ہزاروں ارب روپے ٹیکس دینے والے 12 کروڑ ٹیکس نادہندگان

حافظ خرم رشید  ہفتہ 26 مئ 2018
ان 12 کروڑ پاکستانیوں کا نوحہ جو ہر روز ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی ٹیکس نادہندگان میں شمار ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ان 12 کروڑ پاکستانیوں کا نوحہ جو ہر روز ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی ٹیکس نادہندگان میں شمار ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

حکومت کسی بھی ملک کی ہو، اسے چلانے کےلیے رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومتیں اس رقم کے حصول کےلیے مختلف ذرائع استعمال کرتی ہیں لیکن زیادہ تر انحصارعوام سے ملنے والے ٹیکسوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ٹیکس کا باقاعدہ ایک نظام ہے جس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حکومت عوام کی سہولیات جیسے تعلیم، صحت، انفراسٹریکچر اور سبسڈیز مہیا کرنے پر صرف کرتی ہے (یا کم از کم اسے ایسا کرنا چاہیے)۔

ٹیکس کا ایک باقاعدہ طریقہ کار اور قانون ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان نے غیرمنقسم ہندوستان میں نافذالعمل ٹیکس نظام پر ہی اکتفا کیا، جس کا نام انکم ٹیکس ایکٹ 1922 تھا۔ پھر پاکستان نے 32 سال بعد اپنا پہلا ٹیکس کا قانون بنایا، جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 تھا۔ 2000 تک یہی قانون چلتا رہا۔ 2001 میں ایک نیا قانون متعارف کرایا گیا جس کا نام انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ہے، جو تاحال نافذ ہے۔

تو جناب عالی! یہ تو ہوگیا ٹیکس کے حوالے سے مختصر سا تعارف۔ اب آتے ہیں پاکستان کی اس عوام کی جانب جو روز و شب مہنگائی کی چکی میں پسنے کا رونا روتی ہے اور حکومت اپنے ترقیاتی منصوبے اور عوام کی خدمات کے گیت گاتے گاتے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد گھر سدھار جاتی ہے؛ اور نئے سرے سے سہانے باغ دکھا کر وہی لوگ یا تو حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں یا پھر پورا بار ہی اپنے سر اٹھا لیتے ہیں۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے 5 نکاتی ٹیکس اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے بہت سے اہم فیصلے کئے تھے جو یقیناً ٹیکس چوروں کےلیے کروز میزائل کی طرح ثابت ہوئے ہوں گے (ہنسنا منع ہے)۔ تاہم وزیراعظم کے چند جملے مجھ جیسے کم فہموں کے عقل و شعور سے بالاتر بھی تھے۔ ہوسکتا ہے میں ان جملوں کو اپنی کم علمی کی وجہ سے سمجھ نہ پایا ہوں یا وزیراعظم صاحب کے پاس ان جملوں کی وضاحت کا وقت نہیں ہوگا لیکن مجھ سمیت بہت سے پاکستانی ان جملوں کے جواب کے منتظر ہوں گے۔

وزیراعظم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ ملک میں 12 کروڑ افراد قومی شناختی کارڈ ہولڈرز ہیں جن میں سے صرف 7 لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ محدود تعداد معاشی مسائل پیدا کر رہی ہے جب کہ  ٹیکس ادا نہ کرنے سے قومی خزانے پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ ان جملوں کا مطلب واضح ہے کہ 12 کروڑ افراد جو شناختی کارڈ رکھتے ہیں وہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے۔

یہ جملے مجھے ماضی میں (ہوش سنبھالنے کے دنوں میں) لے گئے۔ مجھے تقریباً گزشتہ 12 سال سے اپنے موبائل پر خرچ ہونے والی ساری رقم یاد آنے لگی جو سم میں کارڈ یا ایزی لوڈ کی صورت خرچ ہوئی، اور ہر بار حکومتی ٹیکس کی آڑ میں موبائل فون کمپنیوں نے کبھی 15 فیصد تو کبھی 30 فیصد کٹوتی کی جس کی شرح اب 40 فیصد کٹوتی پر پہنچ چکی ہے۔ پی ٹی اے کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 15 کروڑ موبائل فون (کنکشنز) زیرِ استعمال ہیں جبکہ مالی سال 2016-17 کے دوران پاکستان میں ٹیلی کوم سیکٹر کی آمدنی 464 ارب روپے تھی جس میں سیلولر سیکٹر (موبائل فون کنکشن/ سم فراہم کرنے والی کمپنیوں) کا حصہ سب سے زیادہ یعنی 369 ارب روپے رہا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر 100 روپے کے بیلنس پر ٹیکسوں کی مد میں 40 روپے کٹوتی کرکے موبائل کمپنیوں نے مذکورہ عرصے کے دوران صارفین سے مجموعی طور پر تقریباً 148 ارب روپے ٹیکسوں کی مد میں جمع کیے۔ کیا یہ ایک عام صارف کے ٹیکس دہندہ ہونے کا ثبوت نہیں؟ یہ سارا پیسہ کہاں گیا، اور اتنی خطیر ٹیکس ادائیگیوں کے باوجود عام پاکستانی کو نادہندہ کیوں شمار کیا جارہا ہے؟ سمجھ سے بالا تر ہے۔

اسی طرح موٹر سائیکل کی ٹنکی میں بھروایا گیا سارا پیٹرول جیسے میرے جسم اور روح کو آگ لگا کر راکھ کرگیا جو میں نے 36 روپے سے 115 روپے فی لیٹر تک میں ڈلوایا ہے اور جس کی قیمت میں اضافے کو پاکستان کی وزارتِ پیٹرولیم کی جانب سے عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ گردانا گیا۔ فروری 2018 میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزارت پیٹرولیم نے پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی شرح کے حوالے سے رپورٹ پیش کی تو میرے اوسان خطا ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 55 روپے 9 پیسے تھی جب کہ اُس وقت صارفین کےلیے ڈیزل کی قیمت 95 روپے 83 پیسے مقرر تھی۔ اس طرح فی لیٹرڈیزل پر حکومت صارفین سے 40 روپے 74 پیسے ٹیکسز وصول کررہی ہے؛ یعنی ڈیزل کے ہر لیٹر پرعوام سے 74 فیصد ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 50 روپے 27 پیسے فی لیٹر تھی جب کہ اُس وقت صارفین کےلیے پیٹرول کی قیمت 84 روپے 51 پیسے تھی۔ اس طرح ایک لیٹر پیٹرول پر حکومتی ٹیکسوں کی شرح 34 روپے 24 پیسے بنتی ہے۔ یعنی پیٹرول کی مد میں بھی حکومت اس کی اصل قیمت پر 68 فیصد ٹیکس وصول کررہی تھی۔

دلچسپی کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ اس بارے میں درست اعداد و شمار پیش نہیں کرتا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں حکومت کو کتنے سو ارب روپے سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے اور نہ ہی یہ بتاتا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت کم ہونے  کے باوجود بھی پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہی کیوں جارہی ہیں۔

بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اگر میں ہرایک چیز پر دی گئی ٹیکس کی رقم کی تفصیل سے لکھنا شروع کردوں تو شاید ایک کتاب کا مصنف بن جاؤں لیکن چند چیزوں کا ذکر ضروری ہے۔ وزیراعظم صاحب کے بیان کے بعد مجھے یاد آیا کہ فلاں صابن کسی دور میں 15 روپے کا تھا اور اب اس کی قیمت 50 روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور دکاندار صابن پر لکھی قیمت پر ٹیکس کی مد بھی بتاتا تھا۔ اسی طرح شیمپو، ٹوتھ پیسٹ، شو پالش، بسکٹ، فئیرنس کریم، جوس، ادویہ اور ہزاروں اشیائے خور و نوش و ضروریاتِ زندگی بھی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں جن پر ٹیکس کا واضح لفظ کندہ ہوتا ہے۔

مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ ہماری روزمرہ استعمال کی اشیا پر ٹیکس کیوں لئے جاتے ہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ 12 کروڑ افراد کا ادا کردہ ٹیکس کہاں غائب ہوجاتا ہے جو آج تک کسی بھی حکومت کو نظر نہیں آیا؟ اور اربوں روپے ٹیکس دینے کے باوجود بھی عوام کو ٹیکس نادہندہ کیوں کہا جاتا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔