کے خلاف نہ صرف ہمیشہ کی طرح آواز بلند کریں گے بلکہ ان مسائل کے خاتمے کے لیے بھی متحرک کردار ادا کریں گے۔ ان کا عزم ہے کہ اسمبلی میں غریب اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والے عوام کے حقوق کے لیے سب سے اونچی آواز ان کی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔