موجودہ مسائل اورعمرفاروق ؓ جیسا حکمران؟

ذوالقرنین زیدی  جمعرات 17 مئ 2018
znzaidi@yahoo.com

[email protected]

کسی بھی مسئلے کا حل تلاش کرنا مقصود ہو تو عوامل، وجوہات اور محرکات کا ادراک کیا جانا ضروری ہوتا ہے، جس کے لیے زاویہ نظر اور انداز فکرکا کردار اہم ہوتا ہے۔ انداز فکر وہی بہتر ہوسکتا ہے جو پورے تین سو ساٹھ زاویوں سے نہ سہی کم از کم چھ اطراف سے کسی بھی شے کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اگر مطلوبہ تمام زاویوں سے مسئلے کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے عوامل، وجوہات اور محرکات کا تجزیہ کرکے حل کے طریقے تلاش کیے جائیں تو بہتر نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

جب ہم اپنے اجتماعی یا قومی مسائل کی بات کرتے ہیں تو ’’اگرچہ‘‘ یہ ان گنت ہیں‘ مگر وجوہات بہت ہی محدود سی ہونے کے باوجود ان کے تدارک میں ناکامی کی وجہ یہی ہے کہ ہم ان کے عوامل اسباب اور محرکات کا ادراک کرنے اور پرکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ فورا ہی حل کی جانب لپک پڑتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کبھی کبھار وقتی طور پر ان مسائل سے چھٹکارا تو حاصل ہو جاتا ہے مگر مسائل جڑ سے ختم نہیں ہو پاتے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار بلاشبہ ملک میں موجود بہت سی خامیوں کو دورکرنے کے لیے پر عزم نظرآتے ہیں، وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور اس کے لیے وہ جنون کی حد تک اپنی تمام تر توانائیاں صرف بھی کر رہے ہیں۔

حال ہی میں چیف جسٹس نے عوام پر بے جا ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے بھی نوٹس لیا جو موبائل فون کے استعمال اور پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کے حوالے سے ہے ۔ چیف جسٹس نے پاور کمپنیوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی تنبیہ کردی ہے۔ پانی کے حوالے سے چیف جسٹس کمیشن قائم کرچکے ہیں، اگر چیف جسٹس ثاقب نثار اس حوالے سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستانی قوم پر ان کا احسان عظیم ہوگا۔

چیف جسٹس بنیادی طور پر ملک میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کافی فکر مند نظر آتے ہیں، اس حوالے سے بہت سے اقدامات بھی کر رہے ہیں اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے یہاں لاتعداد مسائل موجود ہیں اور سب کو ایک ساتھ دیکھنا ممکن نہیں مگر پھر بھی اگر چیف جسٹس اسی عزم کے ساتھ کوشاں رہے تو بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں اور اس حوالے سے ایک اچھے طبیب کی طرح انھیں قوم کی اصل بیماری کا پتہ چلا کر اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔ اس علاج کے ذریعے وہ قوم کی بہت سی خامیوں اور محرومیوں کو دورکر سکتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ من حیث القوم پاکستانیوں کی گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کو بھی بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

تعلیم یقینا ایک انتہائی توجہ طلب شعبہ ہے مگر محض اس شعبے کی بہتری سے اگر مسائل حل ہوتے ہوں تو صحت کا سارا شعبہ ہی تعلیم یافتہ ہے مگر اس شعبے کی حالت افسوس ناک حد تک گری ہوئی ہے اور اس شعبے کے ’’پڑھے لکھے‘‘ ڈاکٹروں کا حال مہذب حلقوں کے ان پڑھ لوگوں سے بھی بد تر ہے۔ تعلیم یافتہ طبقات سے انجینئر ہوں ، اساتذہ یا وکلا حتیٰ کہ علما‘ ایک بڑی تعداد کو ہوس زر نے اندھا بنا رکھا ہے۔

اگر شعبہ صحت کی بات کریں‘ بھلے یہاں کرپشن کو زیرو کی سطح پر لے آئیں مگر اس ناقص خوراک کا کیا کریں گے جو بیماریوں کی جڑ ہے (ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباََ دس فیصد لوگ ہیپائٹس کی بیماری میں مبتلا ہیں) اگر بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کا سدباب نہیں کیا جاتا تو ڈاکٹرز کوکتنا ہی دیانتدار بنا دیا جائے اورکتنا ہی بجٹ مختص کردیا جائے‘ صورتحال کو بہتر نہیں کیاجا سکتا۔

نظام عدل کو لے لیجیے، جب ملک میں قانون کی عملداری ہی ناپید ہوچکی ہو، معاشرے میں جرائم عام ہوجائیں، ہر روز ملزمان اور مقدمات کی نئی نئی کھیپیں تیار ہوتی ہوں، پولیس پراسیکیوشن اور وکلا کا جب حال ایک جیسا ہو تو عدالتیں اور جج بیچارے کیا کریں؟

ایسی صورتحال میں بھی رحمت باری تعالیٰ سے ناامید نہیں ہوا جاسکتا، ہاں البتہ سنجیدگی اور خلوص شرط ہیں،اگر یہ موجود ہوں تو پہلے ان تمام تکالیف کا باعث بننے والی بیماری کی تشخیص اور پھر اس بیماری کے عوامل اس کے محرکات اور پھر وجوہات کا پتہ چلاکر باآسانی علاج تلاش کیا جا سکتا ہے۔

اب حل کی طرف آتے ہیں، ہمارے سب سے بڑے مسائل احساس کمتری اور احساس محرومی (ناشکری) ہیں جن کی وجہ ہماری سوچ اور شاید رگوں میں دوڑتا ہوا غلامی کا زہر ہے، جس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد اس کی باقیات نے اس غلامانہ سوچ یا طرز فکر کو بھی پختہ کردیا۔ تو گویا سب سے پہلے ہمیں اپنے لاشعور میں بسی غلامی سے نجات کی تدبیر سوچنا ہوگی، اگر ہم اس غلامی کے چنگل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے بہت سے مسائل حل اور ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی۔ احساس کمتری اور احساس محرومی دور ہوا تو طبقاتی کشمکش کے رجحان میں بھی خود بخود کمی آنا شروع ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہوس زر گھٹنا اور ہماری اخلاقی قدریں بڑھنا شروع ہوجائیں گی۔

اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں اصول وضع کرنے ہوں گے، آئین پر عمل کرنا اور کرانا ہوگا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ ہی کے ماضی میں کیے گئے چند فیصلوں پر مکمل عملدرآمد اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے ستمبر 2015ء میں اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا جس پر صحیح معنوں میں تاحال عمل نہیں ہوسکا۔ اگر چیف جسٹس اس فیصلے پر عمل کرانے کی جانب کچھ توجہ دیں تو ملک میں اردو کو وہ مقام مل سکتا ہے جو درحقیقت کسی بھی قومی زبان کا ہونا چاہیے۔

اور یقینا قومی زبان اور ثقافت کا اپنے اصل مقام پر ہونا‘ قوم کے وقار کی علامت ہوتا ہے جو کسی بھی قوم میں احساس کمتری اور احساس محرومی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ نتیجا ملک کے تمام بالادست ادارے اگر قومی زبان کو آفیشل زبان کے طور پر اپنالیں تو طبقاتی تقسیم کو کم کرنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے اگر سی ایس ایس یا دیگر ایسے امتحانات یا انتخاب کے طریقہ کار وغیرہ کے لیے قومی زبان کو فوقیت دی جائے تو اعلیٰ عہدوں کی دوڑ کے لیے اردو پر عبور کی خواہش پیدا ہوگی۔

جس سے اردو زبان جاننے اور اپنی قومی زبان سے محبت رکھنے والا (محب وطن) طبقہ ہی آگے آئے گا، جو مقامی یا قومی (دیسی) ثقافتوں کے فروغ کا باعث بنے گا اور طبقاتی کشمکش کے رجحان میں کمی واقع ہوگی۔ ولایتی اور نیم ولایتی طبقے کی اجارہ داری میں کمی آنے سے طبقاتی تقسیم کا عمل خاص حد تک رک جائے گا۔ مختصراََ جب ملک میں انگریزی ’’اعلی زبان‘‘ نہ رہے گی تو خود بخود انگریز کی غلامی کا بھوت بھی اترنا شروع ہوجائے گا اور قوم کے غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کا عمل شروع ہو جائے گا، جس کا اثر خود بخود شعبہ تعلیم پر بھی پڑے گا اور یکساں نصاف اور مساوی سہولتوں کی راہ ہموار ہوگی جس سے بعد ازاں مذہبی تعلیم کو روایتی تعلیم کے قریب لانے میں بھی مدد ملے گی۔

عدالتی اور پولیسنگ کے نظام میں درستگی اگرچہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے جسے درست کرنے پر فوکس کرکے سسٹم کی بہتری کی کوششوں میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے کیونکہ جب پولیسنگ کا نظام درست اور عدالتیں بروقت انصاف فراہم کرنا شروع کردیں گی تو پھر کسی شخص یا ادارے کی جرات نہ ہوگی کہ کسی کی حق تلفی کرسکے (اس حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ کے فیصلوں بالخصوص تھانوں، عدالتوں اور جیلوں میں بائیومیٹرک تصدیق کا عمل ہے)۔

یوں بہت قلیل عرصے میں ہی پاکستانی قوم طبقاتی تقسیم کی سازشوں سے آزادی حاصل کرکے بہت سے مسائل سے نجات حاصل کرلے گی یا کم از کم چیف جسٹس کا حضرت عمر فاروق ؓ جیسا حکمران لانے کا خواب نہ سہی، عمر فاروقؓ کے ادنیٰ غلام جیسا ہی کوئی حکمران اپنے لیے چننے کے قابل ہو جائے گی جو فرات کے کنارے کسی کتے کے بھوکا مرجانے پر نہ سہی‘ کم از کم ملک کی کسی گارمنٹس فیکٹری میں ڈھائی تین سو افراد کو زندہ جلا کر مار دیے جانے پر تو روز محشر خود کو جوابدہ سمجھنے والا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔