افغان تاجروں کا اوپن کرنسی مارکیٹ پر دباؤ، ڈالر کی اسمگلنگ شروع

احتشام مفتی  اتوار 13 مئ 2018
یومیہ1.5کروڑسے2.5 کروڑڈالرغیرقانونی طورپرخریدکرافغانستان لے جائے جارہے ہیں،ملک بوستان۔ فوٹو: سوشل میڈیا

یومیہ1.5کروڑسے2.5 کروڑڈالرغیرقانونی طورپرخریدکرافغانستان لے جائے جارہے ہیں،ملک بوستان۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کراچی: متحدہ عرب امارات میں امریکی ڈالر ودیگرغیرملکی کرنسیوں کی آمد پر متعلقہ اداروں اور ریگولیٹرکی ڈیکلریشن کے بغیرقبول نہ کرنے کے باعث افغان تاجروں کا دباؤ پاکستانی اوپن کرنسی مارکیٹ پر بڑھ گیا ہے۔

افغان تاجر اپنی درآمدات کیلیے کھولے جانے والے لیٹر آف کریڈٹ کیلیے پاکستان کی اوپن کرنسی مارکیٹ کا رخ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان سے افغانستان کیلیے 9 مختلف کراسنگ پوائنٹس سے آنے جانے والے افغان باشندوں کے ذریعے ڈالر کی اسمگلنگ شروع ہوگئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان سے صرف طورخم سرحد کے ذریعے ایک محتاط اندازے کے مطابق یومیہ 15 ہزار افراد کی آمدورفت ہوتی ہے جبکہ دیگر8 کراسنگ پوائنٹس سے تقریبا30 سے40 ہزار افراد کی آمدورفت ہوتی ہے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان نے حال ہی میں ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک کو اس ضمن میں تمام تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان سے یومیہ تقریباڈیڑھ کروڑ سے2.5 کروڑ ڈالر افغان تاجرخریدکرافغانستان لیجاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغان تاجر امریکی ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسی منظم شعبے کی ایکس چینج کمپنیوں کے بجائے غیرقانونی منی چینجرز سے خریدرہے ہیں جو پاک افغان سرحد سے متصل علاقوں میں قائم ہیں اور وہ غیرقانونی منی چینجرز مارکیٹ ریٹ سے زائد قیمت پر انہیں ڈالر فروخت کرررہے ہیں لیکن غیرقانونی منی چینجرز ان منفی سرگرمیوں سے منظم اوپن کرنسی مارکیٹ میں دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔

ملک بوستان نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے 4 مئی کرنسی امپورٹ سے متعلق اقدامات سخت کردیے ہیں اور انفرادی سطح پردرآمد ہونے والی ڈالر سمیت دیگر غیرملکی کرنسی کواس ملک کے سینٹرل بینک اور کسٹمز کے ڈیکلریشن سے مشروط کردیا ہے۔ امریکی ڈالر ودیگر اہم غیرملکی کرنسی کی ایک بڑی مقدار چونکہ افغانستان سے یواے ای درآمد ہوتی تھی اس لیے افغان تاجروں نے اپنی ضروریات کوپوری کرنے کے لیے متبادل طرز عمل اختیار کرتے ہوئے پاکستانی اوپن مارکیٹ کا رخ کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان تمام تر مشکلات کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تعاون سے پاکستانی روپے کی قدرکے استحکام کے لیے سرگرم عمل ہے اورگزشتہ 15 یوم کے دوران چھوٹی ودرمیانی درجے کی ریگولیٹڈ ایکس چینج کمپنیوں کو وسیع پیمانے پر ڈالر فراہم کیے ہیں۔

فاریکس ایسوسی ایشن کی کوشش ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کو 117 روپے کی سطح پر لایا جائے تاکہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان صرف ایک تا دیڑھ فیصد کا فرق رہ جائے۔ انہوں نے وفاقی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان سے ڈالر سمیت دیگر غیرملکی کرنسیوں کی منظم اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے غیرقانونی منی چینجرز کیخلاف کریک ڈاؤن کرے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔