روسو اور والیٹر کا انتظار ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 16 مئ 2018

انقلاب فرانس کے بعدجب بادشاہ کوجیل بھیجا گیا تو وہ بار بار ہاتھ مل کر ایک بات افسوس سے کہتا تھا ’’مجھے روسو اور والٹیئر کی تحریریں لے ڈوبیں‘‘ کاش کہ میرے وطن میں بھی کہیں سے روسو اور والٹیئر آجائیں کہ جن کی تحریروں سے میرے وہ ہم وطن جو ذلتوں کی چکی میں بے گناہ پیسے جا رہے ہیں، جن کی زندگیاں گلیوں میں آوارہ گھومنے والے جانوروں سے زیادہ بدتر بنا د ی گئی ہیں جو خون تھوکتے ہوئے بھوکے پیاسے بے وجہ بے وقت مرے جا رہے ہیں جو بے کفن اپنی اپنی قبروں میں جا لیٹ رہے ہیں جاگ جائیں، اٹھ کھڑے ہوں اور چلا چلا کر بولیں کہ ہم بھی انسان ہیں، ہمیں بھی جینے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ تمہیں ہے۔

جو اپنے حق کے لیے بغاوت کر دیں اور پھر جب میرے وطن کے لٹیرے، غاصب، ظالم، چور،کرپٹ جیل جا رہے ہوں تو وہ بھی بار بار ہاتھ مل کر افسوس کے ساتھ کہہ رہے ہوں کہ ہمیں بھی روسو اور والٹیئرکی تحریریں لے ڈوبیں۔ آئیں روسو اور والٹیئر کے متعلق باری باری جاننے کی کوشش کرتے ہیں یہ روسو کی تحریریں ہی تھیں جنہوں نے غریب عوام کے لیے حقوق مانگے ریاست کے ہر شہری کے لیے آزادی اور برابری کا درجہ طلب کیا جس نے جدید تعلیمی نظام کا تصور پیش کیا اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی۔ روسو ایک ایسی جمہوریت کا خواہشمند تھا جس میں شہریوں کو آزادی، انصاف اور برابری کا درجہ حاصل ہو یہ ہی وہ تین نعرے تھے جو Battle cry  of revolution بن کر ابھرے اور فرانس میں انقلاب آ گیا۔

اس کی شاہکار تصنیف ’’معاہدہ عمرانی‘‘ 1762ء میں ایمسٹرڈیم سے شایع ہوئی فرانس سے اس لیے نہیں چھپی کہ فرانس میں حکومت کا سنسر شپ اسے برداشت نہیں کرسکتا تھا ’’معاہدہ عمرانی‘‘ اس تاریخی جملے سے شروع ہوتا ہے جو ضرب المثل بن کر دنیا میں چاروں طرف پھیل گیا اور غلامی کے اندھیروں میں آزادی کی چنگاریاں اڑنے لگیں، جملہ یہ تھا ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے جدھر دیکھو وہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘ شیلے،کیسٹس، بائرن اورکولرج اس کی رومانویت سے متاثر ہوئے گوئٹے نے اثر قبول کیا۔

وکٹر ہیوگو نے اس کی عظمت کو تسلیم کیا ہوبس اور جان لاک نے اس کے نظریات کی حمایت کی۔ جب اس کی کتاب کو نذر آتش کیا جا رہا تھا تو والیٹر نے کہا تھا ’’تم آج روسو کی کتاب نذر آتش کر رہے ہو کل اسی کتا ب کی جلد تمہاری چمڑی سے بنائی جائے گی‘‘ جب کہ دوسری جانب والٹیئر روشن ضمیری کا سب سے بڑا مبلغ تھا، انسانی حقوق کا پر چارک، مصنف، دانشور، ڈرامہ نگار، طنز نگار اور فلسفی،18 ویں صدی کو ناز ہے کہ والٹیئر اس صد ی میں زندہ تھا اور 18 ویں صدی کی پہچان بنا۔ والٹیئر کا زمانہ عوامی مشکلات کا زمانہ تھا، بادشاہ کے اصطبل میں ہزاروں گھوڑے اچھی خوراک کھا رہے تھے لیکن عوام کو روٹی نہیں ملتی تھی عوام روٹی نہ ملنے کا گلہ کرتے تو بادشاہ جواب دیتا ’’ڈبل روٹی کھایاکرو‘‘ ایک دن دربار عام میں درباری اور عام لوگ جمع ہوگئے تھے۔

والٹیئر بھی موجود تھا بادشاہ نے بڑے فخر سے اعلان کیا ’’میں اپنے اصطبل کا خرچہ کم کر رہا ہوں تا کہ یہ رقم عوامی کی فلاح پر خرچ کی جا سکے چنانچہ میں نے اپنے اصطبل سے ایک ہزارگھوڑے نکال دیے ہیں‘‘ والٹیئر یہ سن کر کھڑا ہو گیا اور درباریوں کی طرف اشاہ کر کے کہا ’’لیکن آپ کے دربار میں جو یہ سیکڑوں گدھے موجود ہیں انھیں کب دربار سے فارغ کریں گے‘‘ والٹیئر کا یہ جملہ اسی کی تباہی کا باعث بنا اور اسے ایک عرصہ جلا وطن رکھاگیا وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتا تھا جو فکری اور سماجی طور پر مضبوط اور با عمل سو چ کا قائل ہو ۔

اس نے ساری زندگی بادشاہوں اور آمروں کے خلاف لکھا اور انسانی حقوق پامال کرنے پر لعن طعن کرتا رہا اس نے ان کے طرز حکومت پر اعتراضات کیے مذہبی جنون پر ستی کے خلاف لکھا۔ پادریوں کی من مانی کرنے والی فطرت کو بے نقاب کیا۔ آئیں! واپس ہم اپنی بات کرتے ہیں ہمارے سال اسی حال میں بیتے جا رہے ہیں لیکن کہیں سے بھی روسو اور والٹیئر آکے نہیں دے رہے ہیں اور میرے لوگ ہیں کہ سوئے پہ سوئے جا رہے ہیں کہیں سے بھی اس ذلت بھری زندگی کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے ایسا سناٹا ہے کہ دل گھبرا جاتا ہے ایسا اطمینان ہے کہ باربار رونے کو دل چاہتا ہے لوگ ایسے بے بس ہوئے ہیں کہ سوچنے اور سمجھنے تک کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں وہ اس زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی تک کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

ان کے نزدیک زندگی بس یہ ہی ہے اجڑی، برباد، تباہ شدہ اور زنگ آلود۔ دن بھر ذلتیں سہنا اور رات بھر زار و قطار رونا۔ اپنے آپ کو مارنا اور پیٹنا کیا ہم سب بھی اپنے سے پہلے کے لوگوں کی طرح اسی حال میں مر جائیں گے،کیا ہمارے خواب، ہماری خواہشیں، ہماری آرزویں، پوری ہوئے بغیر ہمارے ساتھ ہی مرجائیں گی۔ کیا ان سب کی قبریں ہماری قبروں کے برابرکھودی جائیں گی؟ کیا ان المیوں کی ذمے داری ہم پر عائد ہو گی یا پھر یہ گلا سڑا اور غلیظ نظام ذمے دار ہوگا۔ سوچنے کی بات ہے ہم جنہیں چھوڑے جائیں گے وہ ہمیں برا بھلا کہیں گے یا پھر اپنے آپ پر ماتم کریں گے؟ کیا وہ بھی ہماری ہی طرح تاریک راہوں میں ماریں جائیں گے؟ کیا وہ بھی ہماری ہی طرح ذلتوں بھر ی زندگی جئیں گے؟ روسو اوروالٹیئرکا انتظار کرتے ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔