سیاست: تصاویر و شخصیات

مقتدا منصور  پير 14 مئ 2018
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت میرے سامنے میرے عزیز دوست ڈاکٹر ناظر محمود کی انگریزی میں لکھے گئے مضامین کی مرتب کردہ کتاب Politics: Pictures, Personalities رکھی ہوئی ہے۔ 5 سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں Politics کے عنوان سے 36 مضامین شامل ہیں۔ Picture کے حصے میں تصاویر کے ذریعہ منظرکشی کرتے 19 مضامین ہیں جب کہ شخصیات (Personalities) کے حصے میں 21 مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ آئیے اس کتاب کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔

پہلے حصہ یعنی Politics میں جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ خاصے فکرانگیز ہیں کیونکہ ان میں قیام پاکستان کے وقت سے لے کر آج تک جو غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، ان پر نشتر زنی کی گئی ہے۔ پہلے مضمون ہمارا پاکستان (Our Pakistan) میں وہ لکھتے ہیں کہ “If we look back, we see that the dreams of the common people were not realized as opposed to the dreams of most others coming true. People still crave for basic health and education facilities but feudal lords and landed elite still occupies vast tracts of land”.

آگے بڑھتے ہوئے وہ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں حکومتی کارکردگی کا سفاکانہ اندازمیں جائزہ لیتے ہیں۔ 1977ء کے عام انتخابات کے بارے میں جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان انتخابات میں بائیں بازو کی قیادت تقسیم ہوگئی تھی۔

اکثر رہنما بھٹو کے دور حکومت میں کیے گئے بعض اقدامات کی وجہ سے ان کے خلاف تھے۔ گوکہ انھوں نے بھاری صنعتوں، تعلیمی اداروں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر بائیں بازو سے اپنے تعلق کو جتانے کی کوشش کی، لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کا جھکاؤ مکمل طور پر فیوڈل کلاس کی جانب ہوگیا اور انھوں نے اپنے پرانے بائیں بازو کے ساتھیوں، جن میں جے اے رحیم، معراج محمد خان اور دیگر شامل تھے، نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ جس کی وجہ سے وہ بائیں بازو کا اعتماد کھو بیٹھے۔

A look back at Benazir’s politics میں وہ بینظیر بھٹو کی سیاست کا انتہائی حقیقت پسندانہ انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محترمہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیوں کا نشانہ نہیں بنیں، بلکہ عدلیہ نے بھی انھیں انصاف فراہم نہیں کیا۔ ان کی دونوں بار حکومتیں مختلف الزامات کے تحت ختم ہوئیں، مگر وہ الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔ اس کے باوجود عدلیہ نے نواز شریف کی طرح ان کی حکومت کی بحالی کے احکامات جاری نہیں کیے۔

ایوان بالا کے بارے میں انھوں نے اپنے مضمون کا آغاز ڈاکٹر سید جعفر احمد کے 6 اگست 2016ء کو سینیٹ کی سالگرہ کے موقع پر لکھے گئے کلیدی خط سے شروع کیا۔ سینیٹ کے بارے میں ان کا مضمون مختلف بیانات پر مشتمل ہے۔ گوکہ عوام اور ذمے دار اداروں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سینیٹ وفاق میں صوبوں کا نمایندہ ادارہ ہے، جسے اسی انداز میں سمجھنے اور چلانے کی ضرورت ہے۔

معاشرے میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان پر ان کا مضمون خاصا تحقیقی ہے اور اس میں زمینی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ سول، ملٹری تعلقات کا مضمون دو اقساط پر محیط ہے جس میں اس مسئلہ کا خاصی گہرائی میں اتر کر تقابلی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت پسندانہ جائزہ ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بعض افسوسناک اوراق کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اسی ضمن میں ایک مضمون Are technocrats the solution? ہے، جس میں ان تصورات پر گفتگو کی گئی ہے کہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کی جانی چاہیے۔ ناظر نے اس تصور کو دلیل کی بنیاد پر رد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں۔

اس کے بعد تین ممالک کی مثالیں، 1957ء کا کیرالہ، وفاق سے ایک سبق، بھارت کے مسلمان صدور، بنگال سے بنگلہ دیش، میگناکارٹا کے 8 سو برس بعد، ایک مثالی ریاست کی تلاش، سوویت ریاست کے انہدام کے اسباب اور چین کے ثقافتی انقلاب پر لکھے گئے مضامین ذہن کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

اگلا حصہ Pictures کے نام سے ہے، جو دراصل کچھ واقعات، شخصیات اور حالات کی عکاسی پر مبنی حصہ ہے۔ اس حصے میں Remembering Jeanne Moreau، Mobs in pictures، ناول کا فلمایا جانا، سرد جنگ کا سیاق وسباق، انحراف کا جذبہ، موجوں کا مخالف سمت سفر، اسی طرح ایک مضمون معروف اداکار Kirk Douglas پر ہے، جس کی 100 ویں سالگرہ 9 دسمبر 2016 کو منائی گئی۔ کرک ڈوگلس، جو سنیما پر صرف جنگ مخالف ہیرو ہی نہیں تھا، بلکہ عام زندگی میں بھی ضرورت مندوں کی خدمت کے حوالے سے ایک مثالی انسان تھا۔ اس حصہ کے آخر میں وہ سنیما میں عالمی جنگ کو پیش کیے جانے پر اپنا تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

آخری حصہ شخصیات کا ہے، جس میں منصورسعید کا تحریرکردہ اور اسلم اظہر کے پیش کردہ ڈرامہ ’’گیلیلیو‘‘ پر جاندار مضمون ہے۔ اسلم اظہر کی اداکاری نے اس کردار کو لافانی بنادیا۔ ابراہیم جویو مرحوم کی تحاریر اور علم، سوبھوگیان چندانی کی سیاست، کیوبا کے فیڈل کاسترو اور زمبابوے کے موگابے کے علاوہ امریکی سیاستدان اور ڈپلومیٹ برزنسکی پر ان کے مضامین خاصے چشم کشا ہیں۔ اسی طرح Shapers of modern Egypt اور The legacy of Lorca خاصے فکر انگیز مضامین ہیں۔

الغرض یہ کتاب ڈاکٹر ناظر محمود کے انگریزی مضامین کا مجموعہ ہے، جو مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوتے رہے ہیں۔ ان مضامین کو پڑھنے سے ایک طرف پاکستان کی سیاست کے روز اول سے نشیب وفراز کو حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے، دوسری طرف عالمی منظرنامے میں جن شخصیات نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور ان کی کوششوں اور کاوشوں کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلومات ہیں، ان کے حوالے سے پیدا بعض غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب پر میرا اعتراض یہ ہے کہ یہ انگریزی کے مضامین کا مجموعہ ہے، جو ایک مخصوص حلقے تک پہنچ سکے گی۔ اگر اس کتاب کو اردو میں لایا جاتا یا اب لانے کی کوشش کی جائے، تو اس سے پاکستانیوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے بے شمار ابہام کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ناظر محمود کے ساتھ میرے تعلقات کم وبیش چار دہائیوں پر محیط ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ جتنی اچھی ان کی انگریزی ہے، اس سے کہیں اچھی ان کی اردو تحریر ہے۔ اگر اب بھی وہ یہ قصد کرلیں کہ ان مضامین کو اردو میں لائیں گے، تو ان کے لیے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ اس وقت پاکستان کے عوام وخواص جس فکری تشنج اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہیں، انھیں ایسی حقیقت پسندانہ تحروں کی اشد ضرورت ہے۔

میں اپنے دوست ناظر محمود کو اپنے فکر انگیز مضامین کو کتابی شکل میں پیش کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ یہ کتاب بدلتی دنیا پبلی کیشن نے شایع کی ہے، جس کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ ناظر محمود اور بدلتی دنیا کے پبلشر اور روح رواں ایوب ملک طلبا اور جانکاری کے شوقین افراد کے لیے اس کی قیمت میں مناسب تخفیف کریں گے۔ لیکن ایک بار پھر التماس ہے کہ اس کتاب کو اردو میں جلد آنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔