ہمارے معاشرے کا مسخ چہرہ!!!

شیریں حیدر  اتوار 21 اپريل 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مامون اور امین… خلیفہ ہارون الرشید کے فرزند تھے،  ہر بچے کی طرح ماں باپ کی آنکھوں کے تارے، ا ان کی تعلیم و تربیت کے لیے جب خلیفہ کی نظر امام مالک بن انس پر ٹھہری تو خلیفہ نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے بیٹوں کے لیے قرآن پاک کی تعلیم کا ذمہ  لیں ۔ مالک بن انس نے واضح طور پر کہہ دیا کہ اس کے لیے خلیفہ کو اپنے بچوں کو مدرسے بھجوانا ہو گا نہ کہ استاد سے توقع کی جائے کہ وہ انھیں پڑھانے کو آئے ۔ استاد کی اس بات کو تسلیم کر لیا گیا اور اس کے بعد تھوڑی رد و کد کے بعد اس بات کو بھی تسلیم کر لیا گیا کہ خلیفہ کے بیٹے بھی مدرسے میں عام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھیں گے۔ اس کے بعد اگر کسی نے ان بچوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے بھی دیکھا تو اس بات پر کہ ان میں سے استاد کی جوتیاں کون سیدھی کرے گا۔

پھر مجھے یاد آ گیا کہ چند دن قبل میں ایک شادی میں گئی تو وہاں نوجوان لڑکیوں کا ایک گروپ بیٹھا ہوا تھا، میں کہیں بیٹھنے کو جگہ ڈھونڈ رہی تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اس کی دیکھا دیکھی دو تین اور لڑکیاں بھی کھڑی ہو گئیں۔ ’’ آپ لوگ بیٹھیں بیٹا! ‘‘ میں نے انھیں اٹھتے دیکھ کر تشکر سے کہا۔

’’ آپ کھڑی ہیں تو ہم کیسے بیٹھ سکتے … ‘‘ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، ایک لمحہ لگا اور میں اپنی اس طالبہ کو پہچان گئی جسے میں نے چند برس قبل استاد کی حیثیت سے پڑھایا تھا۔ ’’مشعل… ‘‘ میں نے ان کی ذہین آنکھوں کو پہچانا اور وہ میرے ساتھ لپٹ گئی…

’’ میڈم!! ‘‘ وہ میرے ساتھ لپٹے لپٹے چیخی، ’’کتنے عرصے کے بعد  ہماری ملاقات ہوئی ہے میڈم! ‘‘

’’ بالکل درست… ‘‘ میں نے اس کے سر پر بوسہ دیا، ’’ بہت اچھا لگا تمہیں دیکھنا بیٹا! ‘‘

’’ میں تو ہمیشہ دعا کرتی ہوں میڈم کہ میرے بچوں کو بھی آپ جیسے استاد ملیں!‘‘ اس نے خواہش کا اظہار کیا۔

’’ تمہارے بچے؟ ‘‘ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔

’’ یس میڈم… میں ایک ڈاکٹر ہوں… ایک بیٹی ہے میری اور میری پوری کوشش ہے کہ وہ ایک اچھی طالبہ ہونے کے علاوہ اچھی انسان بھی بنے!!  بالکل اسی طرح جس طرح آپ نے ہمیں یہ اعتماد دیا اور ہمیں بتایا کہ اچھا انسان ہونا اچھا طالبہ ہونے سے زیادہ اہم ہے…‘‘  میری کہی ہوئی اس بات کو اس کا دہرانا تھا کہ آنکھیں لبریز ہونے لگیں۔

’’ مجھے فخر ہے تم جیسی طالبات پر اور میری دعا ہے کہ ہمیں آج بھی تم جیسی بچیاں ملیں، جن کے دلوں میں اپنے استادوں کا احترام ہے، اتنا کہ جب ان کا استاد کھڑا ہو تو وہ بیٹھتے تک نہیں…‘‘

’’ ہمارے استادوں کی ہی تربیت ہے یہ میڈم اور ہمیں فخر ہے اس بات پر کہ ہمیں ایسے اساتذہ ملے!‘‘  نشستیں ملیں اور ہم بیٹھ گئے اور مجھے اندازہ ہوا کہ اس نسل تک بھی بچوں کو استاد کی عزت اور احترام کا سبق دیا جاتا تھا۔ اب چیزیں کس قدر بدل گئی ہیں۔

اپریل ۲۰۱۳ کے وسط کی کوئی تاریخ ہے… پاکستان کے وفاقی دارالحکومت  میں  ایک پبلک مقام کا منظر ہے… چند نوجوان طالب علم ہیں،  جن کے ہاتھوں میں کسی قسم کے ہتھیار ہیں یا نہیں، مگر اس کا غصہ ان کی بڑی طاقت ہے اور غصہ بھی اس استاد پر جو کہ انھیں کمرہ امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑ لیتا ہے اور تنبیہہ کرتا ہے۔ یہ چند نوجوان اس دور کے نوجوان ہیں جس میں ان کے والدین انھیں درس دیتے ہیں کہ اپنے مفاد کے لیے سب جائز ہے… دنیا میں اس کی اپنی ذات سب سے اہم اور باقی سب ہیچ ہے… استاد کیا ہے،  ایک سرکاری یا غیر سرکاری تنخواہ دار ملازم، جس کا کام تنخواہ لینا اور اپنے کام سے کام رکھنا ہوتا ہے، جو ان کے بچوں پر سختی کرنے کی کوشش کرے گا، انھیں غلط کام سے روکے گا، وہ اپنے کیے کی سزا خود ہی بھگت لے گا خواہ وہ کوئی استاد ہی کیوں نہ ہو۔

ٹیلی وژن اور پھر اخبار کے ذریعے ہم سب نے دیکھا اور سنا کہ کمرہء امتحان میں نقل کرنے پر منع کرنے پر طلباء کے ایک گروپ نے اس استاد کو ایک پبلک مقام پر، درجنوں لوگوں کی موجودگی میں مار مار کر لہولہان کر دیا اوراسے اسی طرح چھوڑ کر فرار ہو گئے۔استاد جسے ہمارا مذہب روحانی ماں باپ کہتا ہے اور اس کا درجہ ان والدین سے بلند ہے جو اولاد کو جنم دیتے اور اسے پالتے پوستے ہیں۔ والدین جسمانی طور پر پرورش کرتے ہیں تو استاد روحانی طور پر۔ اس اہم درجے کے حامل استاد کے ’’ حشر کرنے ‘‘ کی خبر،  ایک خبر نہیں… ہم سب کے منہ پر تھپڑ کے مترادف ہے، یہ  تصویر ہے ہمارے معاشرے کے مسخ چہرے کی، جہاں استاد کو عزت نہیں دی جاتی بلکہ اسے ذاتی ملازم کی طرح سمجھ کر اس کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی اہم وجوہات میں سے اہم وجہ ان کی اپنے اساتذہ کی عزت ہے۔ ہماری نظروں میں سپر پاور…  امریکا میں تین قسم کے لوگوں کو وی آئی پی کا درجہ حاصل ہے اور ہر اک کو خاص مراعات حاصل  ہیں، معذور، سائنس دان اور اساتذہ۔

…فرانسیسی عدالتوں میں کسی عالم یا استاد کے سوا کسی کو کرسی پیش نہیں کی جاتی۔

…جاپان میں کسی استاد کر کسی الزام کے تحت گرفتار کرنے کے لیے حکومت کے خصوصی اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔

…کوریا میں کوئی بھی عالم اور استاد اپنا کارڈ دکھا کر ان سہولتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے جو ہمارے ملک میں وزیروں  اور مشیروں کو حاصل ہوتی ہیں۔

جن ممالک اور معاشروں میں استاد کی عزت نہیں کی جاتی، وہاں اچھے انسانوں کی بجائے ایسے ہی غنڈے، لٹیرے اور بدمعاش پیدا ہوتے ہیں جو ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں، کیونکہ ہم بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو استاد کی اہمیت کو نہیں مانتا، ایسے معاشرے انسانوں کے ذہنی زوال کے عکاس ہوتے ہیں۔

چند برس پیچھے چلے جائیں تو شفیق سے شفیق استاد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور جوکچھ اب ہو رہا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جن گھروں میں دولت، شہرت اور عزت راتوں رات اور چور دروازوں سے آتی ہے ان گھروں کے سپوت ہی ایسے معرکوں کے لیڈر ہوتے ہیں۔

by hooks or by crooks، ڈگری کا حصول اولین ترجیح ہے جو کہ چند برس پہلے تک ایسا ضروری نہ تھا کہ اب ڈگری ہم پر حکومت کرنے کو ایک شرط قرار پائی ہے، سو ڈگری بغیر نقل کیے یا اپنی جگہ پر کسی اور کو بٹھا کر امتحان دلائے بغیر تو نہیں مل سکتی اور جو اس راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرے گا اس کا جو حشر ہو گا… وہ ہم سب نے اور چشم فلک نے دیکھ لیا ہے۔

ماں باپ کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے اور عبرت کا مقام ہے ہم سب کے لیے کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو اس اہم نقطے کی طرف سے غافل رکھ کر اپنے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں گروی رکھ دیا ہے جو ملک کو تیزی سے اخلاقی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں… بچوں کے ساتھ ساتھ کچھ ضمیر فروش اساتذہ بھی اس اخلاقی پستی کی طرف جانے کے ذمے  دار ہیں، جو رشوت دے کر اپنی ڈیوٹی امتحانی مراکز میں لگواتے ہیں، اس کا انھیں علیحدہ سے عوضانہ تو ملتا ہی ہے، اس کے علاوہ… ’’ ضرورت مند‘‘ طلباء و طالبات کی طرف سے انھیں اوپر کی آمدنی بھی حاصل ہو جاتی ہے۔

جہاں استاد جیسے معزز اور مہذب پیشے کو بھی نیلام کر دیا جائے کہ اس کے سوا تن ڈھکنا اور پیٹ بھرنا مشکل ہو جاتا ہے، کیا ہم پر یہ ذمے داری عائد نہیں ہوتی کہ اہل علم کو اس معاشرے میں مقام دیا جائے، ان کی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے انھیں خصوصی مراعات دی جائیں اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کو اپنے اساتذہ کا احترام کرنا ہی سکھا دیں، اس سے قبل کہ ہم اخلاقی پستی کے لحاظ سے بھی عالمی سطح پر پہلے نمبر پر آ جائیں!!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔