واٹس ایپ اور آیندہ کے انتخابات

apro_ku@yahoo.com

[email protected]

واٹس ایپ ایک ایسی سہولت کے طور پر سامنے آیا ہے کہ جس میں بے شمار نقصانات کے علاوہ فوائد بھی شامل ہیں۔ اس کے منفی پہلووں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں اس کا ایک استعمال ’’نصیحت کا پنڈورا بکس‘‘ کے طور پر ہے، جس میں ہر شخص نیکی کمانے کے لیے کسی بھی اچھی نصیحت یا مذہبی بات کو آگے بھیجتا رہتا ہے، یہ سوچ کر کہ کسی نے اگر اس نصیحت پر عمل کرلیا تو اس کو بھی کچھ ’’ثواب‘‘ ملے گا۔ یوں لوگوں کی اکثریت صبح و شام اس قسم کے پیغامات کو ’فارورڈ‘ کرتی رہتی ہے لیکن عمل خدا جانے کون کرتا ہوگا۔

ایک منفی پہلو یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی آنے والے پیغامات کو آگے تو بھیج دیتا ہے مگر اس کی تصدیق نہیں کرتا کہ آیا اس میں کوئی صداقت بھی ہے یا نہیں؟ یوں یہاں غلط معلومات اور پروپیگنڈا وار کا سلسلہ جاری نظر آتا ہے۔ اس عمل میں ایک جانب قیمتی وقت بہت حد تک ضایع ہوتا ہے، دوسرے اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، مثلاً آنکھوں اور سروائیکل کی بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔

راقم کے ایک دوست کاخیال ہے کہ اس کی دو بڑی برائیاں عام ہیں، ایک یہ کہ اس کے استعمال کرنے والوں کو غلط معلومات ملنے کے سبب انھیں حقائق کا علم نہیں رہتا، دوسرے یہ فحش چیزوں کے لیے زیادہ استعمال ہورہا ہے، جس سے نئی نسل اپنا وقت بھی برباد کرتی ہے اور مستقبل بھی خراب کرتی ہے۔

بہرکیف اس کے مثبت پہلو کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ اظہار کا بہت بڑا اور آسان ذریعہ، یعنی ایک فرد کو کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا ہے، خود سے ہر کوئی اپنے خیالات کا اظہار سیکڑوں، ہزاروں لوگوں تک کردیتا ہے۔

ایک بہت ہی اہم بات یہ کہ جو اطلاعات کسی وجہ سے میڈیا پر نہیں آسکتی یا میڈیا خود نہیں آنے دیتا، ایسی معلومات اور اطلاعات فوراً تمام لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں، خاص کر ایسی خبریں جو کسی بڑے شخص یا ادارے کے بارے میں ہو اور میڈیا اسے پیش کرنے پر تیار نہ ہو۔ لوگ اپنے طور پر ایسی اطلاعات بعض اوقات ٹھوس ثبوت کے ساتھ بھی واٹس ایپ گروپ کے ذریعے پھیلا دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں واٹس ایپ کا یہی سب سے اہم اور بڑا کردار ہے۔

راقم کے خیال میں واٹس ایپ کا یہ پہلو نہایت اہم ہے اور یہ ہمارے عام انتخابات کے موقعے پر بہت حد تک اثرانداز ہوسکتا ہے۔ خصوصاً کراچی جیسے شہر کی صورتحال سیاسی اعتبار سے ایک ایسی کٹی پتنگ کی طرح ہے کہ جس کو ’ہوا‘ کسی طرف بھی لے جاسکتی ہے اور اس ’ہوا‘ کے رخ میں واٹس ایپ کا کر دار اہم ہوسکتا ہے۔ کراچی کے شہریوں کے مسائل بہت گھمبیر ہوچکے ہیں اور ان مسائل کے پیچھے کن کن لوگوں کے ہاتھ ہوسکتے ہیں، اس بارے میں بھی یہ ٹیکنالوجی اہم کردار ادا کررہی ہے، مثلاً بجلی کا بحران شہریوں کا ایک اذیت ناک مسئلہ ہے۔ اب اس کے ذمے دار کون ہیں؟

اس بارے میں واٹس ایپ پر کئی پیغامات چلے۔ ان پیغامات میں سے ایک پیغام میں صوبہ سندھ کی ایک جماعت کا نام لے کر یہ تفصیلات بتائی گئی تھیں کہ اس سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی نامور شخصیات کے کون کون سے قریبی رشتہ دار بجلی کے اس محکمے میں بھاری بھاری تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ یہ پیغام بہت سے واٹس ایپ گروپ پر چلا اور کئی بار چلا، جب کہ اس پیغام سے متعلق مذکورہ جماعت کی جانب سے یا اس سے متعلق شخصیات کی جانب سے انفرادی طور پر بھی تردید کہیں دیکھنے میں نہیں آئی، جس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ واٹس ایپ پر چلنے والا یہ پیغام اپنے اندر وزن ضرور رکھتا ہے۔

اسی طرح سے پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے بھی کئی پیغامات واٹس ایپ پر دیکھنے کو ملے، جس میں اس جانب اشارہ کیا گیا کہ اس صوبہ کی بڑی سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں نے پاکستان اسٹیل ملز سے انتخابات جیتنے کے بعد کس کس طریقے سے اپنے لیے تو تمام مراعات لی ہوئی ہیں اور خوب فوائد حاصل کررہے ہیں لیکن عام ملازمین کو پانچ، پانچ ماہ تنخواہیں نہیں دی جاتیں اور حکومتی اعلان کے باوجود تنخواہوں میں اضافہ دینا تو دور کی بات، الٹا مختلف بہانوں سے تنخواہیں کم کر دی گئی ہیں۔

یوں واٹس ایپ پر پاکستان اسٹیل ملز سے متعلق بھی حیرت انگیز انکشافات جاری ہیں، جن سے لوگوں کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ سندھ کی یہ بڑی سیاسی جماعتیں جو سندھ کے باسیوں کے حقوق کے نعرے لگاتی ہیں وہ خود کس قدر ملازمین پاکستان اسٹیل ملز کے حقوق کا استحصال کر رہی ہیں۔ ایک صاحب کے بقول اسٹیل ملز کو اس خراب حالات میں فروخت کرنے کی مخالفت مزدور حقوق کے نام پر کی جا رہی ہے مگر حقیقت میں مخالفت اس لیے ہے کہ انتظامیہ سے مل کر یہ نمایندے اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں اور لوٹ مار کرتے رہیں۔

واٹس ایپ کی ان باتوں کو اگر ہم واٹس ایپ پیغامات سے ہٹ کربھی دیکھیں تو ہمیں ان پیغامات میں وزن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ عملاً ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے جس طرح دیگر عوامی مسائل پر کوئی اچھی کار کردگی نہیں دکھائی، اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز اور بجلی کے مسائل پر بھی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر سندھ کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی جس طرح صفر ہے، بالکل ویسے ہی پاکستان اسٹیل ملز کے مسائل پر صفر ہے۔

دونوں مسائل اس شہر کے بڑے مسائل میں سے ایک ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سے پچیس ہزار ملازمین وابستہ ہیں اور انھیں پانچ پانچ ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں، اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے؟ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ پچیس ہزار گھرانے جب اپنے نمایندوں کو عیش و عشرت میں دیکھتے ہوں گے تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا ان کا دل صوبہ سندھ کی ان بڑی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی گنجائش رکھے گا؟ اور جب واٹس ایپ سے پورے شہر کیا پورے ملک میں یہ کہانیاں جائیں گی تو اس کا اثر ووٹر کے ووٹ ڈالنے پر نہیں پڑے گا؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے مارے عوام ووٹ ڈالتے وقت ان واٹس ایپ پیغامات کو بھول چکے ہوں گے کہ جس میں مجرم ان کے منتخب نمایندے تھے؟

یہاں صرف واٹس ایپ کے پیغامات سے متعلق دو مثالیں پیش کی گئی ہیں، ہم سب خاص کر واٹس ایپ کا استعمال کرنے والے جانتے ہیںکہ اس ٹیکنالوجی نے سب سے اہم کام ان اطلاعات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کو بعض اوقات ہمارا میڈیا بھی چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔

بعض قوتیں (جس میں پیسہ کی قوت بھی شامل ہے) خبروں یا اطلاعات کو عوام تک نہیں پہنچنے دیتیں اور میڈیا کو کنٹرول کرلیتی ہیں، مگر واٹس ایپ ان اطلاعات کو فوراً عوام تک پہنچانے میں آگے آگے ہوتا ہے۔ راقم کا خیال ہے کہ اگر ہماری جماعتوں اور ان کے رہنماؤں نے اپنی روش نہ بدلی تو آیندہ کے عام انتخاب میں واٹس ایپ کا کردار ان کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔