انسان کا سب سے بڑا دشمن

سعد اللہ جان برق  بدھ 16 مئ 2018
barq@email.com

[email protected]

اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے تو آپ یقیناً شیطان کا نام لیں گے لیکن اگر شیطان ( فرض کیجیے ) آپ کے پاس آکر خود کان پکڑ کر بلکہ مرغا بن کر اعتراف کرے کہ بس جانب۔ ایسا ایک دومرتبہ ہو چکا ہے۔ ایک مرتبہ ایک انسان نے ایک ایسا کام کر دکھایا کہ کسی زبردست سائنسی ایجاد سے کم نہ تھا لیکن کام ہو جانے کے بعد جیسا کہ انسان کا خاندانی وطیرہ ہے اسے پشیمانی ہوئی اور توبہ توبہ کرتے ہوئے، بولا شیطان تیرا خانہ خراب ہو ۔

اس پر شیطان نے بہ نفس نفیس حاضر ہو کر کہا، یہ بہت بڑا ظلم ہے، تم جو کارنامہ کر دکھایا ہے ایسا کارنامہ میرا باپ بھی نہیں جانتا تھا۔ ایک مرتبہ سنا ہے، اگر چہ ذریعہ باوثوق نہیں، قہر خداوندی چشم گل چشم ہے لیکن بات دل کو لگتی ضرور ہے کہ شیطان نے ایک مہینے کی قید سے رہائی پاکر عید کے دن تمام دکانداروں کو نہ صرف مبارک باد دی بلکہ تحفے تحائف دیتے ہوئے شکریہ بھی ادا کیا کہ میری غیر حاضری میں ’’ میرا کام ‘‘ جتنا اچھا تم لوگوں نے چلایا ہے، ایسا میں نے کبھی نہیں چلایا تھا ۔خیر ان سب باتوں پر جھاڑوں پھیر دیجیے اور نئے سرے سے غور کرکے بتائیے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے ؟ ہمیں پتہ ہے آپ نہیں بتائیں گے لیکن ہم آپ کو ایک ’’کلیو‘‘ دیتے ہیں ۔

ہوا یوں کہ یہ سوال ایک دن ہم نے اپنے ٹٹوئے تحقیق سے کبھی پوچھا تھا اور اس کم بخت نے اپنی دانست میں دنیا کی سب سے بڑی تحقیق اور انکشاف کرتے ہوئے ایک آئینے کی طرف اشارہ کر دیا تھا اور اس پر ہم نے اس کی ایسی پٹائی کی جیسی ایک بیوہ خاتون نے اپنے بیٹے کی تھی ۔ خاتون کا بیٹا ایک دن روتے ہوئے گھر آیا اور شکایت کی کہ فلاں نے مجھے مارا ہے۔ ماں نے اسے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ تم روزانہ کسی نہ کسی کی مار کھا کر آجاتے ہو، یہ لوگ تمہیں مارتے کیوں ہیں؟ لڑکا بولا ، ماں اس لیے کہ میں سچ بولتا ہوں۔ اس پر ماں نے تعجب سے کہا، بھلا سچ بولنے پر بھی کوئی کسی کو مارتا ہے، سچ تو بڑی اچھی چیز ہے اور میں نے ہی تجھے سیکھایا کہ ہمیشہ سچ کہو اور سچ کے سوا اور کچھ مت کہو۔

آج تک ایسی کوئی بیماری انسان کو لاحق نہیں ہوئی جو ’’بھوک ‘‘ سے پیدا ہوئی ہو لیکن یہ تمام بیماری جو انسان کو لاحق ہوتی ہیں ’’ کھانے ہی کی وجہ سے پیدا  ہوتی ہیں ۔ یہ شوگر، بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں ،گردوں، جگر اور معدے کی بیماریاں، آنتوں کی بیماریاں سب کی سب ’’ کھانے ‘‘ ہی سے پیدا ہوتی ہیں ۔ ہمارے ایک بزرگ تھے ، وہ انتہائی درجے کے کنجوس ہونے کی وجہ سے بہت کم کھاتے تھے۔

وہ بھی زیادہ تر پرائے گھر میں، وہ کہتے تھے کہ میں نے کبھی بازار کی کوئی چیز نہیں کھائی ،گوشت کے تو سراسر خلاف، صرف  سبزیوں پر گزارہ کرتا تھا ۔ اس لیے ہم نے پیش گوئی کر رکھی تھی کہ یہ کم سے کم پانچ سو سال تو جئے گا ہی ۔ لیکن ہماری اس پیش گوئی کو بھی اس نے غلط ثابت کیا اور غسل خانے میں جاکر پھسل گیا جس سے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی جو اسے اوپر لے گئی اور اس میں بھی اس کی خوددشمنی ہی کار فرما تھی کہ اس نے غسل خانہ اتنا چکنا بنوایا تھا خود ہی چل کر اس میں پھسلنے کے لیے گیا تھا ۔

اور بھی بہت ساری مثالیں ہم دے سکتے ہیں۔ بھٹو اگر آرام سے اپنے والد کی جائیداد پر صبر کرتا یا صرف وکالت پر گزارا کرتا تو آج بھی زندہ ہوتا اور شاید ضیاء الحق بھی۔ ہمارے ٹٹوئے تحقیق کا پکا پکا عقیدہ ہے کہ آج تک کسی انسان کو کسی اور نے نہیں مارا، اگر مارا بھی ہے تو خود اسی نے خودکو مروایا ہے ۔

اسی لیے تو کہتے ہیں کہ انسان جب اس دنیا میں انٹری دیتا ہے تو روپڑتا ہے جب کہ دوسرے لوگ ہنستے ہیں۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں کہ ایک اورآگیا اپنی دشمنی کو اپنے ساتھ لے کر اور جب مرتا ہے تو یہ خود ہنس رہا ہوتا ہے، چلو چھوٹ گئے جب کہ دوسرے روتے ہیں کہ ہم رہ گئے اور یہ چھوٹ گیا ۔ جس طرح جیل میں ہوتا ہے کہ ہر جیل جانے  والا دکھی ہوتا ہے اور جیل کے قیدی خوشی خوشی اسے اہلاً و سھلاً  کہتے ہیں اورجب کوئی رہائی پاتا ہے تو دوسرے دکھی ہو جاتے ہیں کہ ہم رہ گئے اوروہ چھوٹ گیا ۔ان تمام حالات و واقعات شہادتوں اور ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات اور وکیلوں کی بحث سے ’’ عدالت ‘‘ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مقتول کو کسی نے قتل نہیں کیا ہے بلکہ اس نے خود کشی کی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔