خلائی مخلوق

سردار قریشی  بدھ 16 مئ 2018

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اتنے دنوں سے اپنے جلسوں خواہ میڈیا سے بات چیت میں جس خلائی مخلوق کا ذکر کررہے تھے، اس کی نہ صرف شناخت ہوگئی ہے بلکہ پکڑے جانے کی امید بھی پیدا ہوچلی ہے،کیونکہ سپریم کورٹ نے 2012ء میں اصغر خان کیس میں اپنے فیصلے کے خلاف سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی کی نظر ثانی کے لیے دائرکردہ درخواستیں مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ حکومت ایک ہفتے کے اندر ان سابق فوجی افسران کے خلاف کارروائی کرے۔

قبل ازیں اصغر خان کیس دوبارہ کھولتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے دریافت کیا تھا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود فیصلے پر عملدرآمدکیوں نہیں ہوا اور اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں 1990ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ فوج یا اس کے ذیلی اداروں کا ملک کے سیاسی معاملات میں کوئی کردار نہیں جب کہ مذکورہ دونوں جنرلوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کے ایماء پر یونس حبیب کی مدد سے پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے آئی جی آئی بنوائی اور سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کیں۔

جنرل اسلم بیگ نے اپنے خلاف الزامات کی تردید کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ انھوں نے خلاف آئین کوئی کام نہیں کیا جب کہ جنرل اسد درانی نے نہ صرف ان کی تصدیق کی بلکہ کہا کہ انھوں نے سب کچھ جنرل اسلم بیگ کے حکم پر کیا تھا۔ گویا یہ ثابت ہوچکا کہ فوج وقفے وقفے سے منتخب جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعے سیاسی معاملات میں مداخلت بھی کرتی رہی ہے اور حکومتیں بنانے، گرانے، چلانے یا نہ چلنے دینے میں پوری طرح ملوث رہی ہے، یہاں تک کہ سیاستدانوں کو کرپٹ بنانے کا کریڈٹ بھی اسی کو جاتا ہے۔

عدالت کے استفسار پر اس کی جانب سے ایک ایسی فہرست بھی پیش کی گئی تھی، جس میں اس کی تفصیل درج تھی کہ کس سیاستدان کو کتنی رقم ادا کی گئی۔ فہرست میں جانے پہچانے کرپٹ سیاستدانوں کے علاوہ کچھ اچھی شہرت رکھنے والے ’’پردہ نشینوں‘‘ کے نام بھی شامل تھے۔ غلام اسحٰق خان تو اپنا بویا ہوا کاٹنے کے لیے اب دنیا میں نہیں، البتہ کیس کے ری اوپن ہونے سے ایک نیا انکشاف یہ بھی ہوا کہ آئی ایس آئی کے ذریعے ہونے والی بندر بانٹ میں سے خود جنرل اسلم بیگ نے بھی اپنی این جی او کے نام پر 3 کروڑ روپے وصول کیے تھے۔

یوں اصغر خان کیس نے اس خلائی مخلوق کی پہچان کروادی ہے جس کے لیے نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ ریاست کے ایک ستون (حکومت) پر قبضہ کرنے کے بعد اب مرضی کی پارلیمنٹ لانا چاہتی ہے۔ یہ سوال کرتے ہوئے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کی رٹ کہاں ہے، انھوں نے اعلان کیا کہ انتخابات میں ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہوگا۔

اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے میاں صاحب نے پوچھا اگر پردے کے پیچھے سے ڈوریں نہیں ہلائی جا رہیں تو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک مبینہ حکم اور زرداری صاحب کے بیان کی بریکنگ نیوز کس کے کہنے پر چلائی گئی تھیں؟ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اس عدالتی حکم اور سیاسی بیان کی خود چیف جسٹس پاکستان اور آصف زرداری صاحب کو تردید کرنا پڑی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ سے منسوب عدالتی حکم اور مذکورہ سیاسی بیان کو جعلی تو قرار دے دیا گیا مگر پس پردہ عوامل کو بے نقاب کرنے اور ذمے داروں کو سزا دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

اس اظہار بے بسی سے قطع نظر سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار شاید میاں صاحب کی باتوں کو ان کے اصل بیانیہ کا ضمیمہ یا اضافی حصہ سمجھ کر نظر اندازکردیتے اگر عمران خان اور زرداری صاحب اس حوالے سے غیر ضروری وضاحتیں کرکے ان کی اہمیت اجاگر نہ کرتے۔ پھر عمران خان نے تو اس وقت حد ہی کردی جب سیاسی معاملات میں عدلیہ اور فوج دونوں کے ملوث رہنے کی گواہی دیتے ہوئے انھوں نے بالواسطہ نواز شریف کے الزامات کی گویا تصدیق کردی۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے انکشاف کیا کہ فوج اور عدلیہ دونوں نیوٹرل ہوگئے ہیں، نواز پچھلے انتخابات فوج کی مدد سے جیتے تھے، 13ء کے الیکشن میں عدلیہ بھی ان کے ساتھ تھی، پنجاب میں فوج نے ریٹرننگ افسران کو گھیرے میں لیا اور اندر ٹھپے لگائے گئے وغیرہ۔ نواز شریف کے ان دونوں بڑے سیاسی مخالفین آصف زرداری اور عمران خان کی باتوں سے ان کے بیانیے کو تقویت ملی اور باتوں میں وزن محسوس ہونے لگا۔

اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ ان کے سینے میں بہت راز ہیں جن کے افشاء ہونے سے پہلے بہتر ہوگا کہ سازشی سدھر جائیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی اپنے قائد کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ انتخابات نگراں حکومت نہیں بلکہ خلائی مخلوق کرائے گی اور یہ کہ نواز شریف کا مستقبل آج بھی ہے تو کل بھی ہوگا۔ جے یو آئی (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی بات سے بھی میاں صاحب کے موقف کی تائید ہوتی ہے جنہوں نے کہا ہے کہ حکومت کٹہرے میں کھڑی ہے جب کہ اس کی جگہ ادارے حکومت کر رہے ہیں۔

’’جمہوریت کا دارومدار عوامی تائید و حمایت پر ہوتا ہے‘‘ کا بنیادی اصول دہراتے ہوئے مولانا نے یاد دلایا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم بنیں۔ حد یہ ہے کہ اب آئینی عہدے رکھنے والے غیر سیاسی حکام بھی سیاسی معاملات پر اظہار خیال کرنے لگے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد یونیورسٹی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے گورنر محمد زبیر نے کہا کہ اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے کہ ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا ہے یا عوامی فلاحی ریاست۔ ہم 70 سال سے بدعنوانی ختم کرنے کے نام پر حکومتوں اور لیڈروں کو ہٹاتے اور تبدیل کرتے چلے آ رہے ہیں، اب ہمیں یہ سوچ بدلنی ہوگی۔ تجزیہ کار بھی اس پر متفق ہیں کہ رہنماؤں کو نا اہل قرار دیتے رہنے سے ن لیگی بیانیہ مضبوط ہوگا، انھوں نے نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پہیلیاں بجھوانے کی بجائے کھل کر بات کیا کریں۔

سو جسے دیکھو اس کا اشارہ میاں صاحب کی متعارف کرائی ہوئی خلائی مخلوق کی طرف ہے اور سب حتیٰ کہ ان کے مخالفین بھی اسے بے لباس دیکھنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں کیونکہ آگے چل کر کسی مرحلے پر وہ خود ان کے بھی تو آڑے آسکتی ہے۔ اب تک کسی سیاسی مبصر یا تجزیہ کار نے اسے’’اندیشہ دور دراز‘‘ قرار دیکر رد نہیں کیا نہ ہی اس بحث کو فضول اور وقت کا زیاں سمجھا جا رہا ہے، اس کے برعکس سب اس کا سد باب اور آئین کے تحت دائمی حل چاہتے ہیں یعنی یہ کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں، ان سے تجاوز نہ کریں اور ایک دوسرے کے کام میں کسی بھی بہانے مداخلت کرنے سے گریز کریں۔

دیکھیے سپریم کورٹ اصغر خان کیس کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہوئے خلائی مخلوق کو زمینی معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کے لیے جو احکامات دیے ہیں، حکومت ان پر عملدرآمد کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی ایک مذہبی جنونی کے قاتلانہ حملے کا نشانہ بن کر نہ صرف ملکی حالات کی سنگینی کا احساس دلایا ہے بلکہ اس حوالے سے کارروائی کے لیے عدالت عظمیٰ خواہ حکومت دونوں کا کام مزید آسان کردیا ہے۔ خود ہم بھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ہرگزجسارت نہ کرتے اگر سپریم کورٹ ہی کے ایک فاضل جج شیخ عظمت سعید کا یہ فرمان ہماری حوصلہ افزائی نہ کرتا کہ ’’میں اب بھی اپنی کہی ہوئی اس بات پر قائم ہوں کہ ہرکوئی عدالتی فیصلے پر اپنی رائے کا، خواہ وہ جیسی بھی ہو، اظہارکر سکتا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔