کتنے لوگ تھے؟

نسیم انجم  اتوار 13 مئ 2018
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کو سب سے پہلے مبارک باد کہ ان کی پچیسویں کتاب’’کتنے آدمی تھے؟‘‘ منظر عام پر آگئی ہے اور جس کی آج تقریب رونمائی ہے اور ہم اس کتاب کو سلور جوبلی نمبر کہہ سکتے ہیں۔

سرورق بے حد دلچسپ اور قابل توجہ ہے ڈاکٹر صاحب دیدہ زیب سرورق پر چنگھاڑتے ہوئے سوال کررہے ہیں؟ اندازہ ہورہا ہے کہ سوال معمولی نہیں ہے، کمرہ تعلیم بالغان میں شاگرد باہم مشورہ کرنے پر مجبور ہیں، تفکرات کی لکیریں اور پریشانی چہروں سے عیاں ہے، فکروتدبر کے دریا میں غرق ہیں، شاید جواب مل جائے۔

ہر شخص آج کے دور میں پریشان ہے۔ سیاسی اکھاڑوں میں مقابلہ کرنے والوں کی دھوم دور دور تک پہنچ گئی ہے،کامیابی کا تمغہ جیتنے کے لیے بھاگ دوڑ، افراتفری اور دہشتگردی جاری اوران حالات میں عوام پس رہے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے اپنے مضمون احوال واقعی میں اس المیے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ:

’’وطن عزیزکی سیاست کا تمام دارومدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کیا اورکتنا بڑا جلوس نکال کر عوام کو اذیت میں مبتلا کیا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے امریکا کا ایک سبق آموز واقعہ بھی لکھا ہے۔ سیاستدانوں سے بھری بس قومی تقریب میں شرکت کے لیے جا رہی تھی کہ حادثہ پیش آگیا لوگ اس حادثے کی نذر ہوگئے وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہوکر ایک گڑھے میں انھیں دفنا دیا، یہ خبر میڈیا تک پہنچی، ایک اخباری نمایندے نے اس سے سوال کیا، کیا سب لوگ جان بحق ہوگئے تھے، بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا، نہیں، کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے، ہم زندہ ہیں، مگر آپ تو جانتے ہیں وہ سب سیاستدان تھے۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے اس شعر کا انتخاب کیا ہے:

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

ایک اور مضمون جس کا عنوان ہے ’’باس زندہ ذلت باقی‘‘ مصنف نے ملازمت کے دوران کی یادوں کو بیدار کیا ہے۔ فرماتے ہیں ’’اگر اپنے باس کے سامنے اپنی خودی کو ایک انچ بھی بلند کرنے کی کوشش کرتے تو ہماری داستاں تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔‘‘

’’ہم نے ملازمت بلکہ زندگی کا بڑا حصہ تعلقات عامہ میں گزارا۔ باس کے لیے تقریریں، رپورٹیں، پیغامات وغیرہ ہمارے فرائض منصبی اور ان کی ذاتی تشہیر کا خاطر خواہ بندو بست کرنا فرائض غیر منصبی میں شامل تھا، ایک روز باس نے ایک سیمینار میں کلیدی خطاب (Key Note Address) کے لیے ہمیں بیس منٹ کی تقریر لکھنے کا حکم دیا۔ سیمینار کا عنوان تھا ’’خود انحصاری‘‘ جب وہ سیمینار سے واپس لوٹے تو آتے ہی ہماری پیشی ہوگئی۔

ہم نے دیکھا موصوف بھنائے ہوئے ہیں، ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، سر! آپ کا خطاب لوگوں کو پسند آیا؟ ہم پر آنکھیں نکالتے ہوئے گرجے، آپ کوکس گدھے نے ڈائریکٹر تعلقات عامہ بنایا تھا؟ اب وہ چنگھاڑے ’’آدھے نالائق میرے خطاب کے دوران اونگھ رہے تھے، جو بدبخت جاگ رہے تھے وہ ایک ایک کرکے باہر نکلتے رہے، خطاب کے دوران مجھے اسٹیج پر تین پرچیاں ملیں، پہلی میں ڈائس چھوڑنے کی التجا، دوسری میں نصیحت اور تیسری میں دو ٹوک ہدایت کی گئی تھی، پھر چوتھی پرچی سامعین کی طرف سے آئی، جس میں ایک ایسا مصرعہ لکھا تھا، جس کا کوئی جواز نہ تھا، ہم نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے سوال کیا ’’سر ! وہ مصرعہ کیا تھا؟‘‘ کہنے لگے کسی احمق نے لکھا تھا ’’سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے‘‘ بھلا اس کی وہاں کیا تک تھی؟ لیکن آپ نے اپنی تحریر کے اتنے ڈنکے پیٹ دیے تھے کہ پرچیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے پوری پڑھے ہوئے وہاں سے نہیں ہٹا۔

’’پھر ان ناہنجاروں نے میرے بیٹھنے کے بعد سیمینار ختم کردیا، ہم ہارے یعنی مار کھائے باکسر کی طرح اٹھنے لگے تو انھوں نے ہمیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا، پانی پی کر وہ کچھ ٹھنڈے پڑے تو ہماری مخدوش حالت کے پیش نظر اپنے غصے میں ایک درجہ کمی کرتے ہوئے قدرے نرم لہجے میں گویا ہوئے:

آپ نے ایک گھنٹے کی تقریر کیوں لکھی؟ جب کہ منتظمین نے مجھے صرف بیس منٹ دیے تھے، جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا، سر! میں نے تو بیس منٹ کی ہی تقریر لکھی تھی لیکن دو اضافی کاپیاں اس لیے دی تھیں کہ مبادا ان کی ضرورت پڑ جائے لیکن معلوم ہوتا ہے آپ نے وہ تینوں کاپیاں پڑھ دیں۔

معین قریشی کے مضامین کی خاصیت یہ ہے کہ یاسیت سے قاری کو دور لے جاتے ہیں اور ذہن و دل پر تازگی و فرحت کے ساتھ باد نسیم کے جھونکوں کی دستک دیتی ہے۔ ایسے تکلیف دہ ماحول میں اگر ہمارے ممتاز مزاح نگاروں کی تحریریں جو ٹانک کا کام کرتی ہیں، پڑھ لی جائیں تب مزاج بدل سکتا ہے۔

آئیے! ذرا اس مضمون کا مزہ لیتے ہیں۔ عنوان ہے ’’جس گدھے میں جان ہوگی وہ گدھا رہ جائے گا۔‘‘ ایک صاحب اپنی بیگم کے ساتھ کار میں کہیں جا رہے تھے سڑک کے کنارے کھڑے گدھے کو دیکھ کر بیگم نے ان پر چوٹ کی۔ آپ کا رشتے دار لگتا ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ بولے، ہاں! مگر سسرال کی طرف سے۔

اس قسم کی چوٹیں مارنا ایک رواج سا بن گیا ہے، شاید ہی کوئی میاں بیوی یا گھرانہ ایسی ٹکروں سے محفوظ رہا ہو۔

ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں جہاں شاعرانہ انداز بیان ہے، وہاں افسانوی رنگ بھی نظر آتا ہے۔ آئیے چلتے ہیں ’’اسپین‘‘ مضمون کا عنوان بھی قابل توجہ ہے۔ اسپین جہاں نہیں کوئی Pain، ہائے! ہمارے ملک میں اس قدر پین ہے کہ جہاں نگاہ دوڑاؤ ہر منظر ہر شخص Painful ہے۔ اسپین کے باشندے ویرانی میں گل کھلاتے ہیں۔ میڈرڈ کے نواح میں ہم نے ایک سرسبز پارک دیکھا، موسمیوں سے لدے ہوئے درخت اور مصنوعی جھیل تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ وسیع و عریض قطعہ اراضی کبھی ملبے کا ڈھیر تھا لیکن شہریوں کی مزاحمت پر میونسپلٹی نے اس زمین پر پلازہ بنانے کا ارادہ ترک کردیا، ہمارے یہاں تو اچھے خاصے گھروں کو مسمار کردیتے ہیں اور شہری بے چارے فٹ پاتھ پر آجاتے ہیں۔ حصہ سوم میں قابل قدر ہستیوں کے خاکے ہیں، جنھیں بہت خلوص اور قدردانی کے ساتھ لکھا گیا ہے ان خاکوں میں سید ضمیر جعفری، انور مسعود، مہتاب اکبر راشدی، جمیل الدین عالی اور سحر انصاری اپنی علمیت اور قابلیت کے ساتھ شامل ہیں ایک خاکہ مسٹر ویل کا بھی ہے جو سچے رشتوں کی مہک سے معطر معطر سا ہوگیا ہے، ڈاکٹر معین نے اپنے پوتے کو وہ تحفہ پیش کیا ہے جو خون سے لکھے گئے الفاظ کی شکل میں سامنے آیا، جسے مسٹر ویل ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اس وقت ان کی عمر تین سال ہے۔ مہتاب اکبر راشدی کا خاکہ بہت سی معلومات دلکش انداز میں قارئین کو فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر معین قریشی نے بہت سی یادوں، ان کی شخصیت، فہم و فراست اور زعفرانی شوشوں اور وسیع النظری کا ذکر مدلل طریقے سے کیا ہے تمام تحریریں شگفتگی اور شائستگی سے رنگی ہوئی ہیں، برجستہ جملے قاری کے لیے کشش کا باعث بنتے ہیں۔ لیاقت و قابلیت کی خوشبو سے قاری مسحور ہوجاتا ہے، تحریرکا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

(مضمون تقریب پذیرائی کے موقع پر پڑھا گیا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔