خدا دلوں سے واقف ہے

عبدالقادر حسن  جمعرات 17 مئ 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان ایک طویل مدت سے دوراہے پر کھڑا ہے پہلا دوراہا تو شروع میں ہی اس وقت راستے میں آگیا جب قیام پاکستان کے بعد ان تمام وعدوں کے الٹ عمل شروع ہو گیا جو تحریک پاکستان کے دوران کیے گئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد چونکہ کوئی حکمران بھی معمول کے مطابق اقتدار پر قابض نہیں ہوا بلکہ کسی نہ کسی حادثے یا سازش کے تحت حکمران بنتا رہا اس لیے ہر حکمران اس قوم کے راستے میں ایک نیا دوراہا کھڑا کرتا گیا۔

یکسوئی اس قوم کو نصیب نہ ہو سکی وہ تو بھلا ہو ایٹم بم بنانے والوںکا یا کرم ہوا باری تعالیٰ کا کہ بعض سائنس دانوں کے دلوں میں یہ فرض ڈال دیا گیا اور وہ دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ کام کرتے رہے ورنہ آج بھارت کے مقابلے میں ہم ایک نیم آزاد ملک بلکہ غلام کی زندگی بسر کر رہے ہوتے اور ہم پر رسوائی اور ذلت مسلط کر دی جاتی ۔

مجھ میں تو اس تصور کی بھی ہمت نہیں حالانکہ میں نے ہندوؤں کے زیر سایہ  زندگی کا ایک پل بھی نہیں گزارا لیکن جو کچھ سن اور دیکھ رکھا ہے میرے لیے وہی ناقابل برداشت ہے ۔ ان حالات کا تصور کیا جائے تو وہ لوگ بے وقوف ، سازشی اور امت کے دشمن نظر آتے ہیں یا پھر وہ ایسے بہروپیئے اور نام نہاد مسلمان ہیں جو ہندو سکھ یہودی عیسائی ہر ایک کی غلامی میں زندگی بسر کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے ۔ ایسے کشادہ دل مسلمان ہمارے ہاں کئی ہیں جو بھارت کی بالادستی اور اس کی سر پرستی میں رہنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں لیکن قوم ایسے غداروں کو اچھی طرح جانتی ہے اور ان کو قبول نہیں کرتی۔

دوراہوں کا ذکر کیا تھا قوم آج پھر ایک نئے دوراہے پر کھڑی کر دی گئی ہے اگرچہ دونوں راستے بہت واضح ہیں اور منزل کا سنگ میل دور سے بھی صاف دکھائی دے رہا ہے ایک راستہ خودی کا راستہ ہے جس کا ذکر ہم اقبال سے سنتے چلے آرہے ہیں اور جس کا مفہوم آج بہت واضح ہوا ہے لیکن ہم نے خودی کو چھوڑ کر غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے کو زیادہ پسند کیا ہے ۔ غیروں کو خوش اور اپنوں کو ناراض کر کے ہم نے ایک نیا دوراہا چنا ہے ۔ ستر برسوں کے بعد ہم نے اپنے آپ کو ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اورکٹہرے میں کھڑا کرنے والے بھی ہم خود ہی ہیں ۔

اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک کو اپنی ذاتی خواہشات اور انا کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جو ملک ہمارے بزرگوں نے کئی قربانیوں کے بعد حاصل کیا اس کی باگ ڈور ایسے خود غرض اور نادان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جنہوں نے اس ملک کو ذاتی جاگیر میں تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اس میں ناکامی کا غصہ اب تک اسی ملک پر اتارنے کی کوشش میں ہیں جس کی وجہ سے ان کی اس دنیا میں کوئی پہچان ہے ۔ نادان اور مطلبی لوگوں کا ایک ٹولہ ہے جو اس نادر روزگار ملک کے وسائل پر قبضے کے لیے اپنے پنجے گاڑنے کو تیار بیٹھا ہے لیکن یہ اسلامی مملکت کسی نادیدہ قوت کے بل بوتے پر ابھی تک اس ٹولے سے بچتی چلی آرہی ہے ۔

پاکستان کوئی غریب ملک نہیں اسے اسی ٹولے نے غریب بنا دیا ہے ۔ ہمیں ایک اچھی ، عقلمند اور دیانت دار قیادت ابھی تک نصیب ہی نہیں ہو سکی جو بھی آیا وسائل کو لوٹ کر چلتا بنا۔ اگر ایک نیک قیادت ہمیں مل جاتی تو ہمارے ملک کے وسائل اتنے زیادہ ہیں اور عوام میں ایمان کی طاقت کا زندہ جذبہ ابھی موجود ہے کہ ہم اپنے حالات کو خود ہی بہتر کر سکتے ہیں ۔ ہمیں شائد بیرونی امداد کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن پھر یہی عرض ہے کہ ایک نیک نیت اور دیانت دار حکومت کی ضرورت ہے۔

میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہوں اس لیے مجھے یقین ہے کہ ہمیں کوئی مالی مشکل درپیش نہیں ہے بلکہ ہمیں چند سیاستدان اور چند نامور لوگ درپیش ہیں جو ہماری خوش حالی اور آبرومندانہ زندگی کے محل کے دروازے پر رکاوٹ بن کر بیٹھے ہیں جس دن ہم ان چوروں اچکوں کے اس ٹولے کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گئے اس دن ہمارے خوش حالی کا بند محل کھل جائے گا۔

ہمارے سامنے اس نئے دوراہے کا دوسرا راستہ بھی کھلا ہے اور اس کے لیے ہمارے دشمن پوری طرح سرگرم ہیں ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان ان کا طفیلی بن کر رہے وہ تو بھلا ہو ایٹم بم کا جس نے ہمارے اندر ہمت پیدا کی اور ہم اب دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں ۔پہلے پہل تودشمنوں نے ہمارے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی رہے اور پاکستان کا دنیا میں تعارف ایک دہشت کی علامت بن گیا اور یہ کوشش بدستور جاری ہے اور اس کو ایسی ہنر مندی اور چالاکی کے ساتھ جاری رکھا گیا ہے کہ دنیا ہماری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پیش کی گئی قربانیوں کا اعتراف کرنے پر بھی تیار نہیں ۔

ہمارے حکمرانوں کو دہشت گردی کے اس شکنجے میں اس بری طرح پھنسا دیا گیا اور ایک ایسا خطرہ دکھایا گیا جس کا فی الوقت کوئی وجود نہیں مگرہر دم خوفزدہ کمزورحکمران اس سے ڈر گئے اور ساتھ ہی عوام کو بھی ڈرایا جاتا رہا حالانکہ حکومت کا کردار عوام کے لیے ایک باپ کا ہوتا ہے جو کہ ہر وقت اپنے عوام پر سایہ کیے رہتی ہے تا کہ انھیں ہر قسم کی مشکلات اور پریشانیوں سے دور رکھا جاسکے لیکن یہاں معاملات اس کے الٹ چلتے رہے اور حکمران عوام کے تحفظ کے بجائے اپنی حفاظت میں لگ گئے اور اس حفاظت کے لیے ملک کو بھی داؤ پر لگا دیا گیا دشمن کی سازشوں سے تو ملک کا کیا نقصان ہونا تھا لیکن اپنوں نے ہی ان سازشوں کو پروان چڑھا دیا لیکن مجھے ایک بات کا یقین ہے کہ جس طرح اللہ تبارک تعالیٰ نے سائنس  دانوں کو توفیق دے کر ہمارے اسلامی ملک کو کسی دشمن کے دست نگین ہونے سے بچایا اسی طرح وہ اس ملک کو پھر بھی بچا لے گا کیونکہ اس ملک کے ساتھ عوام کا اخلاص ناقابل شکست ہے اور خدا دلوں کا حال جانتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔