ہماری عسکری قیادت کے امن ساز اقدامات اور عالمی میڈیا

تنویر قیصر شاہد  پير 14 مئ 2018
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جب سے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے سربراہوں نے آگے بڑھ کر مصافحہ اور معانقہ کیا ہے، میڈیا میں بکثرت ایسے ٹاک شوز اور اخباری تجزیات سامنے آئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اگر شدید دشمنی اور عناد کے باوجود (برسہا برس بعد) کوریا کے دونوں حصوں کے حکمران پُرامن ماحول میں بات چیت کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کیوں نہیں؟

امریکا کے ممتاز ترین جریدے’’فارن پالیسی‘‘ نے تو فوری طورپر اِسی موضوع پر طویل اظہاریہ بھی شایع کر دیا۔ معروف بھارتی تھنک ٹینک (کارنیگی انڈیا) کے سربراہ سی راجہ موہن نے مفصل اظہارِ خیال کرتے ہُوئے مثبت توقعات کا اظہار کیا ہے۔سب کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو، اپنے تنازعات کے باوصف، مل بیٹھنا چاہیے۔ آتش بیانی کو کمترین سطح پر لانا چاہیے۔یہ سب خواہشات اپنی جگہ درست ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا بھارت اِن پر کان دھرنے کو تیار بھی ہے یا نہیں؟

جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے تو مسلسل ایسے اشارے سامنے آرہے ہیںجو امن اور صلح جوئی کے غماز ہیں۔ مثال کے طور پر یومِ پاکستان (23مارچ2018ء) کے موقع پر عسکری پریڈ کا نظارہ کرنے کے لیے بھارتی ہائی کمشنر(اجے بساریہ) اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں متعین ڈیفنس اتاشی(سنجے وشواس راؤ) کو مدعو کرنا۔ جنرل باجوہ کی طرف سے اُٹھایا گیا یہ قدم اِس امر کا اظہار بھی تھا کہ قومیں اور ہمسائے جنگ اور کشیدگی کی حالت میں ترقی کر سکتے ہیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ 23اپریل2018ء کو دہلی میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر، سہیل محمود،کی امرتسر جا کر مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ،کیپٹن امرندرسنگھ، سے خیر سگالی ملاقات۔سہیل محمود نے گولڈن ٹیمپل بھی حاضری دی۔ بعد ازاں وہ 25اپریل کو ہریانہ کے وزیر اعلیٰ، منوہر لعل کھتر، سے بھی ملے۔ ہمارے ہائی کمشنر صاحب چندی گڑھ میں واقع پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر ارون گرووَر، سے بھی ملے۔

کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ پاکستان کی منتخب حکومتیں اور عسکری قیادتیں بھارت سے تصادم پر آمادہ رہتی ہیںتو ایسا کہنے والا قطعی غلط کہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو اِس وقت امن اور شانتی کی جتنی ضرورت ہے شائد ہی دنیا میں کسی دوسرے ملک کو ہوگی۔پائیدارقیامِ امن کے لیے پاکستان نے دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خلاف جتنی کامیاب جنگیں لڑی ہیں، نیو ملینئم میں شائد ہی دنیا کے کسی اور ملک نے لڑی ہوں۔

چند دن پہلے اسلام آباد میں ’’پاکستان سمٹ‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے درست کہا ہے کہ’’پاکستان نے 83ہزار شہیدوں اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی قربانی دے کر دہشتگردوں اور القاعدہ کو نکال باہر کیا۔ دنیا کا کوئی ملک ہماری کامیابیوں کو چھُو کر بھی نہیں گزرا۔‘‘ لاریب اِن کامیابیوں کا سہرا افواجِ پاکستان کے سر بندھتا ہے۔

جنرل قمر جاویدباجوہ نے اِن کوششوں، خواہشوں اور کامیابیوں کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی امور،ناصر خان جنجوعہ،نے مبینہ طور پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے مشیر سلامتی، اجیت ڈوول، سے دو مختلف ممالک میں جو تین مفصل ملاقاتیں کی ہیں،انھیں بیک وقت حکومتِ پاکستان اور جنرل باجوہ کی اشیر وادحاصل ہوگی۔

ناصر خان جنجوعہ نے اپریل2018ء کے دوسرے ہفتے امن ہی کی خاطر اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر، اجے بساریہ، سے بھی ملاقات کی تھی۔ اِس پر بعض اطراف سے ناصر خان جنجوعہ پر تنقید بھی کی گئی(جن میں ہمارے[سابق] وزیر خارجہ خواجہ آصف بھی شامل تھے) لیکن جنجوعہ صاحب کی طرف سے جو جواب آیا تھا، بجا اور مستحسن تھا۔ ظاہر ہے ہمارے مشیرِ قومی سلامتی نے بھارتی سفارتکار سے ملنے سے قبل اپنے وزیر اعظم سے اجازت تو یقینا لی ہوگی۔ پھر ناراضی کیا معنی رکھتی تھی؟ شائد اِسی پس منظر میں ایک انگریزی معاصر نے خواجہ صاحب کے ردِ عمل میں جو اداریہ لکھا، اُس کا عنوان ہی undiplomatic minister رکھا گیا تھا۔

یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ 28تا30اپریل2018ء کے دوران بعض ایسی خاص ملاقاتیں بھی ہُوئی ہیں جن کا مقصد محض یہ تھا کہ پاک، بھارت ناراضی اور کشیدگی کا خاتمہ عمل میں لایا جائے۔ یہ خاص ملاقاتیں دراصل ٹریک ٹُویا بیک چینل ملاقاتوں کا شاخسانہ تھیں۔اِنہیں قدرے پرانے طرز کے ’’نیمرانہ مذاکرات‘‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر: سابق بھارتی سیکریٹری خارجہ، ویوک کاٹجو، کی سربراہی ایک بھارتی وفد نے اپریل کی مذکورہ بالا تاریخوں میں اسلام آباد کا دَورہ کیاجہاں سابق پاکستانی سیکریٹری خارجہ، انعام الحق،اُن کی میزبانی کررہے تھے۔

یہ وفد تین دن تک یہاں قیام پذیر رہا۔ اِ س دوران ویوک کاٹجو کی قیادت میں بھارتی وفد نے پاکستان کے سابق سینئر سفارتکاروں، سابق سینئر فوجی افسروں، دانشوروں اور صحافیوں سے مفصل ملاقاتیں کیں۔ اِن ملاقاتوں اور مذاکروں میں مبینہ طور پر مسئلہ کشمیر، سیاچن، سر کریک، دہشتگردی، ایل او سی تناؤ اور افغانستان کے موضوعات پر سیر حاصل بات چیت ہُوئی ہے۔امید تو یہی کی جارہی ہے کہ اِن بیک چینل مذاکرات کے ثمرات مثبت ہی سامنے آئیں گے۔

اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی مرضی اور منشا شامل ِ حال نہ ہوتی تو کیا ویوک کاٹجو کی قیادت میں آنے والا بھارتی وفد اسلام آباد میں اتنے وسیع معنوں میں مذاکرات کر سکتا تھا؟ ظاہر ہے یہ سارے معاملات ہماری عسکری قیادت کے علم میں تھے۔ شائد اِسی کا نتیجہ تھا کہ پاکستان نے3مئی2018ء کو ایک بھارتی بیمار قیدی(جتندر) کو انسانی بنیادوںپر باعزت رہا کردیا جو تین سال قبل’’غلطی سے‘‘ سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہو گیا تھا۔

امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے پاکستان کا تو یہ کردار ہے لیکن اس کے باوجود بھارت اپنے ہاں ساڑھے تین سو کی تعداد میں قید پاکستانیوں کو رہا کرنے پر تیار نہیں ہے، حالانکہ وہ بد قسمت اپنی سزا کے دن بھی پورے کر چکے ہیں۔امن کے لیے پاکستان اور ہماری عسکری قیادت کی اِن کوششوں کو عالمی انصاف پسند حلقوں میں تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ سراہا بھی جارہا ہے۔ مثال کے طور پر مئی 2018ء کے پہلے ہفتے مشہور عالمی شہرت یافتہ برطانوی تھنک ٹینکRUSI (رائل یونائٹڈ سروسزانسٹی ٹیوٹ) کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ۔

یہ رپورٹPakistan,s Military Reaches Out to Indiaکے زیر عنوان شایع ہُوئی ہے۔ سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہُوئے مذکورہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ افواجِ پاکستان تو جنوبی ایشیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بھارت سے مکالمے کی خواہشمند ہے مگر مودی کا بھارت اپنے مخصوص عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان اور پاکستان کی عسکری قیادت کو مثبت جواب نہیں دے رہا۔ پاکستانی عسکری قیادت بھارت سے مکمل مقاطعہ کی حامی نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چار ماہ بعد(ستمبر2018ء)پاکستانی فوجی دستے مبینہ طور پر رُوس میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں شریک ہو رہے ہیں جہاں بھارتی فوجی دستے بھی ہوں گے اور چینی بھی۔

متذکرہ بالابرطانوی تھنک ٹینک نے یہ بھی لکھا ہے کہا کہ اگرچہ ایل او سی پر پاک، بھارت کشیدگی عروج پر ہے لیکن اس کے باوصف پاکستانی عسکری قیادت بھارت سے ڈائیلاگ پر آمادہ ہے اور یوں گیند بھارت کی کورٹ میں ہے۔امریکی جریدے Forbes نے بھی اپنی تازہ ترین اشاعت میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھارت سے امن ساز کوششوں کو سراہا بھی ہے اور اِنہیں تسلیم بھی کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔