فولادی خاتون مارگریٹ تھیچر خاک نشیں ہو گئی

غلام محی الدین  اتوار 21 اپريل 2013
عالمی سیاست میں ان کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جائے گا۔فوٹو : فائل

عالمی سیاست میں ان کا نام ہمیشہ احترام سے لیا جائے گا۔فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  دنیا میں کسی عورت کا سربراہِ مملکت بن جانا لوگوں کے لیے ہمیشہ سے ایک بڑی خبر رہی ہے، جب آںجہانی مارگریٹ تھیچر1979 میں برٹش کنزرویٹیو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کی پہلی وزیرِ اعظم مقرر ہوئیں تو پوری دنیا روایت پسند برطانوی سماج کی اس جرأت پر خاصی حیران ہوئی تھی۔

مگر جب وہ 1990 تک اپنے عہدے پر براجمان رہیں اور ان کے دور حکومت میں ملک نے ترقی کے زینے بھی طے کیے تو بہت سے ناقدین کو چپ لگ گئی تھی۔ 8 اپریل 2013 کو وہ87 برس کی عمر میں فالج کے حملے کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہوئیں تو برطانوی حکومت نے اعلان کیا کہ سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی تدفین مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ لندن کے سینٹ پالز کیتھیڈرل میں ہو گی ۔ 17 اپریل کو ان کی آخری رسومات فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں جس میں دنیا بھر سے بیش تر سربراہان مملکت شریک ہوئے۔ مارگریٹ تھیچر کی تدفین سرکاری سطح پر تو نہیں ہو ئی تاہم ان کو وہی درجہ دیا گیا جو لیڈی ڈیانا اور برطانیہ کی موجودہ ملکہ کی والدہ کو دیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم کے انتقال کے بعد برطانیہ کا قومی پرچم ’’یونین جیک‘‘ سرنگوں کر دیا گیا تھا اور برطانوی پارلیمان کا ایک تعزیتی اجلاس بھی طلب کیا گیا تاکہ ارکانِ پارلیمان انھیں خراجِ عقیدت پیش کر سکیں۔ مارگریٹ تھیچر کافی عرصے سے صحت کی خرابی کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے دور تھیں اور عوامی تقریبات میں نظر نہیں آتی تھیں۔

آخری دنوں میں انھیں اپنے چیسٹر اسکوائر میں واقع گھر کی سیڑھیوں پر چڑھنے سے تکلیف ہوتی تھی جس کی وجہ سے وہ گذشتہ کرسمس کے بعد رٹز ہوٹل میں مقیم ہو گئی تھیں۔ سال 2002 میں ان پر فالج کا ایک معمولی حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میںوہ نسیان (Dementia) کے عارضے میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد یعنی 2003 میں ان پر ایک اور بپتا آن پڑی کہ ان کے شوہر ڈینس تھیچر انتقال کر گئے۔ یہ ایک ایسا صدمہ تھا کہ ان کی رہی سہی توانائی بھی ان کا ساتھ چھوڑنے لگی، ایک اذیت ناک تنہائی نے انہیں

آ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں اپنے شوہر سے بے حد محبت تھی۔ ایک دور تھا جب وہ سیاست کی بے سمت بھول بھلیاں میں گھری ہوئی تھیں، پھر ایک وقت آیا کہ وہ ملک کی سربراہ بن گئیں لیکن ان ساری جاں کاہیوں کے باوجود وہ اپنے میاں سے رابطہ کبھی قطع ہونے نہیں دیتی تھیں، وہ مسٹر تھیچر کی خیریت دریافت کرنا کبھی نہ بھولتیں اور دن میں اُن سے گفت گو کے لیے بہ ہرحال وقت نکال لیا کرتی تھیں۔ ان کے ہاں جڑواں بچے مارک اور کارل ہوئے جو آج کل بیرون ملک رہائش پذیر ہیں۔

ان کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر ( Margaret Hilda Thatcher) تھا جب کہ پیدائشی نام مارگریٹ ہلڈا رابرٹس تھا۔ وہ 13 اکتوبر 1925 کو انگلستان کے لنکن شائر کے علاقے گرانتھم میں پیدا ہوئیں۔ وہ الفریڈ رابرٹس کے گھر پیدا ہونے والی دوسری بیٹی تھیں۔ یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا گھرانا تھا۔ ان کے والد پرچون کی دکان چلایا کرتے تھے، ساتھ ہی مقامی کونسل کے رکن بھی تھے، بعد میں اسی علاقے سے میئر منتخب ہوئے۔ مارگریٹ تھیچر پر اپنے والد کی تربیت کا بہت اثر تھا۔

انھوں نے 1951 میں ایک سرمایہ دار ڈینس تھیچر سے شادی کی جن سے ان کے دو جڑواں بچے مارک اور کارل پیدا ہوئے۔ انھوں نے جامعہ آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ جب وہ آکسفورڈ میں گریجوایشن مکمل کر رہی تھیں تو انھیں کنزرویٹو ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا گیا تھا اور یہاں سے ہی انھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔

بعدازاں انھوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور 1954 سے 1957 تک وکالت کے پیشے سے وابستہ رہیں۔ 1959 میں قدامت پسند پارٹی کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ دو سال بعد قومی بیمہ اور پنشن کی وزارت میں مشترکہ پارلیمان کی معتمد (جوائنٹ پارلیمنٹری سیکریٹری) مقرر ہوئیں۔ 1964 سے 1970 تک جب وہ قدامت پسند پارٹی (اپوزیشن) میں تھیں تو اپنی جماعت کی شیڈو کیبنٹ میں سماجی تحفظ کی نائب وزیر مملکت برائے تعلیم و سائنس رہیں۔ فروری 1974 میں قدامت پسند پارٹی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد پارٹی کی شیڈو کیبنٹ میں شامل ہو گئیں۔

1975 میں ان کی کارکردگی کے باعث انہیں جماعت کی سربراہ منتخب کر لیا گیا۔ مئی 1979 کے انتخابات میں ان کی جماعت فتح یاب ہوئی انہیں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کا موقع ملا اور پھر یہ سلسلہ 1990 تک جاری رہا۔

مارگریٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کی وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں نہ صرف یہ بل کہ وہ لارڈ سالسبری کے بعد سب سے زیادہ عرصے تک مسند اقتدار پر براجمان رہیں، 19 ویں صدی کے اوائل میں لارڈ لیورپول بھی خاصے طویل عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔

یہ اعزاز بھی ان کے حصے میں آتا ہے کہ وہ برطانیہ کی ایک بہت اہم سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون تھیں اور ملکی تاریخ کی واحد خاتون تھیں جس نے ریاست کے چار اہم مناصب پر خدمات انجام دیں۔ وہ سوویت اتحاد پر کڑی تنقید کیا کرتی تھیں اور 1976 میں سوویت قیادت کے خلاف ایک جارحانہ تقریر پر ان کو ’’ خاتونِ آہن‘‘ کا لقب دیا گیا تھا۔ ان کے دور کے اہم واقعات میں سرد جنگ کے اختتامی ایام رونما ہوئے، شمالی آئر لینڈ میں بغاوت میں اضافہ ہوا، ایرانی سفارت خانے کا محاصرہ کیا گیا، فاک لینڈ کے جزائر پر ارجنٹائن کے ساتھ چھڑنے والی جنگ کو کام یاب انجام تک پہنچایا اور ہانگ کانگ کو چین کے حوالے کرنے کا معاہدہ بھی ان ہی کے عہد کی یادگار ہے۔ ان کے دور میں برطانیہ اور آرجنٹینا کے درمیان 74 دن تک جنگ جاری رہی تھی، اس میں اڑھائی سو سے زیادہ برطانوی فوجی مارے گئے تھے۔

1979 میں برطانوی سرزمین پر امریکا کے جوہری کروز میزائلوں کی تنصیب پر انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا اور ملک بھر میں اس فیصلے کے خلاف زبردست مظاہرے کیے گئے تھے۔ 1982 میں بحر اوقیانوس میں واقع جزائر فاک لینڈ پر ارجنٹائن کے قبضے کے بعد عسکری مہم کے باعث ان کو برطانیہ میں بڑی شہرت ملی کیوں کہ اسی مہم کے نتیجے میں برطانیہ نے فاک لینڈ جزائر پر اپنا قبضہ بحال کرایا تھا۔ یہ اسی جنگ کا نتیجہ تھا کہ 1983 کے انتخابات میں قدامت پسند جماعت بھاری اکثریت سے جیتی تھی۔ 1984 میں کنزرویٹو پارٹی کے ایک اجتماع میں بم دھماکے بھی ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچی تھیں، اس دھماکے کی ذمے داری آئرش ریپبلکن آرمی (IRA) نے قبول کی تھی۔ 1986 میں تھیچر نے امریکی افواج کو لیبیا کے خلاف بمباری کرنے کے لیے برطانیہ کے فضائی اڈوں فراہم کیے تھے۔

1987 کے عام انتخابات میں فتح کے بعد تھیچر 20 صدی میں مسلسل تیسری مرتبہ برطانیہ کی وزیر اعظم بنیں تاہم ان کی تیسری مدت میں جماعت کے اندر کچھ خلفشار سا برپا ہو گیا اس کا ذمے دار مارگریٹ تھیچر کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے اعتماد کو ٹھہرایا جاتا ہے، ان دنوں ان پر آمرانہ ذہن رکھنے والی خاتون کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے انھیں خاصے مشکل اور نامقبول کرنے پڑے۔ انھوں نے نئے محصولات نافذ کیے تو عوام نے انتہائی غیض و غضب کا اظہار کیا تھا۔ یہ محصول جو ہر بالغ شہری پر لگایاگیا تھا، 1989 میں اسکاٹ لینڈ اور بعد ازاں 1990 میں انگلستان اور ویلز میں بھی نافذ کیا گیا۔ برطانیہ کے کئی باشندوں نے محصول کی ادائی سے انکار کر دیا تاہم تھیچر اٹل رہیں اور انھوں نے کسی طرح کی رعایت دینے سے انکار کر دیا تھا۔

انھوں نے اپنی آپ بیتی دو جلدوں ’’ قوت کا راستا‘‘ اور ’’دی ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ کے نام سے قلم بند کیں۔ 1993 میں بی بی سی نے ’’دی ڈاؤننگ اسٹریٹ‘‘ کو دستاویزی شکل دی تھی۔ 2002 میں ان کی تیسری کتاب ’’ریاست کاری‘‘ (State Craft) منظر عام پر آئی جس میں اکیسویں صدی میں سیاسی معاملات پر ان کا نقطہ نظر سامنے آیا۔

ان کو آرڈر آف گارٹر، آرڈر آف میرٹ، برطانیہ کی پریوی کونسل کی رکن، فیلو آف دی رائل سوسائیٹی جیسے اعلیٰ ترین ملکی اعزازات پیش کیے گئے، علاوہ ازیں بین الاقوامی سطح پر انھیں صدارتی تمغۂ آزادی، جمہوری سینیٹوریل تمغۂ آزادی اور رونالڈ ریگن اعزازِ آزادی بھی دیے گئے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی سیاسی ڈھانچے میں اہم تبدیلیاں لانے والے دو اہم سیاست دان اور وزراء اعظم میں کلیمنٹ ایٹلی اور مارگریٹ تھیچر کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔، لیبر جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم ایٹلی نے اپنے دور حکومت میں برطانیہ کو ایک فلاحی مملکت بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے تھے۔ اس دور میں برطانوی معیشت پر عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں اور بہت سے رعایتی ٹیکسوں کی وجہ سے بوجھ بڑھتا جارہا تھا، ایسے ہی دور میں جب مارگریٹ تھیچر برطانوی وزیر اعظم کی حیثیت سے آئیں تو انھوں نے تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے نج کاری کی پالیسی کو فروغ دیا۔

انھوں نے اپنے دور میں کئی بینک اور ادرے فروخت کیے جب کہ مقامی انتظامیہ (کونسل) کے مکانوں میں رہنے والے کرایہ داورں کو یہ حق دیا کہ وہ حکومت سے رعایتی قیمت پر اپنے زیر استعمال مکان خرید لیں، ان کے دور میں غیر منافع بخش صنعتوں کو بیچ یا بند کر دیا گیا، جن میں اسٹیل کی صنعتیں سرفہرست تھیں۔ انھوں نے تعلیمی نظام میں ایک نئی منصوبہ بندی کی جس کے تحت اسکولوں کو کارکردگی کے حوالے سے جانچا جانے لگا ، یہ طریقہ آج بھی برطانیہ میں رائج ہے۔ ان کے دور حکومت میں مزدور اتحاد کی طاقت کو کم کرنے کی پالیسیوں اور بے روزگاری کے مسائل میں اضافے کی وجہ سے 1981 میں لندن سمیت کئی مقامات پر نسلی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس کے بعد عوامی حلقوں میں لیڈی تھیچر کی سیاسی سوجھ بوجھ پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا اس سے ان کی مقبولیت میں کمی آئی۔

1990 میں جب انھوں نے ایک نیا کمیونٹی ٹیکس ابتدائی طور پر ویلز اور اسکاٹ لینڈ میں نفاذ کیا تو اس کی رو سے ایک عام شہری اور امراء دونوں کو ہی برابر شرح سے کونسل کو ٹیکس ادا کرنا پڑا، اس قانون کے خلاف لندن میں ٹریفالگر اسکوائر پر 30 جون 1990 میں فسادات پھوٹ پڑے جس کے بعد ان کی پارٹی نے انھیں قیادت چھوڑنے کی ہدایت جاری کردی اور یوں ان کی جماعت میں تفریق پیدا ہوگئی، بالآخر تھیچر اپنی ہی جماعت کے ایک امیدوار جان میجر سے شکست کھا گئیں اور اپنی جماعت پر انھیں کوئی اختیار نہ رہا۔ انھوں نے 28 نومبر 1990 میں وزارت کے عہدے سے استعفیٰ پیش کیا اور پارٹی لیڈر کی حیثیت سے جان میجر نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ 30جون 1992 میں انھوں نے برطانوی ایوان زیریں (ہاؤس آف لارڈز) میں شمولیت اختیار کر لی۔

مارگریٹ تھیچر کو خراجِ عقیدت
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مارگریٹ تھیچر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’وہ ’عظیم برطانوی تھیں، مارگریٹ تھیچر نے نہ صرف ملک کی رہ نمائی کی بل کہ ماضی میں ملک کو بچایا بھی، مجھے یقین ہے کہ تاریخ میں انھیں برطانیہ کی عظیم ترین وزیراعظم کے طور پر یاد رکھا جائے گا‘‘۔ امریکی صدر باراک اوباما نے انھیں ’آزادی اور خودمختاری کی چیمپئین قرار دیتے ہوئے کہا ’’امریکا تھیچر جیسی مخلص دوست سے محروم ہو گیا‘‘۔

جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا ہے ’’ سرد جنگ کے خاتمے پر یورپ کو تقسیم سے بچانے کے لیے میں مارگریٹ تھیچر کے کردار کو کبھی بھلا نہیں پائوں گی‘‘۔ برطانیہ کے سابق وزرائے اعظم جان میجر ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن نے بھی برطانیہ کے لیے مارگریٹ تھیچر کے کردار کو سراہا جب کہ لیبر پارٹی کے رہ نما ڈیوڈ ملی بینڈ نے مارگریٹ تھیچر کو ایک ’بے مثال رہ نما‘ قرار دیا، سابق سوویت صدر میخائل گوربا چوف کا کہنا ہے تھیچر شان دار سیاست دان تھیں۔

بکنگھم پیلس کے ترجمان نے ملکہ برطانیہ کی جانب سے لیڈی تھیچر کی موت پر گہرے افسوس کا اظہار کیا تھا اور ان کے اہل خانہ کو ایک تعزیتی پیغام بھجوایا۔ یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانوئیل بروسو نے کہا ’’وہ اپنے اقدامات اور ہمارے مشترکہ پراجیکٹس میں اپنے کردار کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔‘‘

***

ستر کی دہائی میں برطانیہ فلاحی ریاست ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں مثال بنا ہوا تھا۔ 1971میں کنزرویٹیو پارٹی کی ایک خاتون رکن مارگریٹ تھیچر کو حکومت نے وزارت تعلیم کا قلم دان سونپ دیا،وزیر بننے کے بعد انھوں نے اپنی وزارت کے اخراجات اور ملک کی خستہ حالی کا جائزہ لیا تو ایک ایسا فیصلہ کیا جو آج بھی برطانوی عوام کو’’Maggie Thatcher Milk Snatcher ‘‘ کے نام سے یاد ہے ۔ فیصلے کے مطابق سات سے گیارہ سال تک کی عمر کے سکول جانے والے بچوں کا دودھ بند کردیا جو حکومت کی طرف سے مفت ملتا تھا۔انھوں نے صاف کہ دیا تھا’’بچوں کو دودھ دینا حکومت کی نہیں ،والدین کی ذمے داری ہے‘‘۔ جب یہ ہوا تو ملک میں مارگریٹ تھیچر کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگیں اور دنیا بھر میں برطانوی فلاحی ریاست زیر بحث آگئی تھی ۔ برطانوی عوام اس فیصلے کو بھولے نہیں، وہ اب بھی ان کو ’’بچوں کا دودھ چھیننے والی‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔