جنرل (ر) پرویز مشرف کا مستقبل؟

بشیر واثق  اتوار 21 اپريل 2013
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے 99ء میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت ختم کرکے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔

اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کروانے کی کوشش کی، یوں ان کے خلاف طیارہ سازش اور دیگر مقدمات قائم کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، پورا ملک سناٹے میں تھا کہ اب کیا ہو گا ؟کیونکہ عوام کی سمجھ میں اصل بات نہیں آ رہی تھی۔

بہت سے لوگ نواز شریف کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے اور بہت سے پرویز مشرف پر الزام لگا رہے تھے کہ اس نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کر کے مارشل لاء لگا دیا، چونکہ تمام تر طاقت کا منبع جنرل پرویز مشرف کی شخصیت تھی اس لئے اس وقت کوئی دم مارنے کی تاب نہ رکھتا تھا حتٰی کہ عزت مآب ججوں کو بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا اور پھر ان غیر آئینی اقدامات کو اسمبلی سے منظور کر وا کے آ ئینی تحفظ بھی حاصل کر لیا گیا، عوام بے چارے سہمے ہوئے یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔

کیونکہ ملک پر چھائی خوف و دہشت کی فضا نے بڑوں بڑوں کی زبانیں گنگ کر دی تھیں، پھر میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کو جیل سے جلاوطن کر دیا گیا اور اس معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان کے عالمی دوستوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا ۔ تمام تر اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے عوام کو تعمیر و ترقی کے خواب دکھانا شروع کر دئیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک نے مادی طور پر ترقی کرنا شروع کر دی مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غیر ملکی مداخلت بڑھتی چلی گئی، دوسری طرف افغانستان کے خلاف امریکا اور نیٹو فورسز کی جنگ میں پاکستان کو دباؤ کے ذریعے اتحادی بننے پر مجبور کر دیا گیا ، یوں افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ آہستہ آہستہ سرحدیں پار کر کے پاکستان کی حدود میں داخل ہو گئی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے الیکشن کرائے اور نئی سیاسی جماعتوں کو اقتدار سونپا تا کہ انھیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکے ۔ وسیع اختیارات نے صدر جنرل پرویز مشرف کو من مانیاں کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی تھی، دوسری طرف اس کے مشیروں نے بھی اسے بادشاہ وقت کا پروٹوکول دے رکھا تھا ، پرویز مشرف سے پے درپے سنگین غلطیا ں ہوئیں۔ بلوچستان کے علاقے سوئی میں ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس کے ردعمل میں بگٹی قبائل جنرل مشرف کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد پر اُتر آئی کیونکہ اُن کے نزدیک ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ یہ ظلم کرنے والوں کو جنرل مشرف کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس کشمکش کے نتیجے میں بزرگ بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور سینکڑوں بلوچ بھی جاں بحق ہوئے۔

جامعہ حفصہ کے سانحہ میں جنرل پرویز مشرف نے آپریشن کرنے کی اجازت دی جس سے سینکڑوں طلبہ جاں بحق ہوئے،اسی طرح ملک میں ایمرجنسی لگا کر ججوں کو نظر بند کیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان کو شدید خطرات لاحق تھے، جنرل پرویز مشرف نے انھیں اس حوالے سے خبردار تو ضرور کیا مگر وزارت داخلہ کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے کے احکامات جاری نہ کئے، یوں محترمہ کی شہادت میں سکیورٹی فراہم کرنے میں غفلت کا الزام بھی ان کے سر پر لگا، 2008ء میں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، تب یہ سارے الزامات کھل کر سامنے آ گئے کیونکہ صدر ہونے کی وجہ سے انھیں قانونی طور پر جو استثنیٰ حاصل تھا وہ نہ رہا اور ان پر غداری، جامعہ حفصہ آپریشن، نواب اکبر بگٹی کا قتل اوربے نظیر بھٹو کو سکیورٹی فراہم کرنے میں غفلت کے کیسز درج کئے گئے ، اب جنرل (ر) پرویز مشرف کو ان چاروں کیسز کا سامنا ہے۔

سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ملک امجد پرویز نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف دائر کیسز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کے دوحصے ہیں ، ایک تو وہ ہے جس میں نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تھی۔ اس کی بنیاد پر پرویز مشرف کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ مشرف نے اپنے اس عمل کو عدالت سے قانونی حیثیت دلوا لی تھی ۔

غداری کیس کا دوسرا حصہ پرویز مشرف کے لئے اس حوالے سے خطرناک ہو سکتا ہے کہ 2007ء میں جب انہوں نے ایمرجنسی لگائی اور ججوں کو نظر بند کیا تو بعد میں کوشش کے باوجود اسے قانونی حیثیت نہ دلوا سکے ، ایمرجنسی لگانے اور آئین کو پامال کرنے کی تمام تر ذمہ داری پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ اس وقت ملک کے صدر تھے اور ایمرجنسی لگانے کا حتمی اختیار بھی انہی کو تھا ، اگر وہ عدالت میں یہ ثبوت پیش کریں کہ انہوں نے اس کی منظوری کابینہ یا دیگر ماتحت افسروں سے لی تھی تو تب بھی فیصلہ ان کے خلاف جائے گا کیونکہ آخری اختیار تو انہی کا تھا ۔

اگر وہ چاہتے تو آئین کی خلاف ورزی نہ ہونے دیتے مگر انہوں نے ایسا نہیںکیا ، اس لئے اس کیس میں انہیں کم از کم عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے۔ بینظیر قتل کیس میں پرویز مشرف پر سکیورٹی سے غفلت برتنے کا الزام لگایا گیا ہے اس بنیاد پر عدالت میں ان کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ سکیورٹی کی ذمہ داری وزیر داخلہ کی ہوتی ہے تاہم اگر سازش کی گئی ہو یعنی جان بوجھ کر سکیورٹی سے غفلت برتی گئی ہو تو سزا ہو سکتی ہے، مگر سازش کو عدالت میں ثابت کرنا مشکل ہو گا۔

نواب اکبر بگٹی قتل کیس کی بھی یہی صورتحا ل ہے کیونکہ آرمی آپریشن تھااور اسی دوران اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا، اس لئے اس کی لیگل ایویڈینس بہت مشکل ہے، تاہم حالات (circumstances) کو ثبوت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ پرویز مشرف نے اس بات کا اظہار بھی کیا تھا کہ اکبر بگٹی کو فائر وہاں سے لگے گا۔

جہاں سے اسے سمجھ بھی نہیں آئے گی۔ مگر حالات کو بطور ثبوت ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جامعہ حفصہ یعنی لال مسجد کیس میں آپریشن فورسز نے کیا تھا مگر پرویز مشرف نے آپریشن کی منظوری دی تھی اس لئے انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے مگر اس کو بھی عدالت میں ثابت کرنا ہو گا۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں آج تک کسی فوجی سربراہ کو سزا نہیں ہوئی ، اب دیکھیں سابقہ روش قائم رہتی ہے یا پھر کسی نئی روایت کی داغ بیل پڑتی ہے۔‘‘

سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سید تنویر ہاشمی کے مطابق ’’پرویز مشرف نے آئین توڑا اس لئے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بنتا ہے، آ ئین میں تبدیلی صرف اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ذریعے ہی کی جا سکتی ہے جبکہ انہوں نے یہ سب طاقت کے زور پر کیا ، چو نکہ پرویز مشرف کے پاس صدر اور چیف ایگزیکٹو کے اختیارات تھے اس لئے ان کی شخصیت تمام تر اختیارات کا منبع تھی اور انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی پرواہ نہ کی حتیٰ کہ ان کے یہ دو عہدے بھی غیر آ ئینی تھے اس لئے ان کے تما م تر اقدامات ہی غیر آئینی تھے۔

، اس تناظر میں جب لال مسجد اور نواب اکبر بگٹی کے کیسز کو دیکھا جائے تو ان کے و ہ اقدامات بھی غیر آئینی قرار پاتے ہیں، پرویز مشرف اس سب کو انتظامی معاملہ قرار دیتے ہیں مگر جب وہ خود ہی غلط تھے تو ایسے میں ان کے آرڈر بھی غلط ثابت ہوتے ہیں ۔ بینظیر قتل کیس میں بھی وہ ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے محترمہ کے پاکستان آنے پر ہی کہا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے ، جب انہیں پتہ تھا تو پھر سکیورٹی میں غفلت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا جس سے محترمہ کی شہادت ہوئی،ان سارے کیسز میں پرویز مشرف کو قانونی طور پر سزا ہو سکتی ہے۔‘‘

سابق سیکرٹری لاہور بار ایسوسی ایشن سینئر قانون دان محمد لطیف سرا نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’ جنرل (ر) پرویز مشرف نے 12اکتوبر 99ء کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت ختم کر کے انہیں ملک بدر کیا بعد میں نظریہ ضرورت کے تحت اسے قانونی حیثیت دے دی گئی ، عدالتوں نے بھی ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے قانون کو تبدیل کرنے کی اجاز ت دے دی ، مگرپھر 2007ء میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو توڑا گیا اور ججوں کو نظر بند کردیا گیا ۔

اسے پرویز مشرف تمام تر کوشش کے باوجود قانونی حیثیت نہیں دلوا سکے، ایمرجنسی لگانا پرویز مشرف کا ذاتی اقدام تھا، انہوں نے اپنے من پسند فیصلے کئے اور ہر ادارے کو اپنی مرضی کا پابند کرنے کی کوشش کی، پھر آئین اور عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک چلائی گئی تب جاکر ایمرجنسی کا خاتمہ ہوا ، یہ سب ایل ایف او کے تحت کیا گیا مگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ، اس لئے اس کیس میں انہیں آرٹیکل چھ کے تحت سزا دی جا سکتی ہے، جو کم از کم عمر قید یا موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ نواب اکبر بگٹی قتل کیس میں بھی پرویز مشرف کے خلاف ایف آئی آر درج ہے۔

، اسی طرح جامعہ حفصہ یعنی لال مسجد کیس میں بھی پرویز مشرف کا ملوث ہونا ثابت کیا جا سکتا ہے، گو ان دونوں معاملات میں فورسز نے آپریشن کیا مگر اس دوران حتمی فیصلہ کرنے کے اختیارات پرویز مشرف کے پا س تھے اس لئے وہ اس کا ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح بینظیر قتل کیس میں پرویز مشرف پر غفلت یا اعانت کا الزام ہے ، رہی یہ بات کہ اسے ثابت کیسے کیا جائے گا تو اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ حالات خود ثبوت ہوتے ہیں جیسے کہا جا تا ہے کہ افراد تو جھوٹ بول سکتے ہیں مگر حقائق ہمیشہ سچ بولتے ہیں، اس کیس میں بھی پرویز مشرف کو سزا ہو سکتی ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اندرونی یا بیرونی دباؤ کی وجہ سے عدالتوں میں کیسز کو ثابت ہی نہ کیا جا سکا تو پرویز مشرف کی ان کیسز سے جان چھوٹ بھی سکتی ہے۔‘‘

سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف پر جو بھی الزامات ہیں وہ ان کے دور اقتدار کے ہیں، ان کا کہنا ہیں کہ انھیں یہ سب انتظامی طور پر کرنا پڑا ، کیسز چونکہ عدالتوں میں اس لئے ابھی کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی ، تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان کیسز کا سارا دارومدار عدالت میں ثابت کرنے پر ہے کیونکہ عدالتیں فیصلہ کرنے کے لئے حالات و واقعات کے علاوہ ثبوتوں کی محتاج ہوتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔