خوش آمدید۔۔۔ رمضان

امجد اسلام امجد  جمعرات 17 مئ 2018
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

کہیں افطار کا حیلہ تو نہیں ہے حالی
آپ اکثر رمضاں ہی میں سفر کرتے ہیں

کل بھکر سے لاہور واپسی کے دوران مولانا حالی کا یہ دلچسپ اور مزیدار شعر بار بار یاد آیا کہ اگرچہ ابھی رمضان کا مبارک اور بابرکت مہینہ شروع نہیں ہوا لیکن یہ میرا سفر میں ساتواں مسلسل دن تھا اور چونکہ ان اسفار کا سلسلہ بالواسطہ طریقے سے رمضان سے جڑا ہوا ہے اس لیے ایک نیم استعاراتی سا رشتہ بہرحال بن جاتا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگرچہ ہم پاکستانی بالخصوص اور امت مسلمہ بالعموم طرح طرح کے ذہنی فکری‘ تعلیمی‘ معاشی اور سیاسی مسائل میں گھری ہوئی ہے اور ہماری مجموعی کارکردگی پسماندگی اور ترقی پذیری کے درمیان کہیں اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے مگر خیرات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے ضمن میں انفرادی سطح پر ہمارا ریکارڈ بہت شاندار اور قابل تقلید ہے اور خاص طور پر ماہ رمضان کے آغاز اور اس کے دوران لوگ نیکی فلاح اور خدمت خلق کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان کاموں سے متعلق تمام ادارے بھی ان دنوں میں خصوصی مہمات کا اہتمام کرتے ہیں۔ میڈیااور اخبارات میں اشتہارات اور مختلف طرح کے پوسٹرز کی شکل میں یہ نیک دل لوگ اپنے اپنے فلاحی پروگراموں کے لیے عطیات جمع کرنے اور اپنے کام سے متعلق آگاہی کمپینز ترتیب دیتے ہیں کہ زیادہ تر مسلمان انھی دنوں میں اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔

ہمارے الخدمت فاؤنڈیشن کے احباب نے بھی اسی حوالے سے اپنے ’’کفالت یتامیٰ‘‘ پروگرام کے لیے خصوصی فنڈریزر کا اہتمام کیا تھا جس کی معرفت مجھے بھی سیالکوٹ‘ اوکاڑہ‘ سرگودھا اور بھکر میں اس نیک کام کے لیے ان کا ساتھ دینے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ’’الخدمت‘‘ کے موجودہ صدر میاں عبدالشکور اور ان کے بیشتر احباب سے ذاتی تعلق اور محبت کا ایک رشتہ برسوں سے چلا آ رہا ہے کہ ہم سب اپنے تعلیمی سفر کے دوران آگے پیچھے ہی تھے۔

ان دوستوں کا نظریاتی تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور اگرچہ میں کبھی اس جماعت کا ممبر یا اس کے زیادہ قریب نہیں رہا مگر نصف صدی سے زیادہ کے اس عرصے میں، میں نے عملی طور پر ان لوگوں کی محنت دیانت اور خدمت انسانی کے جذبے کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے بیشتر فلاحی منصوبوں کی تفصیلات میرے علم ’’مشاہدے اور تجربے میں ہیں، اس لیے ان کی اعانت کی خاطر مجھے ملک کے اندر اور بیرون ملک سفر کی سختیاں جھیلنا صرف قبول ہی نہیں بلکہ اچھا بھی لگتا ہے کہ اگر اس وسیلے سے ہمارا خرچ کیا ہوا وقت خلق خدا کی بہتری اور فلاح کے کام آسکے تو اس سے زیادہ اچھی اور پسندیدہ بات کیا ہو سکتی ہے۔

اسی حوالے سے مجھے برادرم امجد ثاقب کے بے مثال ادارے ’’اخوت‘‘ تعلیمی ادارے ’’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘ ابرار الحق کی ’’سہارا فاؤنڈیشن‘‘ ڈاکٹر شہریار کے کینسر کیئر اسپتال‘ میاں عبدالشکور کی الفلاح اسکالر شپ اسکیم اور ایبٹ آباد میں قائم کردہ سعودی عرب میں مقیم کچھ پاکستانی ڈاکٹروں کے فلاحی ادارے ’’کڈنی سینٹر‘‘ کے مختلف فنڈریزرز میں بھی شمولیت کا موقع ملا ہے جب کہ ان کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن‘ شوکت خانم میموریل اسپتال‘ فاؤنٹین ہاؤس‘ ڈاکٹر ادیب رضوی کے Suit کراچی کے انڈس اسپتال گونگے بہرے بچوں کے ادارے ’’رائزنگ سن‘‘ منو بھائی مرحوم والی سندس فاؤنڈیشن برادرم شاہد اقبال کے ’’نعمت‘‘ شالیمار اسپتال‘ جنت الفردوس ٹرسٹ‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے اسپتال اور کچھ اور فلاحی اور تعلیمی اداروں سے بھی میرا کچھ نہ کچھ تعلق ہے اور رہا ہے ۔

یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ کسی کو اس کارخیر میں عملی طور پر حصہ ڈالنے اور لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنے کا موقع مل جائے کہ نیکی کی ترغیب دینا بھی اپنی جگہ پر ایک نیک اور پسندیدہ عمل ہے۔

سو اگر ہم میں سے کسی کے شعر یا تقریر سننے یا مزاح اور گانے سے لطف اندوز ہونے کے بہانے کچھ ایسے لوگ بھی ان کاموں سے آگاہ اور ان کی طرف مائل ہو جائیں جو کسی نہ کسی وجہ سے ان سے دور یا بے خبر تھے تو یہ گویا ایک طرح کا اظہار احسان مندی ہے کہ رب کریم نے ہمیں اس کارخیر میں حصہ لینے کی توفیق اور موقع فراہم کیا۔ ان معاملات سے اپنے ذاتی تعلق کا ذکر اور اظہار ایک اعتبار سے قدرے سطحی‘ ہلکی اور نمائشی سی بات لگتی ہے اور بہت حد تک ہے بھی لیکن میں نے صرف اس لیے اس ’’خطرناک‘‘ راستے پہ چلنے کا رسک قبول کیا ہے کہ اس میں وہ ترغیب دلانے والی نیکی کی خوشبو شامل ہے۔ جسے ہمارے رسول پاکؐ نے ایک جائز احسن اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔

اس کارخیر اور فلاح کے ان اچھے اور انسانی دوست اداروں کے ذکر کا اصل مقصد یہی ہے کہ ہم سب زیادہ سے زیادہ اس کی طرف خود بھی راغب ہوں اور دوسروں تک بھی یہ پیغام پہنچائیں کہ رب کریم کے نزدیک اس کے بندوں کی خدمت اس کی اپنی عبادت سے بھی افضل اور مستحسن ہے، البتہ اس کے لیے وہ طریقہ سخت غلط اور ناپسندیدہ ہے جو پچھلے چند برسوں سے ہمارے ٹی وی چینلز نے خصوصی رمضان ٹرانسمیشن کے نام پر اپنا رکھا تھا، امید اور دعا کرنی چاہیے کہ عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق آیندہ اس روش سے گریز کیا جائے گا اور اشتہار بازی میں رمضان کی اصل روح اور اس کے احترام کا خیال رکھا جائے گا۔ چند برس قبل ایک عمرے کے دوران ریاض الجنتہ کے نواح میں کہی گئی ایک نعت کے اشعار کچھ اس طرح سے ہیں

پناہ مجھ کو ملے مصطفےؐ کے داماں میں
کمی کوئی نہ رہے کاش میرے ایماں میں

عطا ہوا ہے مجھے پھر سے حاضری کا شرف
نگاہ اٹھتی نہیں ہے وفور احساں میں

کرم کی ایک نظر ہو کہ لے کے نذر سلام
حضورؐ میں بھی کھڑا ہوں صف غلاماں میں

سوائے اشک ندامت‘ بجز امید کرم
نہیں ہے کچھ بھی مری آخرت کے ساماں میں

احاطہ جس سے ہو ممکن مری عقیدت کا
نہیں وہ لفظ کہیں بھی‘ لغت کے داماں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔