امرتا پریتم ، حقیقت اور فسانہ

توقیر چغتائی  جمعرات 17 مئ 2018

کامیاب لکھاریوں کی سب سے بڑی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد میں یکساں مقبول ہوتے ہیں۔ امرتا پریتم کا تعلق بنیادی طور پر پنجابی ادب سے تھا، مگر ان کی تخلیقات کے تراجم نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں چھپ چکے ہیں اور وہ اپنے دورکی مقبول ترین مصنفہ اور شاعرہ کہی جا سکتی ہیں۔

امرتا نے اپنی تخلیقات کے ذریعے برصغیر کے جاگیردارانہ معاشرے میں خواتین کے دکھ درد اور مصیبتوں کو جس انداز سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اس کی ایک ہلکی سی مگر انتہائی بے رحمانہ جھلک ان کے مشہور زمانہ ناول ’’پنجر‘‘ میں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہے۔

ان کی زندگی سے جڑے ایسے بہت سارے واقعات کا حقیقت سے دورکا بھی تعلق نہیں تھا جنھیں کچھ مصنفین بغیر تحقیق کے اپنی تحریر کا حصہ بناتے ر ہے۔ پنجابی زبان و ادب کی ترویج کے لیے اپنے رسالے ’’ناگ منی‘‘ کے ذریعے امرتا نے پاک و ہند کے نوجوان لکھاریوں کو جو حوصلہ دیا اس کی مثال بھی ماضی کے کسی رسالے کے حصے میں شاید ہی آئی ہو لیکن ان کے اس رسالے کی پالیسی پر بھی بائیں بازوکی سوچ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لکھاریوں کو اختلاف تھا۔امرتا سے ہماری پہلی ملاقات 1992ء میں ہوئی تھی۔

جس کے بعد اور ان کی موت سے چار سال قبل تک ہمیں لگ بھگ دس بارہ دفعہ ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا لیکن ٹیلی فون پر ان سے اور امروز سے تب تک رابطہ رہا جب تک وہ بات کرنے کے قابل تھیں۔ موت سے پانچ چھ ماہ پہلے جب لندن سے ہم نے آخری دفعہ فون پر ان سے بات کی تو انھیں گفتگو میں بہت زیادہ مشکل درپیش تھی اور ان کی بات سمجھنا بھی مشکل تھا جس کے لیے امروز کو دوبارہ وہ بات دہرانا پڑتی جو وہ کہنا چاہتی تھیں۔ بھارت، پاکستان اور دنیا بھر میں امرتا کے چاہنے والوں کی جہاں کمی نہیں تھی، وہاں ان کے مخالفین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور ہے۔

ان مخالفین میں جہاں مذہب کی بنیاد پر اعتراض کرنے والے سکھ دھرم کے سر کردہ رہ نما شامل تھے وہاں ادب سے تعلق رکھنے والے مختلف سوچ کے حامل ادیب اور شاعر بھی پیش پیش تھے۔ امرتا کو ان کی ذات سے منسوب ایسی فرضی باتوں کا بہت دکھ تھا جس کا سرے سے ان کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔گفتگو کے دوران جب بھی ان کی ذاتی زندگی، ساحرؔ سے معاشقے اور امروز کے ساتھ مستقل رہائش رکھنے کے سلسلے میں لکھی جانے والی تحریروں کی بات چلتی تو وہ کہتیں’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کسی شخص سے ملے بغیر اس کی زندگی اور ذات کے بارے میں اتنا کچھ کیسے لکھ سکتے ہیں۔‘‘

امرتا نے پنجابی ادب کو اٹھائیس ناول، ایک آپ بیتی، بائیس شعری مجموعے، نثرکی پندرہ کتابیں اور ایک سفر نامہ دیا۔ان کی لگ بھگ تمام کتابیں پہلے پنجابی میں چھپ کر سامنے آتیں اور اس کے فورا بعد بھارت کی دوسری اہم زبانوں میں بھی چھپ جاتی تھیں۔

پاکستان سے بھارت جانے والے زیادہ تر لکھاریوں کی یہ کوشش ہوتی کہ وہاں پہنچنے کے بعد وہ پنجابی کے کسی دوسرے ادیب سے چاہے نہ ملیں امرتا سے ضرور ملیں۔ بہت ساروں کا یہ بھی خیال تھا کہ امرتا ہندی اور اردو میں لکھتی ہیں جو درست نہیں ۔ زیادہ تر کی تحریروں کا محور ان کی ذات ہوتی یا ساحر لدھیانوی سے ان کا معاشقہ جسے خوب نمک مرچ لگا کر پیش کیا جاتا حالانکہ اس میں نہ نمک تھا نہ مرچ بلکہ محبت کا ایک جذبہ ضرور موجود تھا اور امرتا کا یہ یک طرفہ جذبہ بھی اپنے پہلے شوہر سے طلاق کے بعد بیدار ہوا تھا۔

امرتا پریتم کے خاندان، بچپن، جوانی، شادی، شاعری، طلاق،ساحر، امروز، اولاد ، شہرت اور موت کے بارے میں وہی شخص کچھ لکھ سکتا ہے جس نے امرتا کو اپنی زندگی میں قریب سے دیکھا ہو۔اُس کے خیالات سے اتفاق یا اختلاف رکھتا ہو اور ان کرداروں سے بھی واقف ہو جو اس کے آس پاس موجود تھے۔صرف ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ پڑھ کر امرتا پر لکھنے والے بے شمار ادیبوں کے بجائے لاہور کے چند نوجوان لکھاریوں کے امرتا سے کیے گئے وہ انٹرویو زکہیں زیادہ حقیقت پسندانہ ، قابل تعریف اور قابل اعتبار ہیں جو ان کی موت سے چند برس پہلے کیے گئے تھے۔

’’ایہہ جنم تمہارے لیکھے‘‘ امرتا پریتم کی زندگی پر لکھا گیا ایک منفرد ناول ہے جسے پنجابی کے معروف کہانی کار، ادیب، صحافی اور دانش ور گربچن سنگھ بھلر نے لکھا ہے۔ چار سو صفحات کے اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں امرتا کی زندگی سے جڑے کچھ کرداروں کو ان کے اصلی نام سے اور کچھ کو فرضی ناموں کے ساتھ پیش کیا گیا، مگر جو قارئین امرتا کے ہم عصر ادیبوں کے نام اور کام سے واقف ہیں وہ انتہائی آسانی سے ان کرداروں کو بھی پہچان لیتے ہیں جنھیں فرضی نام دیا گیا ہے۔

بہت سارے پڑھنے والوں نے اس ناول کو امرتا کی زندگی کا تنقیدی جائزہ قرار دیا ہے اور بہت ساروں نے اسے امرتا کی زندگی کو انتہائی قریب سے دیکھنے پرکھنے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔ میرے سمیت جن قارئین نے امرتا کوانسانی عظمت کی بلند و بالا مسند پر براجمان کر رکھا تھا ان کی سوچ اس وقت ڈگمگا جاتی ہے جب ناول نگار ان کی طلاق کا ذمے دار ان کے شوہر کے بجائے خود انھیں قرار دیتا ہے۔

بہت ساروں کے سامنے یہ سچ بھی آتا ہے کہ ساحر اور امرتا کی ایک دوسرے سے ہونے والی ملاقاتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی مشہور تھی یا ان ملاقاتوں کو جس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا۔ساحر نے امرتا سے شادی کیوں نہ کی اور امروز کے ساتھ وہ پوری زندگی بغیر شادی کیوں رہتی رہیں۔

اتنی بڑی مصنفہ ہونے کے باوجود بمبئی کی فلم انڈسٹری نے انھیں قبول کیوں نہ کیا، اپنی بیٹی کندلاں بیٹے نوراج اور انتہائی با وفا شوہر پریتم سنگھ سے انھوں نے بے وفائی کیوں کی جیسے سوالات کا جواب بھی اس ناول میں آسانی سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔گربچن سنگھ بھلر نے اس ناول کو امرتا کی پیدائش سے شروع کیا اور ان کی موت تک پیش آنے والے تقریبا تمام واقعات کو انتہائی بہترین ڈھنگ کے ساتھ پیش کر دیا۔

ہمارے خیال میں اس ناول میں سب کچھ موجود ہے مگردہلی کے علاقے حوض خاص میں ان کے میوزیم نما مکان کے بکنے اور ٹوٹنے کا بھی ذکر نہیں، امرتا کے بعد امروز کس حال میں ہیں اس کا بھی پتہ نہیں چلتا اور ان کے اکلوتے بیٹے نوراج کی موت کا بھی کوئی ذکر نہیںجسے امرتا کی موت کے دو سال بعد انتہائی بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔